اختیاری ہجرت پہلا حصہ
سرحد پار کرتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم تھے اور اسی خطے کی مٹی کو چومتے و سجدے کرتے ہوئے داخل ہوئے
KARACHI:
ہجرت دونوں صورتوں میں متبرک عمل ہے۔ ایک مجبوری تو دوسری اختیاری۔ اول الذکر، یعنی مجبوری، سو وہ مظلومی بھی ہے۔ اختیاری ہے تو یقیناً اس کے پس منظر میں کوئی مثبت پہلو ضرور پنہاں ہوتا ہے۔ جیسے کہ مکہ سے مدینے کی ہجرت، جو ایک بہت بڑے مقصد کے تحت کی گئی تھی اور اس ہجرت کے بعد بقیہ زندگی نبی ﷺ نے مدینے میں ہی گزاری اور یہ ایک ایسی دائمی ہجرت تھی کہ اس کے بعد کے آنے والے خلفائے راشدین کے تمام ادوار کا منبع بھی مدینہ ہی رہا۔
گزشتہ صدی میں ہندوستان سے پاکستان ہونے والی ہجرت بھی ایک اختیاری عمل تھا کہ جس میں کرب تو تھا لیکن مایوسی نہیں، بلکہ اس ہجرت کے عمل سے گزرنے والے جسمانی طور پر زخموں سے چور چور، لیکن آنکھوں میں سہانے سپنے لیے آگے بڑھ رہے تھے۔ دل میں محبت، جذبہ ایثار، ذہن میں فکر کہ اس غیر منصفانہ تقسیم میں جو زیادتی ہوئی، جسے انگریزوں کی شرارت بھی کہا جاسکتا ہے، اس سے کیونکر اور کس طرح نمٹا جائے گا۔ ہجرت کے اس سفر میں ایسے لوگ بھی شامل رہے جنھوں نے دنیاوی مال و دولت سے بھری جیبیں سوکھی زمین پر الٹ دیں، اور اپنے اثاثوں سے بینک کھولے اور دینے والوں نے ان بینکوں میں اپنی پوری پوری جمع پونجی رکھ دی۔ یہ سب کچھ پاکستان ہی کے لیے تھا۔
سرحد پار کرتے ہوئے بھی ان کے ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم تھے اور اسی خطے کی مٹی کو چومتے و سجدے کرتے ہوئے داخل ہوئے جو پاکستان کے حصے میں آئی تھی اور آنے والوں نے ہی خم ٹھوک کر، اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ یہ ہماری سرزمین ہے۔ سننے والی اگلی نسلوں نے بھی ان کی بات کو اسی طرح لیا۔ لیکن جب انھیں ڈرائنگ روم کا مہمان بھی نہیں بلکہ غلطی سے پرائی گلی میں گھس آنے والا کوئی راہ گیر جانا اور رویے سے بھی راہگیروں جیسا سلوک کیا، پھر سونے پر سہاگہ یہ کہ زبان سے بھی پناہ گیر کہہ کہ پکارا گیا۔
راہ گیر سے پناہ گیر اور نہ جانے کیا کیا نام؟ بس یہیں سے بات بگڑنا شروع ہوگئی۔ انصار اور مہاجرین کے ایک دوسرے میں ضم ہونے کے بجائے فاصلے شروع ہوئے۔ جب کہ مہاجر جو 1947 میں اپنی کشتیاں جلا کر یہاں آئے، تو وہ کسی اگلی ہجرت کا سوچ کر نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے آباد ہونے کی نیت سے آئے تھے۔ خود بسنے اور اپنی اگلی نسلوں کو اسی زمین پر قدم جمائے رکھنے کی خاطر، سسٹم میں ضم رکھنے کے لیے قومیت کی بنیاد پر مجتمع نہیں کیا اور بڑی روشن خیالی کے ساتھ مسلم لیگ، جو ایک ہوا کرتی تھی، اس سمیت دیگر جماعتوں اور تحریکوں میں، جن میں جماعت اسلامی، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں شمولیت اختیار کی، اور آمریت کے خلاف MRD جیسی تحریکوں کے روح رواں بھی رہے، لیکن جب ہر دہائی گزرنے پر کوئی نہ کوئی جھٹکا لگتا رہا، تو تب ہی اپنے آپ کو منوانے کے مطالبات نے سر اٹھانا شروع کیا۔
کسی بھی صوبے کے عوام سے دوسرے صوبے کے عوام کو شکایت نہیں تھی، شکایت تھی تو ریاست سے، اس کے عاقبت نااندیش فیصلوں اور اس کے رویوں سے تھی اور خصوصی طور پر سندھ میں اور اس کے شہروں میں آباد وہ لوگ جو اپنی کاوشوں سے اس کی معیشت کی مضبوطی کے نمایندہ توانائی تھے۔ پاکستان بنانے کی طویل جدوجہد کی بنا پر ان میں سیاسی شعور اجاگر ہوا تھا۔ انھوں نے 60 کی دہائی میں شب خون مارنے والے حکمران ایوب خان کے اس رویے کو بھانپ لیا تھا، جو اپنے آپ کو آرین تصور کرکے قوم کو دراوڑ بنانے کی منظم کوششوں میں مصروف ہوگیا تھا۔
MRD کی تحریک ایسی ہی سازشوں کا جواب تھی۔ ان تحریکوں کے روح رواں معراج محمد خان، فتح علی یاب، علی مختار رضوی، اقبال حیدر ایڈووکیٹ جیسے لوگ شامل تھے، جو عوامی خواہش کو منزل بناکر اور پھر اسے پا کر ہی دم لیا کرتے تھے۔ یہ تھے وہ لیڈر اور کراچی شہر تھا، جو تختے الٹ دیا کرتا تھا۔ جو معیشت کے ساتھ سیاست کا بھی گڑھ تھا۔ بھانپنے والوں نے شاید اسی بات کو سمجھ لیا کہ وہ بھی ان انقلابیوں کی حد نظر میں ہیں اور دارالخلافہ کی تبدیلی کے فیصلے کی صورت میں اپنے بچاؤ کا راستہ نکال لیا۔
اس یک لخت فیصلے نے، جس میں پررونق دارالخلافہ اور بندرگاہ والے شہر کراچی سے اٹھا کر ایک ایسے ویرانے کو آباد کرنے کی کوشش کی گئی جس کو بسانے میں کروڑوں اور اربوں کے بین الاقوامی قرضوں کے علاوہ عوام پر اتنے ٹیکس واجب کردیے گئے کہ جن سے دل اور کمر ہی نہیں، ملک ہی ٹوٹ گیا۔ اس حق تلفی کے نتیجے میں ایک طرف تو پاکستان کا مشرقی حصہ پورا ہی ہاتھ سے نکل کر علیحدہ ہوگیا۔ تو اس زمرے میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر مشرقی پاکستان میں بسنے والے علیحدگی پسند تھے تو بھاری اکثریت سے فاطمہ جناح کو کیوں کامیاب کروایا؟
جو تحریک پاکستان کی صف اول کی فعال خاتون رہنما تھیں اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ بھی۔ اس کے علاوہ تمام تحریکوں کی اصل بنیاد 1906 میں سب سے پہلے ڈھاکا میں ہی رکھی گئی، جن کے پیشرو شیر بنگال مولوی فضل الحق، خواجہ ناظم الدین، نواب سلیم اﷲ خان، سراج الدولہ اور اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا سر آغا خان مقرر ہوئے اور اسی زمین کے باسی اپنے وطن عزیز سے محروم کردیے گئے۔
جنھوں نے حقوق حاصل نہ ہونے پر علیحدگی کو ہی ترجیح دی اور وہ لوگ جو مغربی بنگال سے ہجرت کرکے مشرقی بنگال میں آکر آباد ہوئے انھوں نے علیحدگی کو تسلیم نہیں کیا۔ سو وہ آج تک پاکستانی پرچم ہاتھوں میں اٹھائے اپنی تیسری نسل کے ساتھ ان عقوبت گاہ جیسے کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا رہے ہیں، جن کے لیے آج کی گھڑی تک مغربی پاکستان میں کوئی جگہ میسر نہ آسکی۔ جب کہ سردست بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے چند فیصد لوگوں کو ہی بنگلہ دیشی شہریت دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو ان محب وطن پاکستانیوں کو ناقابل قبول ہے اور آج کی گھڑی تک وہ پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی تگ و دو میں آس لگائے بیٹھے ہیں، جب کہ ایک بڑی تعداد ایسے محصورین کی تھی جن کا تعلق مغربی پاکستان کے صوبوں سے رہا، وہ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر تعینات رہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ان کو واپس پاکستان لے آیا گیا۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ کسی کی تو ہر خطا معاف اور کسی کو کوئی رعایت نہیں۔