زندہ قوموں کا نشان

امریکا نے روس کو روکنے کے لیے افغانستان میں دراندازی کی


Amjad Islam Amjad August 31, 2017
[email protected]

علامہ اقبال نے کہا تھا
نشاں یہی ہے زمانے میں زندہ قوموں کا
کہ صبح و شام بدلتی ہیں ان کی تقدیریں

اور یہ کہ

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

ذرا غور سے دیکھا جائے تو ان دونوں اشعار میں مرکزی لفظ یا استعارے ''صبح و شام'' اور ''ہر زماں'' بھی ہیں جو بہت حد تک ہم معانی بھی ہیں اور زندگی کا اصل اصول بھی۔

امریکا کے مہم جو اور خود سر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند دن قبل افغانستان کے حوالے سے اپنی جس پالیسی کا اعلان کیا ہے فضا میں ابھی تک اس کے ردعمل کی بازگشت گونج رہی ہے جس کا سب سے زیادہ شور تو پاکستان میں سنائی دے رہا ہے لیکن عوامی جمہوریہ چین وہ واحد ملک ہے جس کی طرف سے اس پر فوری اور پر زور بیان سامنے آیا ہے جب کہ اس کے مرکزی متاثرین پاکستان' افغانستان اور بھارت میں ایسا کیوں ہوا ہے اور اس کے آیندہ بین الاقوامی سطح پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ اپنی جگہ پر ایک مفصل اور بھرپور بحث کا موضوع ہے۔

سو اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے اس بات کو صرف پاک امریکا تعلقات کے گزشتہ اور آیندہ متوقع منظرنامے تک محدود رکھتے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی سرکار کی طرف سے قدرے تاخیر سے اور ملے جلے ردعمل کا معاملہ ہے تو ملک کے موجودہ سیاسی بحران کے پیش نظر یہ بات افسوسناک تو ہے مگر نئی یا غیر متوقع نہیں کہ سوا چار سال سے ہمارا دفتر خارجہ کسی باقاعدہ اور اپنے کام کے ماہر وزیر خارجہ کے بغیر چل رہا تھا اور اب اگر اسے خواجہ آصف صاحب ملے بھی ہیں تو صورت حال کچھ کچھ روحی کنجاہی کے اس تاریخی مصرعے جیسی ہے کہ ''حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی'' عین ممکن ہے کہ خواجہ صاحب موصوف کسی اور محکمے کے لیے بہت اچھے اور باعمل وزیر ثابت ہوں لیکن یہ تعیناتی ان کے لیے اتنی ہی غیر موزوں ہے جیسے احسن اقبال کو پلاننگ سے نکال کر وزیرداخلہ بنانا کہ اس طرح کے فیصلوں سے نقصان ڈبل ہو جاتا ہے۔

اب چونکہ میں نے ''سیاستدانوں کے پاکستان'' کو بوجوہ اپنے کالموں سے باہر رکھنے کا فیصلہ کر رکھا ہے سو اس بحث کو یہیں چھوڑتے ہیں اور واپس مسٹر ٹرمپ کے متعلقہ بیان کی طرف آتے ہیں کہ اگرچہ اس کا بالواسطہ تعلق بھی سیاسی سطح پر ہمارے قومی ردعمل سے ہی ہے جس کی نمایندگی وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے کرنی ہے مگر چونکہ یہ معاملہ قومی سلامتی' سرحدوں کی حفاظت' بین الاقوامی تعلقات' قومی خود مختاری اور وقار کا ہے اس لیے اس سے الگ نہیں رہا جا سکتا۔ ہمیں امریکا کی جنگ کا حصہ بننا چاہیے تھا یا نہیں؟ یہ بحث اب عملی طور پر ''بعد از وقت'' شروع ہو چکی ہے کہ اس دوران میں تقریباً چار دہائیاں گزر چکی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر ایک غلطی کا جواب کسی دوسری غلطی سے دیا جائے تو حاصل جمع ''دو غلطیاں'' ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے جنرل ضیاء الحق کی جہادی افغان پالیسی سے لے کر نائن الیون کے نتیجے میں بننے والی یونی پولر ورلڈ تک ہم نے اس حوالے سے یہی کام کیا ہے۔

