نواب امیر علی لاہوری
نواب کی سیاست اور اہمیت اس وقت کم ہوگئی جب قاضی فضل اللہ نے لاڑکانہ میں آکر سیاست کی شروعات کی
لاہور:
لاڑکانہ شروع ہی سے سیاست کا مرکز رہا ہے جہاں پر اکثر اقتدار نے ڈیرے ڈالے، جب الیکشن کا زمانہ آتا تھا تو شہرکی رونقیں بڑھ جاتی تھیں ، سیاسی لیڈر اور ورکرزکبھی ایک دوسرے سے اختلاف رائے رکھتے اورکبھی دوست بن جاتے۔ آجکل بہت زیادہ تبدیلی آگئی ہے سیاست میں ۔ اب سیاسی اختلافات جانی اور مالی نقصانات تک پہنچ جاتے ہیں۔
لاڑکانہ کے حوالے سے ایک اہم اور معزز شخصیت نواب امیر علی لاہوری کی بھی ہے ، جن کی لازوال اور بے مثال خدمات ابھی تک لوگوں کو یاد ہیں ۔ امیر علی لاڑکانہ کے پہلے منتخب میونسپل کمیٹی کے صدر تھے جنھیں1918ء کے الیکشن کے ذریعے عوام نے اس منصب پر بھیجا تھا اور انھوں نے اس منصب پر رہ کرکبھی کوئی خیانت نہیں کی، شہر اور شہریوں کی خوب خدمت کی ۔ لاڑکانہ میونسپل کمیٹی 1855ء میں قائم ہوئی تھی جب کہ کراچی میونسپل کمیٹی کا قیام 1852ء میں عمل میں آیا تھا۔ 1918ء میں لاڑکانہ کے میونسپل کمیٹی کے صدرایک برطانوی افسر تھے۔
نواب صاحب کے تعلقات سر شاہنواز بھٹو سے اچھے اور قریبی تھے جو بمبئی لیجسلیٹوکونسل کے ممبر تھے اور یہ سال تھا 1920ء۔ جب سندھ کو 1960ء میں صوبے کی حیثیت ملی تو شاہنواز بھٹو سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1938ء میں قائد اعظم نے لاڑکانہ کا دورہ کیا تو اس وقت میونسپل کمیٹی کے صدر امیر علی تھے اور انھوں نے اس موقعے پر خطبہ استقبالیہ پیش کیا تھا۔اس وقت شہرکی کل آبادی 40 ہزار تھی ، شہرکی صفائی اور Civic Facilities بہت اچھی ہوا کرتی تھیں۔ امیر علی نے عہدہ سنبھالتے ہی شہر میں ٹانگہ اسٹینڈ، گھوڑوں کے لیے پیاؤ، سبزی،گوشت، مچھلی مارکیٹ بنوائی۔
بحیثیت صدر لاڑکانہ میونسپل کمیٹی وہ تعلیمی اداروں کے سرپرست تھے ، انھوں نے تعلیم کو عام کرنے اور اسے فروغ دینے کے لیے شہر میں کئی پرائمری وسیکنڈری اسکول تعمیرکروائے۔ اس کے علاوہ کئی شفا خانے بنوائے تاکہ شہریوں کو صحت کی بھی سہولیات مل سکیں۔ اس وقت میونسپل کمیٹی کے پاس کوئی فنڈ نہیں ہوتے تھے اس لیے وہ یہ سارے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے، وہ بڑے سخی انسان تھے ۔ ان کی خدمات نے لاڑکانہ کے شہریوں کوشاداں وفرحاں کردیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ تقریباً 22 سال مسلسل میونسپل کمیٹی صدرکے عہدے پر فائز رہے۔
وہ 1918ء سے 1940ء تک اپنا کام دن رات بڑی محنت سے کرتے رہے اور شہر میں ہر دور میں کوئی نہ کوئی نئی تعمیری اسکیم کا آغازکرواتے جس کی وجہ سے وہ عوام میں بے حد مقبول رہے۔حالانکہ شہر میں ہندوؤں کی آبادی زیادہ تھی لیکن وہ بھی امیرعلی کے کام اور سچائی سے بہت متاثر تھے اور ان کے مقابلے آنے پر کوئی سوچتا نہیں تھا ۔ امیر علی کو اقلیتیوں کے ایک کنونشن میں مہمان خصوصی بنایا گیا تھا جس میں آل سندھ ہندو شاگرد سنگت کا قیام عمل میں آیا۔
اس تین روزہ کنونشن کی مدد سے پورے سندھ سے آئے ہوئے اسٹوڈنٹس کو موئن جو دڑو کی سیر کروائی گئی۔ آنے والے مہمان طالب علموں کے لیے کھیل، تقاریر، بحث مباحثہ اور اسٹیج ڈرامے کا بندوبست کیا گیا۔ اس کنونشن پر ہونے والے اخراجات میں لاہوری صاحب نے بھی حصہ لیا تھا تاکہ آنے والے مہمانوں کو کھانے پینے، رہنے اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں دی فراہم کی جاسکیں۔
اس زمانے میں لاڑکانہ شہر میں تین بنگلے بڑے مشہور تھے جس میں ایک سر شاہنواز بھٹو کا، دوسرا محمد ایوب کھوڑو کا اور تیسرا امیر علی لاہوری کا۔ لاڑکانہ شہر میں جو ایک محلہ لاہوری ہے وہ نواب لاہوری کی وجہ سے مشہور ہوا تھا۔ سب سے زیادہ لوگوں کا رش امیر علی کے بنگلے پر ہوتا تھا جہاں صبح سے رات تک وہ خود آکر بیٹھتے تھے اور لوگوں کے ساتھ کچہری لگاتے اور ان کے مسائل حل کرتے۔ اس کے بنگلے میں ایک بڑا درخت ہوا کرتا تھا جس کے نیچے سارے لوگ بیٹھتے تھے اور بڑی رونق رہتی تھی۔
