سنجیدہ سیاست وقت کی اہم ضرورت

کیا سیاستدانوں کو اندازہ بھی ہے کہ اِن کے داغنے گئے بیان کی وجہ سے بھارت کس کس طرح سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے؟


سیاست دان قوم کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں، مگر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کسی ایک بھی فرد کی کردار کشی ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

پریس کانفرنس کے لئے کیمرے لگے ہوئے تھے، کچھ ٹرینی رپورٹرز اور چند ایک سنجیدہ افراد ہال میں موجود تھے، عموماً اِن صاحب کو میڈیا پر کوریج نہیں ملتی، یہی وجہ ہے کہ اسائمنٹ ایڈیٹرز اِن کی پریس کانفرنس میں اہم رپورٹرز کے بجائے نئے رپورٹرز کو کوریج کے لئے بھیجا کرتے تھے کیونکہ جب خبر میڈیا پر چلنی ہی نہیں تو اہم لوگوں کو بھیجنے کا کیا فائدہ؟

اِس بار بھی ایسا ہی ہوا تھا لیکن کسے خبر تھی کہ آج جو یہاں بات ہونے والی تھی وہ نہ صرف مقامی، قومی بلکہ عالمی میڈیا کی بھی زینت بننے والی ہے۔ دن کو ہونے والی پریس کانفرنس کی خبر اگلے روز کے اخبارات کی سپر لیڈ تھی، ہاکرز نے جب اخبارات لوگوں تک پہنچائے تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اِسی ہنگامے کے پیشِ نظر موصوف کو ایک بار پھر پریس کانفرنس کرکے وضاحت دینا پڑی۔ وضاحت کے بعد میڈیا پر اُٹھنے والا طوفان نہ صرف تھم گیا بلکہ چائے کی پیالی میں اٹھنے والے طوفان بھی بہت حد تک بیٹھ گئے۔ لیکن جب رات گئے 'یوم تشکر' کے موقع پر جہاں جشنِ فتح منایا جا رہا تھا وہیں قوم کو ایک نئے اضطراب میں مبتلا کردیا گیا۔ یک رکنی پارٹی کے تاحیات سربراہ شیخ رشید احمد نے مخصوص لہجے میں،
'کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ'

کہہ کر ایک مرتبہ پھر طوفان کی لہروں میں جان ڈالنے کی کوشش کی، مگر شاید قوم اِن کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتی مگر قبلہ عمران خان صاحب کے بیان نے اِس طوفان کو سونامی میں بدل دیا اور یوں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔

اِس ساری تمہید کی وجہ وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کا وہ بیان ہے جسے شاید سیاق و سباق سے ہٹ کر میڈیا پر بیان کیا گیا۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے اور میں اِس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں کہ راجہ فاروق حیدر کی گفتگو کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے، ایک منتخب وزیراعظم کی زبان سے کسی بھی صورت ایسے الفاظ نہیں نکلنے چائیے جس سے ملک کی سلامتی کو خطرات محسوس ہونے لگیں، لیکن میں اِس زبان کی بھی حمایت نہیں کرسکتا جو عمران خان نے 'یوم تشکر' کے موقع پر وزیراعظم آزاد کشمیر کے لیے استعمال کی۔

بطورِ کشمیری میں اِس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ کشمیر کا الحاق پاکستان کے بجائے کسی اور ملک سے ہو، اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو اِس راہ میں شاید سب سے پہلے میں رکاوٹ بنوں۔ لیکن یہاں میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ راجہ فاروق حیدر نے بھی کشمیر کے پاکستان کے سوا کسی دوسرے ملک سے الحاق کی بات نہیں کی، بلکہ اُن کے بیان کو مخصوص رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔

ایسا کیوں اور کس نے کیا، اِس بارے میں تحقیقات کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ خبر دینے والوں کی یہ اولین زمہ داری ہے کہ وہ لوگوں تک پوری خبر پہنچائیں، اگر ادھوری بات پہنچائیں گے تو بات کا مفہوم مکمل طور پر تبدیل ہوسکتا ہے، اور اِس حوالے سے کچھ ایسا ہی ہوا۔ یعنی آپ تصور کیجیے کہ راجہ فاروق حیدر نے آدھے گھنٹے کی پریس کانفرنس کی، لیکن پوری پریس کانفرنس میں سے صرف 16 سیکنڈ کا کلپ چلا دیا گیا کہ 'میں سوچوں گا'۔