امریکا نے روس کو روکنے کے لیے افغانستان میں دراندازی کی اور ہم سے جہاد کے نام پر مقامی طالبان کی مدد کا تقاضا کیا لیکن خود سوویت روس کی شکست و ریخت کے بعد شورش زدہ افغانستان کو جوں کا توں چھوڑ کر وہاں سے آنکھیں ماتھے پر رکھ کر نکل گیا۔ ابھی ہم اس کی طالع آزمائی کے نتیجے میں تیس چالیس لاکھ افغان پناہ گزینوں کو سنبھالنے اور نئی قائم شدہ طالبان حکومت سے گفت و شنید کے مرحلے میں ہی تھے کہ نائن الیون ہو گیا اور اگرچہ اس میں افغانستان یا پاکستان کا کوئی بھی تعلق سامنے نہیں آیا مگر نہ صرف وہ دوبارہ افغانستان میں داخل ہو گیا بلکہ اس بار پاکستان کو انھی لوگوں کی مخالف صف میں کھڑا کر دیا جن کی حمایت اور تعمیر خود اسی نے کروائی تھی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تو ہماری اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے افغان مہاجرین ہمارے قابو سے باہر ہو گئے کہ ان کی آڑ میں بے شمار غیر ملکی ایجنسیاں اور ان کے نمایندے صوبائیت فرقہ واریت' پراپرٹی' کاروبار اور جعلی پاکستانی شہریت کے کاغذات کے توسط سے پاک افغان سرحد کے دونوں طرف سازشوں اور دہشت گردی میں مصروف ہو گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ کراچی اور بلوچستان سمیت سارا ملک دہشت گردوں کی آماجگاہ بن گیا۔ دوسری طرف مختلف حیلوں بہانوں سے عرب مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ان زیادہ مسلمان آبادی والے ملکوں کی بربادی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جن کی دولت' وسائل یا لیڈر شپ امریکا اور اس کے حامی ممالک کے بنائے ہوئے عالمی نقشے میں کسی حوالے سے فٹ نہیں بیٹھ رہی تھی۔

سو ہم نے دیکھا کہ الجزائر اردن اور تیونس کے بعد عراق' لیبیا' مصر اور شام کو کس طرح سے تباہ و برباد کر دیا گیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اب اس فہرست میں نمایاں نام سعودی عرب' ترکی' ایران اور پاکستان کے ہیں اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ٹرمپ کی حالیہ افغان پالیسی کا اعلان اسی وسیع تر منظرنامے کا ایک حصہ ہے جب کہ ہماری سیاسی قیادتوں کا یہ حال ہے کہ نہ تو ان کی اپنی پالیسیوں میں کوئی بصیرت' شعور' اعتدال اور تسلسل ہے اور نہ ہی امت یا اسلامی بلاک کی سطح پر ہم کسی بڑے وژن کے پیغام پر تو کیا اس کا کوئی فعال حصہ بھی بن سکے ہیں اور یوں سب مل کر ایک ایسی قتل گاہ میں بطور تماشائی کھڑے ہیں جہاں خدانخواستہ خود ہمارا ''تماشا'' بنانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔

جہاں تک امریکا کی سیکیورٹی اور معاشی ترقی کے لیے دی جانے والی امداد میں کمی کا مسئلہ ہے تو اطلاعات کے مطابق اس کی ایک بڑی وجہ ان فنڈز کی اس خورد برد سے بھی ہے جو حاکم طبقات کے لیے ایک ''روایت'' اور ''حق'' کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ ''ڈومور'' اور ''الزامات'' سے یقیناً اس کا کچھ نہ کچھ تعلق ہے مگر اصل بات ان امدادی رقوم کا وہ گم شدہ حصہ ہے جو اپنے استعمال کی اصل جگہ پر پہنچنے سے قبل ہی کہیں ادھر ادھر ہوجاتا ہے سو واقفان حال کا یہ تجزیہ بھی قابل غور ہے کہ امریکا کے مسلسل دباؤ اور ٹرمپ کے اس خطرناک بیان کے جواب میں سرکاری سطح پر ہمارے ردعمل کی تاخیر اور کمزوری کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ کہیں کھل کر بات کرنے کی وجہ سے کوئی نیا ''پانامہ'' نہ کھل جائے کہ ابھی تو پرانے زخموں کی تازگی ہی کم نہیں ہو پائی۔

اندریں حالات میڈیا اور مختلف فورمز پر اٹھائے جانے والی احتجاجی آوازوں اور ''ڈومور'' کے بجائے ''نومور'' کا نعرہ بہت مثبت اور خوش آیند ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ سیاسی اور بین الاقوامی سطح پر اس معاملے کو دانش' فراست' ہمت اور عزت نفس کے احساس کے ساتھ حل کیا جائے اور ستر ہزار عوامی اور دس ہزار فوجی شہادتوں کی آبرو کو غیر ملکی بینک اکاؤنٹس میں بڑھنے والے ان ہندسوں کی دہلیز پر ایک مشت خاک کی طرح نہ اڑا دیا جائے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ قبر کی مٹی بھی اسی خاک کا ایک روپ ہوتی ہے اگر ہم اپنے ساتھ سچ بولنا شروع کر دیں گے تو کسی میں ہمت نہیں کہ ہمیں جھوٹا کہہ سکے چاہے وہ امریکا ہو یا کوئی اور۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