اختیاری ہجرت آخری حصہ
پہلے قیادت کو لے اڑے اور بعد میں خود بھی پتلی گلیوں سے نکلنا شروع ہوگئے۔
دوسری جانب کراچی، جو ریاست، معیشت اور سیاست تینوں کا گڑھ تھا، دارالخلافہ کی تبدیلی سے اس کی روح نکالنے کی کوشش کی گئی۔ جس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ شہر سیاسی طور پر تنقید کی صلاحیت سے مالامال تھا اور جب جس حکومت کو اس کی کسی غلطی یا حق تلفی پر تنقید کا نشانہ بنایا تو اس کو ہٹوا کر ہی دم لیا۔ ملک کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ کراچی سے جب بھی کسی تحریک کا آغاز ہوا، وہ مطالبے کی منظوری تک جاری رہا۔ جس سے منفی قوتوں نے اس بات کو بھانپ لیا کہ وہ بھی کراچی کی حد نظر میں ہیں۔
سو انھوں نے فیصلہ کیا کہ تنقید کنندگان کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ جس کے نتیجے میں معیشت متاثر ہوئی، تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی بہت بڑی آبادی سرکاری ملازمتوں سے محروم ہوئی۔ ہر دہائی کے درمیان برپا ہونے والے واقعات نے، وہ محترمہ فاطمہ جناح کی لال ٹین روشن رکھنے کی پاداش ہو، دارالخلافہ کی تبدیلی ہو، یا بے سبب لاتعداد لوگوں کی سرکاری ملازمتوں سے برطرفی، پاکستان کی قومی ائیر لائن سے اچانک سیکڑوں کی تعداد میں لوگوں کی بے دخلی کا حکم، یا کوٹہ سسٹم کا معاملہ۔ 1947 میں بننے والی سرزمین پر جب 40 سال تک بحیثیت زمین کا سپوت نہیں مانا اور سمجھا گیا تو پھر فکر میں اپنے وجود کو قبول کروانے کا شعور تیزی سے بڑھنا شروع ہوگیا، پھر مہاجریت کے نقطے پر مرکوز ہوتے ہوئے بطور قومیت پہچان بناکر قومی دھارے میں شامل رہنے کی کوششوں میں لگ گئے۔
جس کا نتیجہ 30 نومبر 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں واضح طور پر سامنے آگیا کہ اب اپنی قومیت کو ہی پہچان بناکر کشتی قومی دھارے میں ڈال دی۔ یہ عمل اپنی قبولیت کے لیے کیا گیا تھا لیکن جب یہ سیاسی دھارا صوبائی اور قومی اسمبلیوں تک اس متوسط طبقے کے لوگوں کو لے گیا تو ان کی قبولیت تو دور کی بات، ان کا حال، حلیہ، لباس، سب ہی تنقید کا نشانہ بنا۔ یوں بسوں میں سفر کرنے والے عام لوگ جب عوامی نمایندے بن کر اسمبلیوں میں پہنچے تو ان کی وضع قطع کا نہ صرف مذاق بنایا گیا، بلکہ ان کے ناموں کو جو ان کی ماؤں اور اہل خاندان نے رکھے ہوئے تھے، کو توڑ مروڑ کر لنگڑے، لولے، کانے، موٹے جیسے القابات سے نوازا گیا، اور یہ سب کچھ اس قوم کے ساتھ ہوا جو اپنی تعلیم و تربیت اور ثقافت میں انسٹیٹوشن تھے، جن کی صحبت میں لوگ گفت و شنید کے طور طریقے سیکھا کرتے تھے۔
اب سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ مہاجر سیاست کو بے دخل کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کیے گئے اور اس سے جو نقصانات ہوئے، اگر 80 فیصد دوسروں کا ہاتھ تھا، تو کچھ قصور اپنا بھی تھا۔ جس کے فریق وہ مہاجر بھی رہے جن کا مطمع نظر نہ مہاجر قوم تھی، نہ پاکستان۔ ان کا ہدف محض اپنی ذات ہی رہی اور اپنی ذات کو ہی بھاری بھرکم بناتے رہے، بلکہ ان کی غلطیوں کی پاداش میں اس گند کی چھینٹیں دھبوں کی صورت میں قیادت کے دامن پر بھی پڑتی رہیں۔ پہلے قیادت کو لے اڑے اور بعد میں خود بھی پتلی گلیوں سے نکلنا شروع ہوگئے۔ چند مفاد پرستوں کی شاطرانہ چالوں سے بہت کچھ بکھر گیا، لوگ جانوں سے بھی گئے، لاپتہ بھی ہوئے اور اب بھی کارکنان کی ایک بڑی تعداد روپوشی اور اسیری کاٹ رہی ہے۔ جن کی بوڑھی مائیں، جواں سال بیویاں اور معصوم بچے ان کی راہ تک رہے ہیں، اور ایم کیو ایم کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہم نے مینڈیٹ اس لیے ہی دیا تھا؟
میں سمجھتی ہوں کہ ان بکھری سوچوں کو سمیٹا اور منتشر خوابوں کو جوڑا جاسکتا ہے اور اس کے لیے اس وقت کے معروضی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دوسروں کی غلطیوں کو معاف اور اپنی غلطیوں پہ صرف نظر کی جائے۔
جس کے لیے روشن اور معتدل سوچ کی ضرورت ہے، جو متوسط طبقے کی میراث ہے۔ جس طبقے کو عرصہ دراز سے اسکیل کی درمیانی سطح سے آگے نہیں جانے دیا جارہا۔ جب کہ متوسط طبقے کی یہ خوبی ہے کہ اس میں ایک بہت بڑی تعداد تعلیم یافتہ ہوتی ہے، جن میں اساتذہ، صحافی، وکلاء، لیبر تنظیموں سے تعلق رکھنے والے رہنما اور سماجی کاموں میں حصہ لینے والے رضاکارانہ خدمت گار، دفتری امور میں کلرک سے لے کر کم درجے کے افسران تک اپنی ایک حیثیت رکھتے ہیں اور ایسے لاکھوں لوگوں کی تعداد سے یہ وطن مالا مال ہے۔ لہٰذا قومیں ہی نہیں بلکہ ہر انسان کسی نہ کسی صفت کا حامل اور کسی کمزوری کا شکار ہوتا ہے، ان دونوں صفات کے ذکر کا مقصد قطعی تعریف یا تنقید نہیں، بلکہ نشاندہی کرکے بہتری کے راستے تلاش کرنا مقصود ہے۔ ہماری منزل اگر ایک متوازن معاشرہ اور بہتر پاکستان ہے تو ہم سب کو اپنا اپنا احتساب کرنا ہوگا۔