سیاست گالی نہیں اعلیٰ ظرفی کیوں نہ ہو

اس سے قطع نظر بقول موجودہ وزیر اعظم ملکی سیاست واقعی ایک گالی قرار پاچکی ہے۔


نجمہ عالم August 04, 2017
[email protected]

گزشتہ اظہاریہ ''قابل عمل مفروضہ'' کی مخالفت اور حمایت میں کئی ای میلز موصول ہوئیں۔ اس بار ان کو مدنظر رکھ کر ''جوابی قسم'' کا کالم لکھنا تھا مگر گزشتہ کالم جو ہم نے لکھا تھا وہ عدالت عظمیٰ کے تاریخ ساز فیصلے سے قبل تحریر ہوا تھا اور اسی روز شامل اشاعت تھا۔ اگرچہ ہمیں اس کا نااہل قرار دیا جائے گا اور اس کا ردعمل حکومت، سیاستدانوں اور عوام کی طرف سے کیا ہوگا۔

اب ایک ہفتے بعد جب کہ متبادل وزیر اعظم کا انتخاب بھی عمل میں آچکا ہے۔ حکومتی حلقے کا ردعمل تو ''میں نہ مانوں'' عدالتی فیصلے پر تنقید، غیر سنجیدگی مگر خاموشی سے قبول کرنے کی صورت میں سامنے آگیا (اگرچہ فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل بھی تیار کی جا رہی ہے) جوکہ متوقع تھا، البتہ حکومتی دعوے کے برعکس عوامی ردعمل کوئی خاص قابل ذکر نہیں جب کہ حکومتی دعویٰ تھا کہ نواز شریف بے پناہ عوامی مقبولیت کے حامل ہیں، لوگ ان کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کریں گے حالانکہ اس سے کہیں زیادہ شدید عوامی ردعمل بھٹو صاحب کو حق حکمرانی سے محروم کرنے پر ہوا تھا اور ان کی شہادت کے بعد کئی برس جاری رہا۔ لوگوں نے ان کے لیے کوڑے کھائے، جیل گئے، خودسوزی جیسے تکلیف دہ اور المناک واقعات رونما ہوئے۔

طلبا و خواتین سڑکوں پر نکل آئے جن پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا گیا۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس شاید ملکی تاریخ میں پہلی بار اس حد تک مجروح ہوا۔ یہ وہ بھٹو تھے جن کو زندگی میں بھی اور بعداز مرگ بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی جو اب تک جاری ہے، مگر بڑے سے بڑا مخالف بھی کہتا ہے کہ وہ ایک لائق جرأت مند ، ملک و قوم کے لیے بلاخوف فیصلے کرنے والا عالمی سطح کا لیڈر تھا۔

موجودہ صورتحال بھی سامنے ہے، پورا ملک قرض کی دلدل میں پھنس چکا، ہر ادارہ کروڑوں بلکہ اربوں کی کرپشن میں ملوث اور تباہ حال ہوچکا، حکمرانوں کے اثاثے ہر سال بڑھتے رہے مگر ان پر کسی طرح کی کرپشن ثابت نہ ہوسکی۔ اس سے تو یہ لگتا ہے کہ حکمرانوں نے بے حد ہوشیاری سے کام کیا کرپشن ہوتی رہی اور ثبوت ضایع ہوتے رہے ورنہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ ملک کے تمام اہم ادارے گردن گردن تک بدعنوانی میں ملوث ہوں اور اس کی ذمے داری حکمرانوں پر عائد نہ ہو۔ حق حکمرانی تو اسی کو حاصل ہوسکتا ہے جو ملک کے ہر شعبے ہر ادارے کو شفاف رکھے۔ ہر صوبے، ہر شہر کے حالات پر بھرپور نظر رکھے اور ہر شہری کو اس کا حق دلا سکے۔

کیا اربوں روپوں کی لوٹ کھسوٹ چاہے کسی بھی شخص، ادارے، صوبے میں ہو اس کا ذمے دار حکمران وقت نہیں؟ جس ملک میں عدالت کے احکامات نظرانداز کیے جاتے رہے ہوں(خود وزیر اعظم کی جانب سے، نفاذ اردو اور تمام ملکی وغیر ملکی معاملات (تقاریر) اردو میں کیے جانے کے حکم کے دوسرے دن ہی غیر ملکی دورے پر انگریزی میں خطاب فرمایا، فوری نفاذ اردو کے باوجود آج تک اس پر عمل نہ ہوسکا جب کہ سابق چیف جسٹس نے یہ حکم اسی دور حکومت میں دیا تھا) وہاں پنچایت کے احکامات پر من و عن عمل ہوتا رہے اور غریب کی عزت و آبرو کی دھجیاں سر عام اڑائی جاتی رہیں۔

جہاں ملکی آئین کو تو کاغذ کا ٹکڑا قرار دیا جاتا ہی ہو مگر ساتھ ہی قانون خداوندی (اسلامی) کو بھی مذاق بنالیا جائے، شریعت محمدیؐ سے ناواقف افراد کے حکم کی فوراً تکمیل کی جائے اور حکم بھی عوامی مفاد میں نہیں تکریم انسانیت کا نہیں بلکہ تذلیل و توہین انسانیت کا، جو پوری دنیا میں پاکستان نہیں بلکہ اسلام کے دشمنوں کو اسلام کے خلاف آوازیں کسنے پر اکسائے۔ مگر ایوان عوامی نمایندگان میں عدلیہ کی جانب سے نااہل قرار دیے جانے والے شخص کے حق میں نعرے اور ان کی تصاویر لے کر آنا اس ایوان اور خود عدالتی فیصلے کی توہین نہیں۔ مانا کہ وہی سیاسی جماعت دوبارہ برسر اقتدار آگئی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ نااہل شخص اہل ثابت ہوگیا۔