آنے والوں میں میونسپل کے افسر اورعملہ، معزز شخصیات، زمیندار،تاجر حضرات، سیاستدان، دیہاتی اور شہرکے عام آدمی شامل ہوتے تھے ان سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ وہاں پر سیاسی، سماجی، علمی اور ادبی گفتگو بھی ہوتی تھی اور اپنے کلچر کو فروغ دینے کے لیے فنکاروں کو موقع بھی دیا جاتا تھا، مگر افسوس یہ ہے کہ اس کچہری میں ہونے والی گفتگو جو ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی تھی کسی نے اسے محفوظ نہیں کیا۔
وہ تھے تو نواب مگر زندگی سادگی سے گزارنے کے عادی تھے، انھیں گھوڑے پالنے کا بڑا شوق تھا اور دور دور سے اچھی نسل کے گھوڑے لے کر آتے ۔ وہ ٹانگے پر بیٹھ کر شہر کا دورہ کرتے ۔ وہ چاہتے تو گاڑی استعمال کرسکتے تھے لیکن انھیں گھوڑا گاڑی بے حد پسند تھی۔ جب کہ اس زمانے میں محمد ایوب کھوڑو اور بھٹو فیملی کے پاس بھی گاڑی ہوا کرتی تھی۔ گھوڑا گاڑی کی سواری لاڑکانہ شہر میں سب سے زیادہ پسندیدہ سواری تھی۔ امیر علی لاہوری دو گھوڑوں والی گھوڑا گاڑی'' وکٹوریہ'' استعمال کرتے تھے۔
بلیک رنگ کا گھوڑا انھیں زیادہ پسند تھا اور جب وہ شلوار قمیض میں ملبوس ہوکر گھوڑا گاڑی پر بیٹھتے تھے تو پورے نواب ہی لگتے تھے۔ ان کی شخصیت بڑی پرکشش تھی دارز قد ہونے کی وجہ سے انتہائی پروقار نظر آتے۔لوگوں کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا ان کی بہترین عادتوں میں سے ایک تھا، اس کے علاوہ وہ مذہبی انسان تھے، انسانیت سے پیار تھا اور لوگوں کو کھانا کھلانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ غریبوں کے ساتھ ہمدردی کرنا، تکلیف میں ان کے کام آنا، پارسائی، اخلاق اور سخاوت ان میں رچی بسی ہوئی تھی۔ وہ سندھی کلچر، رسم و رواج کا بڑا خیال رکھتے تھے اور ان کے گھر میں کوئی بھی ضرورت مند آتا تو اسے مایوس نہیں کیا جاتا تھا۔
لاڑکانہ میں ایک محلہ ان کے بیٹے سے منسوب ہے جسے علی گوہر آباد کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر میں پرائمری اسکول شاہ محمد بھی قائم کروایا جو ان کے بھتیجے اور داماد کے نام پر ہے۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں، ان کے بیٹوں میں علی گوہر خان، نوابزادہ احمد حسین، قلب حسین اور مصطفیٰ حسین لاہوری شامل ہیں، سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو بھی ان کے داماد تھے۔ وہ ڈسٹرکٹ لوکل بورڈ کے ممبر اور ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ کے سرپرست تھے جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے اسکولوں کی تعمیر میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔
ان کی یہ عادت تھی کہ وہ روزانہ مشکی رنگ کے گھوڑے پر سوار ہوکر شکاری کپڑے کا بنا ہوا کوٹ پہن کر لاڑکانہ شہر کا چکر لگاتے تھے، لوگوں سے مل کر ان کے مسائل پوچھتے اور ان کے مسائل کا فوری ازالہ بھی کرتے۔ ان کی ملاقات خاص طور پر پاکستان چوک پر عوام سے ضرور ہوتی جہاں پر 4 گیٹ بنا ہوتا تھا۔1945ء میں آل انڈیا مسلم لیگ نے انگریزوں کی طرف سے ملے ہوئے خطابات، اعزازات واپس کرنے شروع کیے تو جب امیر علی سے کہا گیا تو انھوں نے واپس نہیں کیے بلکہ 1946ء مسلم لیگ کی طرف سے ملی ہوئی صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ واپس کردیا جس کی وجہ سے انگریزوں سے ان کے تعلقات زیادہ اچھے ہوگئے۔
نواب کی سیاست اور اہمیت اس وقت کم ہوگئی جب قاضی فضل اللہ نے لاڑکانہ میں آکر سیاست کی شروعات کی اور لوگوں کو اپنے کردار اور کام کرنے کے انداز سے متاثرکیا۔ نواب امیر علی کے آباو اجداد نے ہندوستان سے آکر اچ شریف میں ڈیرہ ڈالا اور مسلمان ہونے کے بعد مغل دور حکومت میں فوج میں شامل ہوگئے تھے اور پھر وہاں سے لاڑکانہ شہر میں آباد ہوگئے۔ ان کی پیدائش کی تاریخ کہیں پر 2 جنوری اور کہیں پر 3 نومبر لکھی ہوئی ہے وہ 1883ء میں لاڑکانہ شہر میں پیدا ہوئے اور اگست 1966ء کو انتقال کر گئے۔ انھیں 1933ء میں افیئر آف برٹش ایکسیلنٹ / امپائر، 1944ء کا خان بہادرکا، دوسری عالمی جنگ میں برٹش حکومت کو ایک لاکھ دینے پر انھیں نواب کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