تیرا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
گلزار کے جانے کے بعد ہمیں بہت دنوں تک کئی دوستوں کے گلے شکوے سننے پڑے کہ انھیں ’’ملاقات‘‘ سے کیوں محروم رکھا گیا۔
غالب کے اشعار کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انھیں جب بھی پڑھا جائے یہ نئے لگتے ہیں۔ یوسفی صاحب نے اس کا جزوی کریڈٹ اپنے ''حافظے'' کو بھی دیا ہے جس کے باعث اس طرح کی کیفیت ظہور پذیر ہوتی ہے لیکن اس وقت اس مصرعے کے یاد آنے کی ایک تیسری وجہ ہے اور وہ ہے برادرم گلزار کی پاکستان (لاہور) آمد اور اچانک واپسی۔ یہ واپسی کیوں اور کیسے ہوئی، اس پر تو میں بعد میں بات کروں گا، پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کب اور کیوں آئے تھے۔
گلزار جن کا اصل نام سردار سمپُورن سنگھ ہے، تقسیم سے تقریباً گیارہ برس قبل دینہ میں پیدا ہوئے جو ان دنوں جہلم کا ایک نواحی قصبہ ہوا کرتا تھا، ان کا آبائی گائوں ''کُرلاں' قصبے سے تقریباً تین کلو میٹر باہر تھا۔ نوے کی دہائی میں ان کے پالی ہل باندرہ ممبئی والے گھر میں ایک ملاقات کے دوران انھوں نے اپنے بچپن کی کچھ یادیںتازہ کیں اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اپنی جنم بھومی کو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن اتفاق سے تقسیم کے بعد سے اب تک انھیں بوجوہ اس کا موقع نہیں مل سکا۔ اس کے بعد جب بھی ان سے بھارت یا امریکا میں ملاقات ہوئی کسی نہ کسی حوالے سے اس خواہش کا ذکر ضرور ہوا پھر ہوا یوں کہ ان کے ادبی گرو احمد ندیم قاسمی صاحب 2005ء میں شدید علیل ہو گئے۔ اچانک ایک دن گلزار صاحب کا فون آیا کہ وہ ''بابا'' (وہ قاسمی صاحب کو اسی نام سے پکارا کرتے تھے) کی عیادت کے لیے ایک بہت ہی مختصر دورے پر آرہے ہیں اور چونکہ ان کی آمد کا واحد مقصد بابا کے ساتھ کچھ وقت گزارنا ہے لہٰذا وہ کسی قسم کی تقریب یا دوسری مصروفیت (یہاں تک کہ ''دینہ'' کے لیے بھی) وقت نہیں نکال سکیں گے۔
جہاں تک ممکن ہو، ان کی آمد کو خفیہ رکھا جائے۔ یہ اطلاع اور ہدایت صرف قاسمی صاحب، منصورہ احمد، شہزاد رفیق اور مجھے دی گئی تھی' ہم نے اس پر عملدرآمد کی ہر ممکن کوشش کی مگر جس طرح خوشبو کو کوئی نہیں روک سکتا، اسی طرح یہ خبربھی ان سے محبت کرنے والوں تک بھی پہنچ گئی چنانچہ میرے اور منصورہ مرحومہ کے گھروں اور شہزاد رفیق کے جم خانہ کلب والے کھانوں میں کسی نہ کسی طرح کچھ اور احباب کو بھی ان سے ملاقات کا موقع مل گیا۔ ان کے جانے کے بعد ہمیں بہت دنوں تک کئی دوستوں کے گلے شکوے سننے پڑے کہ انھیں ''ملاقات'' سے کیوں محروم رکھا گیا، سو اب جو چند ماہ قبل انھوں نے رازداری کا حلف لیتے ہوئے مجھے بتایا کہ وہ فروری 2013ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے کراچی لٹریچر فیسٹیول میں آ رہے ہیں (جس کی میزبان امینہ سید ہیں) تو میں نے ان سے وعدہ لیا کہ وہ ایک دو دن کے لیے لاہور ضرور آئیں تا کہ ان کے مداحین ان سے مل سکیں اور ہمیں دوبارہ اپنے احباب کی شکایات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اس کے ساتھ ساتھ ہم انھیں ان کا آبائی گھر دکھانے کے لیے دینہ بھی لے جا سکیں جس کی یاد ان کی باتوں اور تحریروں میں ہمہ وقت جھلکتی رہتی ہے۔
ان کی آمد سے تقریباً ایک ماہ قبل سے ہم لوگ (ایوب خاور، حسن ضیاء، شہزاد رفیق اور میں) ان سے مسلسل رابطے میں تھے، ان کی باتوں سے تذبذب تو نمایاں تھا (کہ وہاں انھیں پاکستان کے حالات سے مسلسل ڈرایا جا رہا تھا) لیکن انھوں نے ہماری یقین دہانیوں پر اعتماد کرتے ہوئے کوئی ایک ہفتہ قبل گرین سگنل دے دیا تھا، اس وقت تک میرے علم میں یہ نہیں تھا کہ وشال بھردواج اور اس کی بیگم ریکھا بھی ان کے ساتھ آ رہے ہیں کہ یہاں انھیں اپنی نئی فلم کے لیے مشہور قوال جوڑی شیر علی مہر علی سے ایک قوالی بھی ریکارڈ کرانا تھی جس کے بول گلزار نے لکھے ہیں۔ اس ریکارڈنگ کے انتظامات کی ذمے داری حسن ضیاء کے سپرد تھی۔
طے یہ پایا کہ وہ 12 فروری کی دوپہر میرے ترتیب دیے ہوئے لنچ میں آئیں گے جس میں ان کے چند ایسے احباب کو بھی مدعو کیا جائے گا جن سے وہ ملنا چاہتے ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث ان سے علیحدہ علیحدہ ملنے کا وقت نہیں نکل سکے گا اور ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا کہ میڈیا کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہیے اور یہ محفل انتہائی محدود ہونی چاہیے تا کہ احباب سے بات چیت کا وقت مل سکے۔ میں نے ان کی فرمائش کی تکمیل میں صرف بارہ دوستوں کو مدعو کیا اور اپنے پسندیدہ ریستوران میں کچھ اس طرح سے بکنگ بھی کروا لی کہ ہمیں بیٹھنے کے لیے الگ سے ایک مخصوص جگہ مہیا کر دی جائے گی۔11 فروری کی شام حسن ضیاء کو فون آیا کہ گلزار صاحب کا پیغام ہے کہ لنچ کا پروگرام اگلے دن یعنی 13 فروری کو رکھا جائے کیونکہ 12 کو صبح وہ احمد ندیم قاسمی صاحب کی قبر پر حاضری کے بعد دینہ جانا چاہتے ہیں اور اس کے بعد انھیں ریکارڈنگ میں مصروف ہونا ہے۔
دینہ میں برادرم ڈاکٹر انور نسیم اور ان کے رشتہ داروں کی مدد سے تمام انتظامات پہلے سے مکمل کیے جا چکے تھے، سو اس تبدیلی سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوا اور مجھے بھی اتنا وقت مل گیا کہ میں متعلقہ احباب کے ساتھ ساتھ ریستوران کے انچارج عزیزی اجلال کو بھی صورت حال سے آگاہ کر سکوں۔ بارہ فروری کی رات 9 بجے کے قریب میری ان سے تفصیلی بات ہوئی، اس وقت تک ان کی گفتگو میں اس بات کا شائبہ بھی نہیں تھا کہ انھیں کسی طرف سے واپسی کا کہا جا رہا ہے۔ اگلے دن ساڑھے گیارہ بجے کے قریب، جب میں انتظامات کو آخری شکل دے رہا تھا، اچانک اطلاع ملی کہ وہ کچھ دیر قبل (براستہ واہگہ) واپس بھارت چلے گئے ہیں۔ پہلے تو میں اس اطلاع کو بوجوہ مذاق سمجھا مگر آدھ گھنٹے کی مسلسل اور پریشان کن تفتیش کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ بھارتی سفارتخانے کے اہل کاروں نے غالباً اپنی حکومت سے ملنے والی ہدایات کے مطابق انھیں فوری طور پر پاکستان سے واپس آنے کا پیغام پہنچایا ہے اور انھیں ان سکیورٹی مسائل کی تفصیل بتائی ہے جن کی وجہ سے وہ انھیں واپس لے جانا چاہتے ہیں۔
چونکہ اس وقت متعلقہ اہل کاروں یا گلزار صاحب سے رابطے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کہ اصل بات تک پہنچا جا سکتا، اس لیے ذہن اسی طرف گیا کہ شائد بھارت میں کشمیری رہنما افضل گورو کو دی جانے والی پھانسی کی سزا کے رد عمل میں بھارتی خفیہ ایجنسیاں کسی کارروائی کی توقع کر رہی تھیں یا ان کے پاس اس ضمن میں کوئی اطلاع تھی جس کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا ہے۔ ابھی تک اس حوالے سے صورت حال واضح نہیں ہوئی۔
ایکسپریس ٹریبیون میں شایع ہونے والی ایک خبر کے حوالے سے یہ بات سامنے آ ئی ہے کہ وشال بھردواج نے کسی بھارتی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ ان کی واپسی کی فوری وجہ سیاسی نہیں بلکہ گلزار صاحب کی طبیعت کی اچانک خرابی تھی اور وہ بہت جلد دوبارہ پاکستان آئیں گے، اب چونکہ اس خبر کی بھی فوری تصدیق ممکن نہیں، اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس کی وجہ سکیورٹی ہی کا مسئلہ تھی تو یہ دونوں ملکوں کے اہل نظر اور ارباب اقتدار کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر سیاسی مسائل سے پیدا ہونے والی دہشت گردی کا دائرہ گلزار صاحب جیسے امن اور محبت کے نمائندوں اور خوبصورت انسانوں تک بھی پھیل گیا تو یہ بات کہاں جا کر ختم ہو گی؟اگر ہم سب نے مل کر اس طرح کی صورت حال کو بدلنے کی کوشش نہیں کی تو کم از کم میرے نزدیک یہ ایک ایسا المیہ ہو گا جو پاک بھارت تعلقات کے ضمن میں ہونے والی تمام جنگوں سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