اس کے حامی آیندہ پھر اس کو وزیر اعظم بلکہ موجودہ کو بھی سابق وزیر اعظم ہی کا عکس قرار دیں؟ حالانکہ کچھ ماہرین قوانین کے بیانات سامنے آئے ہیں کہ سابق حکمراں وزارت عظمیٰ ہی سے نہیں، پارٹی قیادت اور سیاست سے بھی نااہل ہوچکے ہیں جب کہ وہ مسلسل فعال سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں، پارٹی قیادت اب تک ان کے پاس ہے اور ورکرز ان کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور سمجھ رہے ہیں۔

اب آتے ہیں سیاست کے موجودہ طرز عمل کی جانب۔ موجودہ وزیر اعظم نے اپنی ایوان میں پہلی تقریر میں ایک بہت بڑی حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ ''سیاست ایک گالی بن چکی ہے'' اگرچہ وہ اس صورتحال کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں مگر حقیقت پھر حقیقت ہے کہ واقعی (جیساکہ ہم گزشتہ اظہاریے میں لکھ چکے ہیں کہ پڑھے لکھے باشعور لوگ سیاست کو دورسے سلام کرتے ہیں) ہماری ملکی سیاست کا احوال گالی سے بدتر اگر اور کوئی لفظ اردو لغت میں ہو (فحاشی، بدکرداری، بے اصولی، مطلب پرستی وغیرہ) یہ سب الفاظ اپنے مفہوم میں شاید موقع کی مناسبت سے گالی سے بدتر ہوں، مگر ملک فروشی گالی سے بھی بدتر ہے اور ہماری ملکی سیاست اس نہج تک پہنچ گئی ہے۔

نئے وزیر اعظم ادھر انتخاب کے مرحلے سے گزر رہے تھے، ادھر حوا کی ایک بیٹی ایک بے حد متحرک سیاسی جماعت کے بے حد فعال لیڈر پر (جھوٹ یا سچ) الزامات عائد کر رہی تھی۔ مختلف چینلز پر ماہرین، سیاستدان اس لیڈر کے حمایتی اور مخالفین اپنے اپنے نقطہ نظر کو پیش کر رہے تھے، کچھ کا کہنا تھا کہ یہ محضجھوٹ ہے، یہ سب روپے کا کھیل ہے اور اجرت پر ایک قومی لیڈر کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ جب کہ کچھ کی رائے تھی کہ الزام سچ ہو یا جھوٹ اس کی تحقیق ہونی چاہیے کہ ایک لڑکی وہ بھی غیرت مند قوم کی بھری پریس کانفرنس میں ایسا الزام لگا کر خود اپنی عزت بھی داؤ پر لگا رہی ہے۔ کئی خواتین بھرپور مخالفت کرچکی ہیں۔

بات درحقیقت کیا ہے؟ اس سے قطع نظر بقول موجودہ وزیر اعظم ملکی سیاست واقعی ایک گالی قرار پاچکی ہے۔ اپنے مخالفین کو اپنے کردار اپنی قومی خدمت، اعلیٰ کارکردگی، اخلاق اور اپنی تعلیمی و علمی استعداد سے مات دینے کے بجائے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں سے پسپا کرنے کی کوشش کیا ''گالی سیاست'' نہیں ہے؟ اس صورتحال میں بقول قمرالزماں کائرہ موصوفہ کے الزامات کی بنیاد پر دوسری خواتین کے لیے راستے مسدود ہوجائیں گے۔ جب کہ ملکی سیاست میں بڑے بڑے نامی گرامی سیاسی گھرانوں کی شریف خواتین مختلف پارٹیوں میں سرگرم ہیں۔ ایوان میں بھی خواتین کی قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ تو کیا یہ سوچا جائے کہ پہلے حالات خواتین کے حق میں بہتر تھے اور اب جب کہ ہم 21 ویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں تو حالات زیادہ ناسازگار ہوچکے ہیں؟

بات یہیں پر آکر رکتی ہے کہ جب تک ہم جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سردارانہ نظام کو شکست نہیں دیں گے سیاسی ہی نہیں معاشی، معاشرتی حالات بد سے بدتر ہوتے رہیں گے۔ بھارت یقیناً ہمارا دشمن سہی مگر اس کے دو اقدام کی نہ صرف تعریف کی جائے بلکہ ان پر ہمیں بھی فوراً (جو اب تک نہ کیا) عمل کرنا چاہیے ایک تو جاگیردارانہ نظام ختم کیا جائے، دوسرے تمام پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع جہاں بھی میسر ہوں وہاں کمائیں مگر واپس اپنے صوبے میں آئیں اور جائیداد اپنے صوبے کے علاوہ کسی دوسرے صوبے میں نہ بنا سکیں۔

یہ وہ اقدام ہیں جو پورے ملک کی یکساں ترقی کے لیے بے حد اہم اور باصلاحیت افراد کے ذریعے ملک کو چلانے کی روایت کو مضبوط کریں گے۔ بھارت کی ترقی کا راز انھی دو اقدامات میں ہے جو آزادی کے فوراً بعد کرلیے گئے تھے۔ یوں ہر صوبہ ترقی بھی کرے گا اور ملک خوشحال ہوگا۔ دقیانوسی اور بیمار ذہنیت سے بھی نجات ملے گی تو ملتان کی بستی راجاپور جیسے درد انگیز واقعات بھی رونما نہ ہوں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں