حلقہ 114
یہ نتائج ہی حق کی بلند آواز تھے، جس نے دائمی سیاست کرنیوالی جماعتوں اور ریاستی پینل پر کام کرنیوالوں کو پریشان کردیا۔
ہجرت نہ ڈاکا ہے، نہ عیاشی و بدمعاشی، نہ چوری اور نہ ہی سینہ زوری، بلکہ ہجرت ایک مجبوری اور کبھی حالات کا عصری تقاضا کہا جاسکتا ہے۔ ہجرت مکے سے مدینے کی طرف یا خانہ خدا سے کربلا کی جانب ہو یا افغانستان سے پاکستان یا یمن سے شام یا شامیوں کی ایک ملک سے دوسرے ملکوں میں، اسے ہجرت کہیں، یا کسی ملک میں دربدری؟ ان تمام ہجرتوں کو مجبوری اور عصری تقاضوں کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے، لیکن ہندوستان سے پاکستان کی ہجرت ایک اختیاری عمل تھا۔
1947 تا 1950 تک ہونے والی ہجرت میں ہندوستان کے اقلیتی علاقوں جن میں دہلی، آگرہ، بھوپال، رام پور، حیدرآباد دکن، بہار، علیگڑھ، لکھنؤ، امروہہ، جبل پور، جے پور، جیت پور، بمبئی، بریلی و دیگر علاقوں سے آنیوالے مسلمان ہی تھے، جن میں ان آنیوالوں کی ایک بڑی تعداد نے کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے شہروں میں قیام کیا، جب کہ ان کے ساتھ ہی امرتسر، جالندھر، لدھیانہ، انبالہ، ہوشیارپور اور ان کے قرب و جوار سے ہجرت کرکے آنیوالوں کو مغربی پنجاب میں تو وہی آب و ہوا، زبان اور معاشرتی کلچر ملا، جسے وہ چھوڑ کر آئے تھے لیکن اس کے باوجود انھیں بھی وہاں ضم ہونے میں ان ہی تکلیفوں کا سامنا رہا جیسا کہ سندھ میں آباد ہونیوالوں کو رہا اور وہ آج تک ویسی ہی محرومیوں کا شکار ہیں۔ یعنی انھیں دل سے نہ قبول کرنیوالا طریقہ کار جاری و ساری ہے، اور اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں۔
جو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے ہندوستان سے آئے اور وسطی پنجاب میں آباد ہوئے، ان میں اور پہلے سے وسطی پنجاب میں آباد لوگوں کے طرز زندگی میں اتنا ہی فرق ہے جو سگے اور سوتیلے بیٹے میں پایا جاتا ہے۔کسی بھی شے کے حصول میں کی جانیوالی کوشش، محنت، جدوجہد اور دی جانے والی قربانی اس کی قدر و قیمت کا تعین کرتی ہے۔
ایسا نہیں کہ بن مانگے یا تحفے میں مل جانیوالی چیز کی کوئی قیمت نہ ہو، اس کا اپنا ایک لطف ہے، لیکن دونوں طریقوں سے حاصل کی ہوئی چیز سے لگاؤ میں فرق فطری امر ہے، سو مجھے کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ''جس کا جتنا آنچل، اتنی ہی سوغات ملی'' کہ جنھیں بغیر کسی جدوجہد، محنت، کوشش اور قربانی کے گھر بیٹھے پاکستان ملا، ان کے ہاں شاید اس سرزمین کی اتنی قدر نہ ہو جتنی مندرجہ بالا تکالیف سے گزر کر حاصل کرنیوالوں کے دلوں میں ہوسکتی ہے۔
بچے سے سب کو محبت ہوتی ہے لیکن بچے کی پرورش کے لیے تکلیف سہنا ہی ماں کی محبت کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ مہاجر فیکٹر پر کام کرنیوالے وہی لوگ ہیں جو ان جانفشانیوں سے گزر کر آئے، اسی لیے کسی بھی قیمت پر حاصل کی ہوئی شے کو گنوا دینے کا نہیں سوچ سکتے۔ اسی فکر کے باعث وجود میں آنیوالی تحریکوں نے حق کو پانے کے لیے آواز اٹھائی۔ حق وہیں سے طلب یا حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں سے دینا واجب ہوتا ہے۔
آواز وہیں بلند کی جاتی ہے جہاں دادرسی کا امکان ہوتا ہے، ورنہ زبردستی کا معاملہ تو چھین جھپٹ کر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے، جو نہیں کیا گیا۔گزشتہ تقریباً 70 برس کے نشیب و فراز کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کی بانی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ، جس کی بنیاد 1906 میں ڈھاکا میں رکھی گئی، جن کے بانیان میں مولوی فضل الحق، خواجہ نظام الدین، نواب سلیم اللہ، نواب سراج الدولہ اور بعد میں بطور فنانسر سر آغا خان کو صدر بنادیا گیا۔
