کشمیر کہانی
بھارت میں لاکھوں لوگ کشمیریوں کے حقوق کے لیے مثبت خیالات رکھتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ امن کی تمنا بھی رکھتے ہیں.
جہاں تک سرکار کا تعلق ہے اس نے تو کشمیر کے مسئلے کو یوم یک جہتی کشمیر کے حوالے سے 5 فروری کو سرکاری چھٹی کا اعلان کرکے غالباً اپنا ''فرض'' ادا کردیا ہے رہی سہی کسر دوطرفہ تعلقات کے ضمن میں ہونے والے مذاکرات میں (بھارتی خواہشات کے مطابق) کشمیر کے مسئلے کو ایک طرف رکھ کر تجارتی تعلقات پر گفتگو کے مطالبے پر عملدرآمد نے پوری کردی ہے اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے اور امن کی تمنا کے گیت کو دوطرفہ قومی نغمہ بنانے پر بھی زور دیا جا رہا ہے۔ اس تمنا یا آشا کا تماشا ان بھارتی فلموں کی کھلے عام نمائش کے ذریعے بھی دیکھا اور دکھایا جا رہا ہے ان سب باتوں میں تھوڑا بہت وزن بلا شبہ ہے لیکن عملی طور پر یہ تالی ایک ہاتھ سے بھی بجائی جا رہی ہے جب کہ ایک ہاتھ سے صرف تھپڑ ہی مارا یا کھایا جاسکتا ہے۔
قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اس شہ رگ کو بھارت نے گزشتہ 65 برسوں سے کیوں اور کیسے دبا رکھا ہے یہ ایک بہت طویل اور متنازعہ قسم کی بحث ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی سطح پر ہم نے کسی بھی دور میں (باجپائی کے دورے سے قطع نظر) اس مسئلے کو ڈھنگ سے سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش نہیں کی۔ اس دوران میں تین جنگوں کے ساتھ کئی بار دونوں سرحدوں پر کشیدگی نے ایک نئی جنگ کا سا ماحول بھی پیدا کیا لیکن ہمارے تمام تر جذباتی دعوئوں کے باوجود نہ صرف یہ کہ بھارت ٹس سے مس نہیں ہوا بلکہ اب مقبوضہ کشمیر میں پاکستان سے محبت اور الحاق کے حق میں بولنے والوں کی تعداد بھی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت اگر کشمیریوں کو حق رائے دہی کسی طرح مل بھی جائے تب بھی ان کی اکثریت بھارت یا پاکستان سے الحاق کرنے کے بجائے ایک علیحدہ اور خود مختار ریاست کی شکل میں رہنا زیادہ پسند کرے گی اور واضح رہے کہ اس صورت میں مقبوضہ کشمیر کا صرف ایک تہائی حصہ یعنی وادی کا علاقہ ہی زیر بحث رہے گا کیونکہ جموں میں پہلے سے ہندو آبادی کی اکثریت ہے اور لیپا کی وادی اور چینی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ہندو، مسلمان اور بدھ مذہب کے پیروکار تقریباً برابر برابر تعداد میں ہیں۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر کہانی اب وہ نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی اور اس میں ظہور پذیر ہونے والی تبدیلیوں میں بھارت کی ہٹ دھرمی کے ساتھ ساتھ ہماری مختلف حکومتوں کا رویہ بھی برابر کا شریک ہے۔ بدقسمتی سے ہمارا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اب اس مسئلے میں قومی اور عوامی امنگوں سے زیادہ کچھ اور باتوں کا خیال رکھنے لگا ہے کچھ نہ کچھ زبانی جمع خرچ تو ہوتا ہے لیکن اس میں اب پہلے سا زور اور جذبہ نظر نہیں آتا۔ کشمیر کے مسئلے، بھارت کی ناانصافیوں اور کشمیریوں کے حقوق سے زیادہ اب امن کی تمنا پر مشتمل پروگراموں کو زیادہ جگہ دی جاتی ہے جیسا میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ امن کی تمنا کی باتیں کرنے اور اس کے شعور کو اجاگر کرنے میں کوئی برائی نہیں اور اس سے بہت اچھے نتائج بھی برآمدہوسکتے ہیں مگر جب تک یہ آشا دوطرفہ ہونے کے ساتھ ساتھ انصاف اور خلوص پر مشتمل نہیں ہوگی اس کی عملی اہمیت ایک تماشے جیسی ہی رہے گی اور اس تماشے میں ہمارے لیڈروں کا کردار اسٹیج کے ان مسخروں جیسا ہی رہے گا جو کہانی میں صرف تفریح اور مزاح پیدا کرتے ہیں جب تک ہماری حکومت عوام اور میڈیا برابری کی سطح پر بات کرنے کا ہنر اور حوصلہ نہیں دکھائیں گے یہ کھیل اسی طرح چلتا رہے گا۔میں نے چند برس پہلے اسی حوالے سے ''ہم دوست بنیں کیسے'' کے عنوان سے ایک نظم لکھی تھی لیکن اسے درج کرنے سے پہلے میں وادیٔ کشمیر کے ایک تاریخی کردار حبہ خاتون کی ایک رومانوی نظم کا اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جس کا اصل نام ''زون'' تھا۔ اس میں جس محبت کی ماری لڑکی کے جذبات اور اس کے اردگرد کے مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے آج کے کشمیر میں ان کی جگہ فوجی پہروں، گولیوں، لاشوں، بے آبروئی اور ایک نامختتم خوف نے لے لی ہے۔ حبہ خاتون کہتی ہے
اے میرے پھولوں کے متوالے ساجن آ
مجھ سے میرے دل کو چھین کر کہاں چلے
آ اے سہیلی جوہی کے پھول توڑیں
مرگئے تو یہ زندگی کہاں نصیب ہوگی
آ اے سہیلی ساگ کا سلاد چننے جائیں
آ اے سہیلی ریحان کے گچھے پہننے جائیں
آ اے سہیلی کیریڑ کے پتے اکٹھے کرنے جائیں
نا سمجھ لوگ میرا مذاق اڑانے لگے ہیں
ان پر بھی ایسی آفت آئے تو پتہ چل جائے
اے میرے پھولوں کے متوالے ساجن آ
بھارت میں بھی لاکھوں لوگ کشمیریوں کے حقوق کے لیے اچھے اور مثبت خیالات رکھتے ہیں اور پاکستان کے ساتھ امن کی تمنا بھی رکھتے ہیں لیکن جب تک وہ اپنی حکومت کو اس بات پر مجبور نہیں کرتے کہ وہ انصاف کے اصولوں کے مطابق اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سچ مچ کی بامعنی اور نتیجہ خیز پیش رفت کرے یہ امن کی تمناکسی ٹھوس نظریئے کی شکل اختیار نہیں کرسکے گی۔ سو آئیے اسی دعا اور امید کے ساتھ ہم دوستی کی اس خوب صورت خواہش پر بات کرتے ہیں۔
وہ کہتا ہے
مرے ماضی کے رستوں کے پرانے ہم سفر آجا
ہم اچھے دوست بن جائیں
بھلا کر سب گلے شکوے
ہر اک رنجش کو رکھ کر درگزر کے طاق میں، دیکھیں
ہوا کے ہاتھ میں آتے دنوں کے جو شگوفے ہیں
انھیں کسی طور کھلنا ہے