روتا جائے بنجارہ

میں اسی خیال تک پہنچا کہ کرائے کا مکان ہے، سرائے ہے



انسان بھی قدرت کی کمال تخلیق ہے اور اس کا ہر دور لمحہ شب و روز زندگی کا کمال حسن انتظام کے ساتھ ہے۔ آمد روتے ہوئے، واپسی روتے ہوئے یار لاتے ہوئے۔ یہ ہے کردار یا انسانی زندگی کا وہ عرصہ جس کے درمیان اس نے اس جہاں میں وقت گزارا۔ جہان کو اﷲ کا سمجھا یا اپنا ذاتی جہان۔

جیسا سمجھا وہ انجام، جو جہان کو اﷲ کا جہان سمجھ کر رخصت ہوئے ان کو دنیا نے جو جہان کو اپنا سمجھتے رہے وہ خود روتے رہے اور دنیا ہنس ہنس کر ان کا تماشا دیکھتی رہی۔

میں اسی خیال تک پہنچا کہ کرائے کا مکان ہے، سرائے ہے، قیام بھول ہے اور اس خیال کو عطا کرنے پر ذات باری کا خاص طور پر احسان مند ہوں کہ یہ میرا وصف نہیں، مقام نہیں، اس کی عطا ہے۔ شکریہ میرے مالک! میں خضدار چار سال رہا دوران ملازمت اور وہ چار سال میری زندگی کے تجربات کا ایک اہم حصہ ہیں۔

ان چار سالوں میں، میں نے لوگوں کی خود غرضی، فریب، دھوکے، دنیا پرستی کے رویے کا قریبی مشاہدہ کیا اور عجیب بات ہے کہ یہاں ہی جو لوگ بہت قریب نہ تھے پر زمین میں ساتھ رہ کر دل سے قریب ہوگئے اور انھوں نے میرے دل میں خاص مقام بنا لیا۔

یہ بات بھی وہاں ہی دیکھی جو پڑھا، سنا کرتے تھے۔ اصل سے خطا نہیں کم اصل سے وفا نہیں۔ ساتھ کے لوگ وہاں کم اصل ثابت ہوئے اور غیر اصل اس کا مطلب ہرگز یہ نہ سمجھیے گا کہ وہاں باہر سے یعنی بلوچستان کے علاوہ کہیں اور سے آنے والوں سے کوئی بہتر سلوک ہوتا ہے۔ یہ نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ بات ان لوگوں کی ہورہی ہے جو سندھ اور پنجاب سے یہاں آئے ہوئے تھے۔

جان ہے تو جہان ہے۔ اس کا لوگوں نے مطلب ہی غلط نکال کر اسے گمراہ کن نعرہ بنا دیا۔ اس محاورے کا مطلب یہ تھا کہ اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ یہ اطبا اور حکما کا قول تھا اور ہے، مگر لوگوں نے جان قائد اعظم (کرنسی نوٹ) کو سمجھ لیا کہ اگر نوٹ ہیں تو ہمیں ڈرکس کا ہے سب کچھ خرید سکتے ہیں۔ ضمیر بھی، ووٹ بھی آگے تفصیل مناسب نہیں ہے مگر آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ سمجھ دار قاری ہیں۔

جن لوگوں نے زندگی اور دنیا کو سمجھ لیا وہ عارف ہوگئے چاہے وہ سرکاری افسر تھے، کوئی ادیب شاعر تھے یا بہت ہی عام سے آدمی جن کو خدا خاص بناتا ہے۔ نظیر اکبر آدی نے کہا تھا:

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا

جب لاد چلے گا بنجارہ

آج کی شاعری میں تو ماورائے فطرت خیالات کی بھرمار ہے، مگر یہ ایک خیال آفریں حقیقت ہے ہم آج ہیں، کل نہیں ہیں۔ است و نیست کا یہ چکر تو تخلیق آدم سے چل رہا ہے، شاید لوگ مجھے دیوانہ سمجھیں مگر بات تو ضرورکہوںگا۔

ابھی آپ نے تاریخ پڑھی، سنی، چلو اب تو Net World ہے اس سے ہی میرے ایک سوال کا جواب حاصل کر لو۔ جب جہان تخلیق ہوا تو انسان کی عمر ہزاروں یا سیکڑوں سال تھی، بائیولوجی کے حساب سے انسان کے اعضا تو وہی ہیں جو پہلے تھے قرآن نے بار بار ذکرکیا ہے اس وقت کے لوگوں کا قرآن کو محض حوالے کے طور پر عرض کیا ہے کہ وہ بھی دین کے علاوہ تاریخ کی بھی ایک کتاب ہے۔

کیوں بھائی ایسا کیوں ہے، اپنا خیال درست یا غلط آخر میں عرض کروںگا۔ ایک بات جس کی طرف سارے مذاہب نے اشارہ کیا حکم کیا وہ ہے ''پر امن'' دنیا اس پر نہ مسلمانوں نے عمل کیا نہ دوسروں نے تو اس قصے کو بھی یہاں چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کی وضاحت آپ خود کریں۔

کوئی بھی بے وقوف نہیں ہوتا انسان بہت چالاک ہے کہ بے وقوف اپنے آپ کو دکھاکر دوسروں کو بے وقوف بناتا ہے۔ دین نے منع کیا ہے مگر کون سنتا ہے، جب مولانا عدالت کے خلاف بات کریں تو قربِ قیامت کی دلیل ہے۔ مولانا کے لیے ڈاکو کا بھائی اگر وہی بات یا حرکت کرے تو ڈاکو، اس کا کوئی اور نام تو نہیں ہو سکتا نا؟

اگست آزادی کا مہینہ تھا، ہے اور رہے گا مگر ایمان والوں کے لیے ان کے لیے نہیں جوکشمیریوں کے خون کو زر کے عوض بیچ رہے ہیں۔ یہ بھی آپ دیکھیے کمال کی بات ہے۔ ہوس زر میں دونوں مبتلا ہیں۔ دنیا والے بھی اور ایسے دین والے بھی جنھوں نے اپنے پیروکاروں کے ہاتھ میں علم اور علم کے بجائے ''ڈنڈا'' تھما رکھا ہے۔

اس ڈنڈے کے زور پر ''زر'' کا سلسلہ چل رہا ہے۔ کاش لوگ سمجھ جائیں اور حقیقت شناسی کا مظاہرہ کر کے قبل از اسلام کے دور سے نکل آئیں اور سیاسی بت پرستی چھوڑ دیں، مگر بھائی ڈنڈا بھی قدرت کا چلتا ہے جب چلے اور اس کے سامنے یہ خس و خاشاک ہیں۔ جانتے ہیں مگر مانتے نہیں۔ اﷲ کو مانتے ہیں، اﷲ کی نہیں مانتے اور ساتھ ان لوگوں کا دے رہے ہیں جن کی نیا ڈوب چکی ہے، صرف اوپر کا بادبان باقی ہے اور وہ بھی کسی وقت حالات کے سمندر میں غرق ہوجائے گا، مگر یہ لوگ کنارے کھڑے ہوکر تماشا دیکھیںگے اور پھر بچ جانے والوں کے ہم نوا ہو جائیںگے اور کہیںگے ہم نے تو بہت سمجھا تھا تو یہ لوگ ایمانداری سے ڈوبنے والوں سے کہا ہوا فقرہ بیان کردیں ہم نے تو بہت بھڑکایا تھا۔

ایک مطلق العنان اپنے آپ کو سمجھنے والا قدرت کے عطا کردہ انجام کا شکار ہے مگر میں مجھے سے آزاد نہیں ہوا۔ عوام جائیں بھاڑ میں۔ ''مجھے کیوں نکالا'' یعنی بلا دودھ پی رہا تھا گھر کا اسے کیوں ہٹایا۔

افسوس سارے راستے یہ بنجارہ روتا رہا، مجھے کیوں نکالا، اس کو اگر زیادہ اچھی طرح سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ بات یوں ہے ''مجھے کیسے نکالا'' تمہاری ہمت کیسے ہوئی۔ اس حکمران کے ادوار سے دنیا کی بے ثباتی کا بہت اچھی طرح علم ہوسکتا ہے وہ خود ہی کہانی بیان کررہا ہے اور اپنے حصے کی مجھے یوں نکالا، مجھے یوں نکالا اور پھر مخالفوں سے بھی جھوٹی ہمدردی کرتے ہوئے کہ ان کو بھی نکالا دو ہی تھے میدان میں شاہ سوار، ایک نے دوسرے کو نکالا، اس بار اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے میں نہایت حقیر ہوتے ہوئے سمجھتا ہوں غرور آخر وقت تک کہتا رہا مجھے کیوں نکالا۔ فرعون یعنی نیل میں غرق ہونے سے پہلے یہی کہتا رہا تھا کون موسیٰ، کون خدا؟ مگر پانی جب تک گلے گلے نہ آگیا توبہ پر مائل نہ ہوا مگر وقت نکل چکا تھا آپ کا بھی وقت نکل چکا ہے شاید!

اور عمریں کم یوں ہیں کہ اب میرے خیال میں قیامت تک کا Time Span کم ہے۔ ناقص رائے ہے غلط بھی ہوسکتی ہے۔

ایک بنجارہ روتا گیا ہے، ابھی قافلہ باقی ہے خدا پاکستان میں انصاف قائم رکھے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں