موجودہ نظام کیسے وجود میں آیا
ہماری سیاسی نظام کی تاریخی حوالے سے تشکیل نو کی جو صورت بنتی ہے اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
وطن عزیز کی موجودہ صورت حال کے تاریخی تجزیوں کے حوالے سے بہت سی تحریریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بہت کم ان میں کوئی تحقیقی جہت یا ایسا انکشاف سامنے آتا ہے جو صرف چونکانے تک ہی محدود نہ رہے بلکہ مصدقہ شہادتوں کے ساتھ تصویر کا کوئی ایسا رخ سامنے لائے جو اب تک یا تو نظروں سے اوجھل تھا یا اس کے گرد افواہوں اور شبہات کی دھند پھیلی ہوئی تھی۔ برادرم آغا امیر حسین کی زیر ادارت شائع ہونے والا ماہانہ ''سپوتنک'' ہر ماہ پابندی سے ملتا رہتا ہے۔
جس کی سب سے بڑی خوبی اس میں شامل مضامین کا اعلیٰ ادبی اور تنقیدی معیار ہے۔ گاہے گاہے وہ پورا پرچہ کسی ایسی کتاب کے لیے وقف کر دیتے ہیں جو قارئین میں پہلے سے معروف اور مقبول ہو۔ اسی سلسلے میں بعض اوقات وہ کسی اہم لیکن کمیاب کتاب کو بھی شامل کر لیتے ہیں اور کبھی کبھار ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی بالکل نئی کتاب پہلی بار اسی رسالے کی معرفت عوام تک پہنچے۔ فروری کا شمارہ بھی ایک ایسی ہی کتاب کو دامن میں لیے ہوئے ہے جو نئی بھی ہے' دلچسپ بھی اور معلومات افزا بھی۔ اس کے مصنف عبد الحمید صاحب ہیں۔ ان کے پیش لفظ سے معلوم ہوا کہ 2010ء میں ان کی ایک کتاب بعنوان ''غربت کیسے مٹ سکتی ہے'' بھی شائع ہو چکی ہے۔
بدقسمتی سے وہ کتاب میری نظر سے نہیں گزری مگر ان کی یہ نئی کتاب (جو سپوتنک کے تازہ شمارے میں شامل کی گئی ہے) بعنوان ''بحران کا شکار ادارے'' پڑھنے کے بعد میرے دل میں اس کے مطالعے کا شوق بھی پیدا ہو گیا ہے۔ یہ کتاب اصل میں تین مضامین کا مجموعہ ہے جن کے عنوان کچھ اس طرح ہیں۔ ''سیاست کیسے بدل سکتی ہے!' عدل کیسے مل سکتا ہے'؟ ریلوے کیسے چل سکتی ہے؟''۔ ہر مضمون میں بہت سے ضمنی عنوانات بھی ہیں۔ یوں ان مسائل زدہ موضوعات کو وضاحت سے سمجھنے میں بہتری پیدا ہو گئی ہے۔ باقی کام عبدالحمید صاحب کے سادہ اور عام فہم انداز بیان نے آسان کر دیا ہے۔
عبد الحمید صاحب کے پیش کردہ تجزیے' مسائل کی تفصیلات اور ان کے حل سے جزوی طور پر اختلاف کیا جا سکتا ہے کہ یہ بہرحال ایک ''فرد'' کی رائے ہے' ان کی پیش کردہ معلومات اور شواہد پر بھی ایک سے زیادہ آراء ہو سکتی ہیں کہ بوجہ ہماری تاریخ کے بیشتر مناظر بہت زیادہ شفاف نہیں ہیں لیکن عمومی طور پر یہ کتاب دل اور دماغ دونوں کو اپیل کرتی ہے بالخصوص وہ حصے زیادہ پراثر اور چشم کشا ہیں جن میں سیاست اور معاشرے کے مختلف مسائل کو تاریخی پس منظر اور تناظر میں سامنے لایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر پہلے حصے کے اولین باب ''موجودہ نظام کیسے وجود میں آیا'' پر ہی ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ مصنف عبد الحمید نے حالات وواقعات کی پیشکش اور ان کے تجزیے میں اپنی ذاتی رائے کو ہر قدم پر علمی دیانت کے تابع رکھا ہے۔ عام طور پر موجودہ نظام کے تاریخی پس منظر پر بات کرتے ہوئے غیرمصدقہ معلومات اور سینہ بہ سینہ سفر کرنے والی روایات کو تقدس کے ایک ایسے مقام پر فائز کر دیا جاتا ہے کہ ان سے اختلاف یا انحراف گناہ کبیرہ بن جاتے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں اس مختصر سے مضمون میں جس تاریخی تسلسل کو پیش کیا گیا ہے اس میں بہت سے ایسے سوالوں کے جواب موجود ہیں جو مجھ سمیت اکثر سوچنے والوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ اپنی بات کی تائید اور تصدیق کے لیے میں اسے جوں کا توں پیش کر رہا ہوں۔ امید ہے کہ آپ کو بھی پسند آئے گا۔
''ہمارے سیاسی نظام نے ارتقاء کے کئی مرحلوں سے گزر کر موجودہ شکل اختیار کی ہے۔ ہزاروں سال سے بادشاہت مختلف شکلوں میں چلی آ رہی تھی۔ شنہشاہ سے نیچے راجے مہاراجے ہوتے' مقامی سطح پر قبیلوں کے سردار اور گاؤں کے چوہدری ہوتے۔ بادشاہ جاگیردار مقرر کر دیتے جو لگان کے ساتھ جنگوں کے لیے سپاہی' گھوڑے اور راشن مہیا کرتے۔ یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد صنعت کاروں نے طے کیا کہ وہ جاگیرداروں کی جگہ لے کر اقتدار میں شریک ہو جائیں۔ ان کے پاس پیسہ تھا اور کارخانوں میں کام کرنے والے کارکن۔ انھوں نے بادشاہ کو قائل کیا کہ لگان کے بجائے ٹیکس وصول کیے جائیں اور عوام کے نمائندے شامل ہوں۔ پارلیمنٹ کے اختیارات زیادہ ہوتے گئے اور بڑھتے بڑھتے بادشاہ کو بڑی حد تک بے اختیار کر دیا گیا۔
انگریزوں نے اپنا سیاسی نظام ہم پر بھی نافذ کرنا شروع کر دیا لیکن بڑی سست رفتاری سے' سیاست کاروں کا مطالبہ بھی شروع میں محدود داخلی خودمختاری سے زیادہ کا نہ تھا جسے پنچائتوں اور ضلع بورڈوں کی صورت میں کسی حد تک مان لیا گیا۔ پنجاب میں پنچائتوں کے ارکان ڈپٹی کمشنر نامزد کرتے۔ بورڈوں میں بھی اکثر نامزد ارکان ہوتے۔
گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935ء کے تحت بڑی حد تک داخلی خودمختاری دے دی گئی۔ اسی ایکٹ کو آزادی کے بعد پاکستان اور ہندوستان نے ترامیم کے ساتھ اپنا اپنا آئین بنا لیا۔ اس طرح ظاہری طور پر دونوں ملکوں نے برطانیہ کا پارلیمانی نظام اپنا لیا۔ گو دونوں کی نقل مطابق اصل نہ تھی' ابتدا ہی غلط ہو گئی۔ ہمارے ہاں نو سال تک آئین ہی نہ بنایا گیا کہ اس کے فوراً بعد الیکشن کرانے ہوں گے۔ الیکشن سے سیاست کاروں کی جان جاتی ہے۔ حیرانی والی بات نہیں کہ آج تک ہماری کسی برسراقتدار سیاسی جماعت نے عام انتخابات نہیں کروائے۔ پیپلز پارٹی نے1977ء میں کرائے تھے اور جس طرح کرائے وہ سب جانتے ہیں۔ پنجاب میں 1950ء کی دہائی میں مسلم لیگ نے الیکشن کرائے جس کے دوران ''جھرلو پھرنے کی اصطلاح پنجابی سے اردو میں آئی۔ مراد تھی بڑے پیمانے کی دھاندلی۔ الیکشن سے گریز کی ایک اور وجہ بھی تھی۔ ہماری دستور ساز اسمبلی میں (جو قومی اسمبلی کے طور پر بھی کام کرتی تھی) تقریباً ایک تہائی ارکان ایسے تھے جو ہندوستان میں 1946ء میں ہونے والے الیکشن میں مختلف صوبوں سے منتخب ہوئے تھے۔ آئین بننے کے بعد اگر انتخابات کرائے جاتے تو ان کا کوئی حلقہ نہ ہوتا چنانچہ وہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ عرصہ الیکشن کے بغیر نکال لیں۔
آئین بنانے میں دشواری۔ آئین سازی میں ایک بڑا مسئلہ دونوں بازؤں میں توازن پیدا کرنے کا تھا۔ مغربی پاکستان میں تین صوبے تھے (بلوچستان کو صوبہ کا درجہ 1970ء میں ملا) جب کہ اکیلے مشرقی پاکستان کی آبادی اس سے زیادہ تھی۔ اگر آبادی کی بنیاد پر حلقہ بندی کی جاتی تو مرکز میں ہمیشہ مشرقی پاکستان کی حکومت ہوتی۔ آخر مسئلہ کا حل نکالا گیا کہ مغربی پاکستان کو ایک صوبہ بنا دیا جائے اور قومی اسمبلی میں دونوں صوبوں کی نمائندگی برابر کر دی جائے۔
جنرل یحییٰ خان نے 1969ء میں اقتدار پر قبضہ کر کے آئین منسوخ کر دیا اور اگلے الیکشن بالغ رائے دہی کی بنیاد پر کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس طرح نمائندگی کی مساوات جو اکتوبر 1955ء میں مغربی پاکستان میں ''ون یونٹ'' بنا کر طے کر دی گئی تھی' ختم ہو گئی اور مشرقی پاکستان کو زیادہ آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں دائمی اکثریت دے دی گئی۔ آئین کی تنسیخ اور عدم مساوات پیدا ہونے سے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا آغاز ہوا۔
ایوب خان کے خلاف 1968ء میں تحریک امریکی منصوبہ کا حصہ تھی، اس سے یحییٰ خان کو اقتدار میں لانا تھا۔ ایوب خان نے اسے صرف امن قائم کرنے کا اختیار دیا تھا' حکومت نہیں سونپی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یحییٰ خان نے صدر کا حلف نہ اٹھایا' آئین کے تحت صدر کے مستعفی ہونے پر قومی اسمبلی کا اسپیکر الیکشن ہونے تک عارضی صدر بنتا ہے۔
فروری 1969ء میں ایوب خان نے اگلے صدارتی الیکشن میں حصہ نہ لینے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس طرح اگلی جنوری میں صدارتی الیکشن میں دونوں صوبوں میں مقبول کسی بھی شخص کو صدر منتخب کرایا جا سکتا تھا۔ آئین منسوخ نہ ہوتا تو مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو صرف قومی اسمبلی میں اپنی اپنی پارٹی کے لیڈر بن سکتے تھے' اقتدار میں نہ آ سکتے چنانچہ آئین کی منسوخی اور نئے آئین کے نہ ہونے سے دونوں کا رستہ صاف ہو گیا۔
جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے اس تجزیے میں درج کی گئی معلومات اور ان سے استخراج کے فن میں جزوی اختلاف ممکن ہے لیکن اس سے ہماری سیاسی نظام کی تاریخی حوالے سے تشکیل نو کی جو صورت بنتی ہے اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اصل میں ہماری قوم کو ایسے ہی آئینوں کی ضرورت ہے۔