1906 سے شروع ہونے والی طویل جدوجہد کے نتیجے میں 1947 میں جو پاکستان وجود میں آیا، لیکن وہی بدنصیبی سے 1971 میں دولخت ہوگیا اور اس کے سب سے بڑے صوبے کی علیحدگی کا غم اور چوٹ ان دونوں کو ہی پڑی، ایک وہ جو اکثریت کی بنیاد پر اپنا حق مانگ رہے تھے اور دوئم وہ جو بنگلہ دیش بننے کے بعد بھی پاکستان کا جھنڈا سینے سے لگائے آج بھی کیمپوں میں کراہ رہے ہیں، جو بانیان پاکستان کی ہی اولاد ہیں۔
ٹوٹ تو ایک ہی جھٹکے میں گئے تھے لیکن
ہاں! بکھرنے میں بہت دیر لگادی ہم نے
اس صورتحال کو مزید بکھرنے سے بچانے کے لیے مغربی پاکستان میں آباد مہاجروں نے اپنے صوبے میں حق کی آواز بلند کی اور محب وطن جذبے کے تحت آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تشکیل دی، جس میں لفظ ''پاکستان'' بہت نمایاں طور پر جذبے کی عکاسی کررہا تھا اور پاکستان سے محبت کا یہ تسلسل آج بھی جاری ہے اور اپنے جینے اور آئینی حق حاصل کرنے کے لیے ملک کی تاریخ میں پہلی بار سندھ میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنیوالوں نے اپنی یکجہتی کے اظہار کو اجتماعی عملی شکل 30 نومبر 1987کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج میں کچھ اس طرح دی کہ الیکشن میں حق پرست امیدواروں کے لیے ووٹ کی پرچی پر مہر ثبت کرکے خاموش انقلاب کو دنیا کے سامنے عیاں کردیا۔
یہ نتائج ہی حق کی بلند آواز تھے، جس نے دائمی سیاست کرنیوالی جماعتوں اور ریاستی پینل پر کام کرنیوالوں کو پریشان کردیا۔ مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنما سوچ میں چلے گئے تھے اور حالات کو تسلیم کرنے کے بجائے رونما ہونے والی زمینی کیفیت کو بادل کا ٹکڑا گردانتے رہے۔ فرسودہ سیاسی جماعتوں نے اپنے قدم جمائے رکھنے کے لیے نئی صف بندیاں شروع کردیں۔
سندھ میں انتہاپسندوں کو اور کراچی میں دیگر صوبوں سے آنیوالی لسانی قومیتوں کو مہاجروں کے خلاف ایک مصنوعی اتحاد قائم کرکے جمع کیا گیا اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف تعصب کی دیوار علاقائی انداز کی سوچ کیمطابق ترتیب وار طریقے سے صف آرا کی گئیں۔ لیکن شعور و آگہی کی طاقت کے آگے وہ سب ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ یہ تھا ووٹ کے ذریعے انقلاب کا وہ پہلا سفر، جس کا بالائی سطروں میں ذکر کیا جاچکا ہے۔
اس کے بعد کے حالات پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو جس تحریک کی ابتدا بانیان پاکستان نے کی تھی، اس میں حق سے محروم دوسری قومیتوں کے لوگ بھی جوق در جوق شامل ہونا شروع ہوگئے اور نتیجے کے طور پر یہ مہاجر سے متحدہ کی تحریک بن گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں ووٹ کا تناسب بڑھتا گیا، فرسودہ نظام کے ماننے والوں کی جانب سے الزامات کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا، لیکن الحمدللہ ان تمام باتوں کی پروا کیے بغیر حال ہی میں ہونیوالے 2017 کے حلقہ 114 کے انتخابات میں دودھ کا دودھ، پانی کا پانی نہیں، بلکہ پانی بالکل ختم کرکے نکھرا ہوا دودھ سامنے رکھ دیا۔
عموماً ضمنی انتخابات میں عوام کی دلچسپی اتنی نہیں ہوا کرتی، لیکن اس میں وہ لوگ بھی جو برسوں سے کسی تذبذب کا شکار رہا کرتے تھے، وہ لوگ بھی متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ واضح طور پر جڑا ہوا لفظ ''پاکستان'' دیکھ کر دریا میں اتر آئے، جب کہ ڈالے گئے کل ووٹوں کا میکنز م بتارہا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ بے شک جن سے ایک مصنوعی فتح ضرور ہوئی لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں، جس کے ثبوت بھی آنا شروع ہوچکے ہیں، کیونکہ مدمقابل امیدوار صوبائی اسمبلی کامران ٹیسوری کو تقریباً 18,500 ووٹ ضمنی انتخاب میں حاصل ہوئے ہیں، یہ اضافہ نہ صرف خوش آئند بلکہ ''پاکستان کی سلامتی کا پیغام'' ہے۔