حضور والا! 'میں سوچوں گا کہ مجھے کس طرح کا پاکستان چاہیے' اور 'الحاق پاکستان کے بارے میں سوچوں گا'؟ یہ دونوں بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ جان کی امان پاؤں تو عرض یہ ہے کہ قبلہ پہلے بیان میں پاکستان میں تبدیلی کی بات ہے جبکہ دوسرے بیان میں واقعی بغاوت کا عنصر غالب ہے۔ راجہ فاروق حیدر نے پاکستان میں تبدیلی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے نہ کہ پاکستان سے الحاق پر سوال اٹھایا ہے۔ اب یا تو عمران خان صاحب کے میڈیا ایڈوائزر نے اُنہیں اِس حوالے سے شاید مکمل طور پر آگاہ نہیں کیا یا پھر وہ بغضِ معاویہ میں وہ سب کچھ کہہ گئے جو انہیں بالکل نہیں کہنا چاہیے تھا۔

اگرچہ میں کچھ عرصے سے لاہور میں مقیم ہوں لیکن میرا دل آج بھی کشمیر کے ساتھ دھڑکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اِن تازہ واقعات کی حقیقت جاننے کے لیے میں نے موجودہ اور سابق وزراء اعظم سے رابطہ کیا۔ فاروق حیدر خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ کشمیر کے الحاق کے حوالے سے کوئی بیان دیں۔ انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں، لیکن عمران خان کے نئے پاکستان سے اُن کا کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اُن کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جس کی وجہ سے معاملہ خراب ہوا، لیکن وہ اِس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ جو زبان عمران خان نے استعمال کی وہ نہ قابلِ معافی ہے اور وزیراعظم کے عہدے کے ساتھ زیادتی ہے۔

جب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعظم چوہدری عبدالمجید سے رابطہ کیا اُن کا کہنا تھا کہ سیاستدانوں کو اپنی ذاتی لڑائیوں میں کشمیر کو نہیں گھسیٹنا چاہیے، کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے اور اِس مقام و مرتبے کو کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔

یہ باتیں اپنی جگہ، مگر میں نہ صرف عمران خان بلکہ فاروق حیدر خان کو بھی مخاطب کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کیا اِن حضرات کو اِس بات کا اندازہ بھی ہے کہ اِن کی اِس حرکت کی وجہ سے ہمارا دشمن بھارت کس کس طرح سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے؟ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آخر ہم کب سنجیدہ سیاست کرنا شروع کریں گے؟ یہ بات سب کو سمجھ لینی چاہیے کہ کشمیریوں کی حب الوطنی ہر طرح کے شک و شبہ سے بے نیاز ہے۔ صرف یہاں رہنے والے نہیں بلکہ بیرون ملک مقیم کشمیری بھی اپنا ایک ایک روپیہ پاکستان بھیجتے ہیں تاکہ یہ ملک خوب ترقی کرے۔ لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب کشمیری دفاعِ پاکستان کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ذرا ایک بار ٹیٹوال کے مقام پر آئیے اور دیکھیے کہ وہاں دریائے نیلم کے شور میں اپنے پیاروں کے دیدار کو ترستی آنکھوں کی بے بسی اور چیخیں سنائی دیتی ہیں۔

میں یہاں سب پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی یہ ضرورت نہیں کہ وہ دوسروں کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کریں۔ سیاست دان قوم کے لئے رول ماڈل ہوتے ہیں، مگر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے کسی ایک بھی فرد کی کردار کشی ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ آپ نے جو کہنا ہے اسمبلی کے فلور پر کہیں کیوںکہ کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جنہیں میڈیا پر نہیں پوچھا جاتا اور ایسے سوالات پھر آپ کی شخصیت کے لئے ایک سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ یہاں ایک اور بات بھی یاد رکھیے اور کوشش کیجیے کہ دشمن کو اپنی غلطی سے کوئی بھی موقع فراہم نہ کریں جس کی وجہ سے وہ آپ کے گھر کی جانب انگلیاں اٹھائے کیوںکہ آپ اپنے گھر کے محافظ ہیں، اگر محافظ ہی گھر کی حفاظت کے لیے خطرہ بن جائے تو معاملات پر نظرِ ثانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں