نواز شریف نااہل ہوں گے یا نہیں

باقی سوالات اگلی میٹنگ تک کیلئے محفوظ رکھو۔ مجھے پرائم منسٹر نے بلایا ہے اور میرا جانا بہت ضروری ہے۔


میں نے عرض کیا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل کرے گی یا نیب میں ریفرنس بھیجے گی؟ انہوں نے سگار کا آخری کش لیا، ہوا میں دھویں کا چھلا بنایا اور ٹائی سیدھے کرتے ہوئے کہا کہ ...

وہ ہر 5 سیکنڈ بعد اپنا بایاں ہاتھ ہوا میں لہراتے اُسے منہ کے قریب لاتے کچھ سیکنڈ تک سگار کو دونوں انگلیوں کے درمیان ہلاتے اسے ہونٹوں کے درمیان دبا کر زور سے کش لگاتے، نیم مدہوش آنکھوں کے ساتھ دائیں جانب لگی تصویر کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور منہ سے دھوئیں کے چھلے بنا کر انہیں ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہے تھے، اور میں اُن کے دائیں جانب والے صوفے پر بیٹھا یہ سارا منظر اطمینان سے دیکھ رہا تھا۔

میرے سامنے فرینچ پیالیوں میں اٹالین برانڈ کی کافی تیار پڑی تھی۔ امریکی سگار اور اٹالین کافی کی خوشبو کے ملاپ نے ماحول کو رومانوی بنا دیا تھا۔ میرے قدموں تلے ایرانی قالین، سر کے اوپر ترک فانوس، دائیں جانب دیوار پر لٹکتی ہوئی دو تلواریں اور ایک بندوق اور دھیمی دھیمی دیوار کی لکڑی کی خوشبو حاکمِ وقت کے دربار کا منظر پیش کر رہی تھی۔ یہ سلسلہ 30 منٹ تک جاری رہا، صاحب کو سگار کی تاریخ پر مکمل عبور حاصل تھا۔

وہ 30 منٹ کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے دنیا میں سگار کی 26 اقسام ہیں جو کہ لمبائی، چوڑائی اور ذائقے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور دنیا میں سگار کے تمام برانڈ انہی 26 اقسام کے گرد گھومتے ہیں۔ میں نےعرض کیا جناب آپ کون سا برانڈ پی رہے ہیں؟ وہ مسکرائے اور فخریہ انداز میں جواب دیا چرچل سگار (Churchil Cigar)۔ یہ 18 سینٹی میٹر لمبا اور 19 سینٹی میٹر چوڑا ہے اور یہ سگار ونسٹن چرچل (Winston Churchil) پیا کرتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے اور پھر سے سگار کے کش لگانے لگے۔

بالآخر میں نے خاموشی توڑ کر خدمتِ عالیہ میں دھیمی سی آواز میں عرض کیا کہ نواز حکومت لاتعداد مسائل کا شکار کیوں ہے؟ انہوں نے سگار میز پر رکھا، دائیں ہاتھ سے کافی کا سِپ لیا اور دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پر رکھ کر فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا! میاں صاحب پھنس گئے ہیں کیوںکہ انہوں نے غلطیوں کی دیوی کی بیعت کرلی ہے۔ میں نے عرض کی کہ میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکا۔ وہ تھوڑی دیر کیلئے رکے اور پھر بولے آپ نواز شریف کے 2013ء سے لے کر آج تک کے دورِ حکومت کا مشاہدہ کریں توآپ کو یقین آجائے گا کہ نواز شریف نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا۔

جنرل پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 اور دہشت گردی کے کیس، کور کمانڈرز کے تقرر و تبادلے اور وزیر اعظم کے ماتحت کرنے کی کوشش، مودی کی حلف برداری میں شرکت، نواسی کی شادی میں مودی کو دعوت، سری لنکا جا کر مودی سے رابطہ کرنا، دل کے آپریشن سے پہلے مودی کو دو بار فون کرنا، سجن جندال سے خفیہ ملاقات، ڈان لیکس کیس اور جے آئی ٹی ممبران کے خلاف بد زبانی، یہ سب غلطیاں نہیں تو اور کیا ہے؟ اور یہ سب فوج کو نیچا دکھانے اور کمزور کرنے کیلئے کیا گیا ہے۔

میں نے پھر عرض کیا، ہمارے ملک میں فوج کیخلاف بات کرنے کو غلطی کیوں سمجھا جاتا ہے؟ نواز شریف ایک منتخب وزیراعظم ہیں اور قانون کی رو سے فوج اُن کے ماتحت ہے اور وہ بطورِ منتخب وزیراعظم وہ جو بھی فیصلہ کریں، آئینی اور قانونی طور پر تو فوج تو اُن تمام فیصلوں کو ماننے کی پابند ہے۔ عوام نے انہیں اِس قوم کی تقدیر کے فیصلے کرنے کا اختیار دیا ہے۔ ہاں اگر وہ غلط فیصلہ کرتے ہیں تو عمران خان جیسی تگڑی اپوزیشن اُن کا احتساب کرنے کیلئے موجود ہے۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نہ کہ حکومتوں میں دخل اندازی کرنا۔

صاحب نے دوسرا سگار سلگایا، لمبی سانس لی اور پھر میری طرف دیکھ کر گویا ہوئے۔ ہمارے ملک میں دو طرح کے نظام کام کرتے ہیں۔ ایک نظام وہ جو سول حکومت نے بنایا ہے اور دوسرا نظام وہ جو اسٹیبلشمنٹ نے بنایا ہے۔ حکومت کے بنائے ہوئے نظام نے قوم کو یتیم خانوں جیسے اسپتال، جانوروں کے طبیلے جیسے سرکاری اسکول، چپڑاسی سے لیکر سیکرٹری تک رشوت لینے والے سرکاری نوکر، ایک سو روپے میں بکنے والا انصاف کا نظام اور اپنے تھانوں کی حفاظت کیلئے فوج سے مدد مانگنے والی پولیس دی ہے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے بنائے ہوئے نظام نے آپ کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا ہے، اِس نظام نے پاکستان کی حفاظت کیلئے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ زلزلہ ہو یا سیلاب، کراچی کے حالات بہتر کرنے ہوں، پنجاب سے دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہو، بلوچستان میں امن لانا ہو، ہندوستان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی ہو، پاک چائنا کوریڈور بنانا ہو، ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن مکمل کرنی ہو اور یہاں تک کہ وزیراعظم کے انتخاب کے لیے الیکشن ہوں تو اِس ملک کے 22 کروڑ عوام حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے فوج کی طرف دیکھنے لگتے۔

ہمارے ملک میں فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو 1947ء سے آج تک اپنے وضع کردہ نظام پر قائم ہے اور اِس میں دن بہ دن جدت لائی جاتی ہے۔ جب اِس ملک کے ہر کام کیلئے آپ فوج کے محتاج ہیں تو حکومت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ اگر حکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی حفاظت کیلئے اس ملک کو ایک باوقار، باعزت اور پڑھی لکھی پولیس تک نہیں دے سکے تو اُنہیں فوج کے خلاف بات کرنے، شکایت کرنے اور آنکھیں دکھانے کا کوئی حق نہیں۔

اپنی جان کی حفاظت اور نظام کو چلانے کیلئے آپ جن کے زیرِ سایہ ہیں آپ اُنہیں آنکھیں دِکھا کر زندہ نہیں رہ سکتے۔ آپ کو چاہتے نہ چاہتے اُن کی عزت کرنی ہوگی۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے، کافی کا سپ لیا نیا سگار سلگایا اور پھر سے ہوا میں دھوئیں کے چھلے اُڑانے لگے۔

میں نے عرض کیا نواز شریف صاحب وزیراعظم رہیں گے یا نہیں؟ صاحب نے لمبی سانس لی لومڑی کی طرح مسکرائے اور کہنے لگے کہ اِن تمام غلطیوں کے باوجود ہم اِس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ نواز شریف قسمت کے دھنی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس دو آپشن ہیں۔

پہلا آپشن یہ ہے کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر حکم دے کہ نواز شریف اور اُن کے بچوں کے بیانات میں تضاد ہے، لہذا نواز شریف جھوٹ بولنے کی بنیاد پر صادق اور امین نہیں رہے۔ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو حکم دے کہ نواز شریف کی اسمبلی رکنیت ختم کی جائے اور اِس کے ساتھ ہی نواز شریف نااہل ہوجائیں گے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ سپریم کورٹ پوری رپورٹ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جے آئی ٹی کی شریف فیملی کے خلاف نیب کو ریفرنس بھیجنے کی سفارش کو بنیاد بنائے اور سارا ملبہ جے آئی ٹی کی سفارشات پر ڈال کر نواز شریف کو نااہل کیے بغیر مزید تفتیش کے لئے ریفرنس نیب کو بھجوا دے۔

اب نیب نواز شریف کے ساتھ کیا سلوک کرے گی اِسے سمجھنے کے لیے چیئرمین نیب کا سپریم کورٹ میں دیا گیا بیان ہی کافی ہے کہ اگر مجھے عدالت بھی کہے تو میں حدیبیہ پیپر مل کا کیس دوبارہ نہیں کھولوں گا۔ نواز شریف وزیراعظم کی حیثیت سے پیشیاں بھگتیں گے اور 2018ء کا الیکشن آجائے گا۔

میں نے عرض کیا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل کرے گی یا نیب میں ریفرنس بھیجے گی؟ انہوں نے سگار کا آخری کش لیا، ہوا میں دھویں کا چھلا بنایا اور ٹائی سیدھے کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل کیے بغیر نیب میں ریفرنس بھجوا دے گی۔ وہ مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے اُٹھے مجھے اپنے پاس بلایا اور کان میں سرگوشی کی کہ باقی سوالات اگلی میٹنگ تک کیلئے محفوظ رکھو۔ مجھے پرائم منسٹر نے بلایا ہے اور میرا جانا بہت ضروری ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگرجامع تعارف کیساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں