لندن۔۔۔۔۔ انسانی غلامی کا مرکز

ہزاروں لوگوں سے جبری مشقت لی جارہی ہے


غ۔ع July 13, 2017
ہزاروں لوگوں سے جبری مشقت لی جارہی ہے ۔ فوٹو : فائل

ISLAMABAD: قدیم زمانے میں انسانی غلامی کا رواج عام تھا۔ طاقت وَر، کم زور اور بے بس لوگوں کو جبراً غلام بنالیتے تھے اور پھر ان کی پوری زندگی غلامی میں گزر جاتی تھی۔ ایک آقا کا دل بھرجاتا تو وہ غلام کو بازار میں لے جاکر فروخت کردیتا تھا جس کے بعد وہ نئے آقا کی غلامی پر مجبور ہوتا تھا۔ اکثر غلاموں کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جاتا تھا۔ انھیں پیٹ بھر کر روٹی نصیب نہیں ہوتی تھی مگر محنت مشقت جانورو ں کی طرح لی جاتی تھی۔ جدید تاریخ میں یورپی اقوام نے افریقیوں کو جبراً غلام بنایا اور صدیوں تک ان کا استحصال کیا جاتا رہا۔ امریکا میں بھی سیاہ فام کئی صدیوں تک گوروں کے غلام رہے۔

ایک عام تصور یہ ہے کہ انسانی غلامی کا سلسلہ اب ختم ہوچکا ہے اور آج کی دنیا میں کوئی کسی کا غلام نہیں۔ یہ تصور غلط ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی انسانوں کو غلام بنانے اور ان سے جبری مشقت لینے کا سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ لندن، جسے عالمی دارالحکومت کہا جاتا ہے، میں انسانی غلامی عروج پر ہے۔ لندن پولیس کے اعلیٰ افسر نے حال ہی میں بیان دیا ہے کہ یہ شہر دور جدید میں غلامی کا مرکز بن چکا ہے !

یہ بیان مشہور زمانہ اسکاٹ لینڈ یارڈ کے انسداد غلامی یونٹ کے سربراہ چیف انسپکٹر فل بریور نے دیا ہے۔ فل بریور کے مطابق لندن میں کتنے ہی لوگ جبری مشقت پر مجبور ہیں۔ عالمی دارالحکومت کے ہوٹلوں، ریستورانوں، اور زیرتعمیر عمارتوں میں لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ ان جگہوں پر لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں مگر انھیں کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ اکثراوقات انھیں پیٹ بھر کھانا بھی میسر نہیں ہوتا۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کا انسدادغلامی یونٹ فل بریور کی سربراہی میں جبری مشقت کا شکار افراد کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ فل کے مطابق جبری مشقت کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ گذشتہ برس اس یونٹ کو 1013شکایتیں موصول ہوئی تھیں مگر اس سال جون تک پولیس اس یونٹ کو 820 کیس بھیج چکی تھی۔

حکومت برطانیہ کے مطابق ملک بھر میں جبری مشقت کا شکار افراد کی تعداد تیرہ ہزار کے لگ بھگ ہے، مگر آزاد ذرائع یہ تعداد کئی گنا بتاتے ہیں۔ جبری مزدوروں کے علاوہ بڑی تعداد ان لڑکیوں کی ہے جن سے جبراً قحبہ گری کا کام لیا جارہا ہے۔ جبری مزدوروں میں ہوٹلوں اور ریستورانوں اور زیرتعمیر عمارتوں کے علاوہ گھریلوملازمین بھی شامل ہیں، جنھیں دیگر ممالک سے بلوا کر گھر کے تمام کام کاج لیے جاتے ہیں اور عملاً انھیں گھر میں قید کرلیا جاتا ہے۔

2015ء میں حکومت نے انسانی اسمگلنگ اور انسانی غلامی کے انسداد کے لیے سخت قوانین متعارف کروائے تھے جن کے تحت انسانی اسمگلروں کو عمرقید کی ساز ہوسکتی ہے، نیز کمپنیوں کے لیے یہ ظاہر کرنا ناگزیر قرار دیا گیا تھا کہ وہ اپنی سپلائی چین کو انسانی غلامی سے آزاد رکھنے کے لیے کیا اقدامات کررہی ہیں۔ ان قوانین کے باوجود ملک میں انسانی غلامی کی لعنت بڑھتی جارہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں