اسلامی دنیا بغدادی کے بعد

ایک اندازے کے مطابق تقریباً 12 لاکھ نفوس کا قتل عام ہوا۔


Anis Baqar July 07, 2017
[email protected]

عموماً میری تحریر حوالے کے بغیر نہیں ہوتی مگر آج کا موضوع ایسا ہے کہ جس میں قیاس کا خاصا دخل ہوسکتا ہے، مگر حوالے سے خالی نہ ہوگی۔ کوشش یہی ہے کہ کسی مکتب فکر پر آنچ نہ آئے مگر حقیقت سے فرار ممکن نہیں۔ لہٰذا آج کا کالم بھی مغربی دنیا کی آرا اور خبروں سے مزین ہونے کے ساتھ تجزیہ بھی ضروری ہے۔

یہ کون نہیں جانتا کہ عراق پر صدام حسین بے تاج بادشاہ کی طرح حکومت کرتے رہے اور تقریباً دس برس عراق و ایران کی سرحدی جنگ چلتی رہی، مگر نائن الیون کے بعد جارج ڈبلیو بش نے دنیا کی مزاحمت کے باوجود شور مچا کر کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی (Weapons of Mass Destruction) اسلحہ رکھتا ہے، بڑا حملہ کردیا۔ آخرکار جب عراق بے دست و پا ہوگیا تو جنگ ختم ہوگئی۔ عراق میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔

ایک اندازے کے مطابق تقریباً 12 لاکھ نفوس کا قتل عام ہوا۔ عراق میں انتظامی امور کا نام و نشان مٹ گیا اور نائن الیون کے بعد ایک نیا نعرہ صدر جارج بش نے دنیا میں متعارف کرایا۔ جس کو انھوں نے رجیم چینج Regime Change کا نام دیا کہ حکومت بدل ڈالو۔ ایک بڑے جمہوری ملک کا اصرار کہ ہر ملک میں میری پسند کی حکومت ہونی چاہیے۔

روس ابھی سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ سے سنبھلا بھی نہ تھا اور عراق سے اس کا کوئی معاہدہ بھی نہ تھا۔ البتہ سعودی عرب سے عراق کے اچھے تعلقات نہ تھے لہٰذا وہ اس قابل نہ رہا کہ وہاں کوئی مضبوط حکومت رہتی۔ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے افکار پھیل رہے تھے مگر جب ان سے بھی امریکا کی یگانگت باقی نہ رہی تو اسلامی دنیا میں جہاں بھی لبرل حکومتیں قائم تھیں، بش کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی امریکا میں بش کی پالیسی کو کم و بیش جاری رکھا۔

لیبیا اور شام کو تاراج کرنے کی پالیسی اور عراق میں شدت پسند حکومت قائم کرنے کی پالیسی پر عمل ہوتا رہا۔ لیبیا میں چونکہ اپنی پسند کی اسلامی حکومت معمر قذافی نے قائم کر رکھی تھی، ماؤزے تنگ کی سرخ کتاب کے جواب میں معمر قذافی کی سبز کتاب لیبیا کے طلبا میں مقبول ہینڈ بک (Hand Book) تھی۔ روٹی، کپڑا اور مکان لیبیا کے تمام باشندوں کو میسر تھا۔ ان کو اوباما کے دور میں بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا اور قتل کرنے والے خود کو اسلامی انقلاب کے داعی کہلاتے رہے۔ ان میں داعش اور دیگر دو گروہوں کے ساتھی تھے جو نیٹو کے تعاون سے حکومت بنانے میں مصروف رہے، مگر شام روس کی مدد سے اپنی حکومت بچانے میں تو کامیاب رہا مگر پورا ملک جیسے راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ 30لاکھ سے زائد لوگ دربدر ہوئے، کئی لاکھ اپاہج۔ یہ تھی مزاحمت کی قیمت جو شام کے عوام کو چکانا پڑی۔

انبیا اور اولیا کی قبریں بم سے اڑائی گئیں۔ آثار قدیمہ کے نایاب ظروف یہ جہادی فروخت کرتے رہے، تاکہ اسلحہ خریدتے رہیں۔ امریکا سے اور اس کے اتحادیوں سے ان لوگوں کو امداد ملتی رہی۔ ترکی کے بارڈر کے علاقے ان کا اصل مرکز تھے، جو روس کی زبردست حمایت سے رفتہ رفتہ آزاد ہوا اور ترکی اپنے ملک میں فوجی بغاوت کے بعد نیٹو سے بدظن ہوگیا، جو ایک وقت میں کھلم کھلا جہادیوں کا حامی تھا اور اب جہادی خود دو نظریات کے حامی ہوچکے ہیں، ایک قطری نظریات کے حامی ہیں اور دوسرے ابوبکر بغدادی کے طریقہ مزاحمت کے حامی ہیں۔

اب چونکہ بات ابوبکر بغدادی کی آ نکلی ہے لہٰذا کچھ تذکرہ کرتا چلوں جو میرے علم میں کچھ وکی پیڈیا اور دیگر ذرایع سے حاصل ہوئی تو سنتے جائیے کہ ابوبکر بغدادی اسامہ بن لادن کی طرح کسی بڑے مال دار گھرانے میں نہیں بلکہ ایک متوسط گھرانے کا فرزند تھا، جو 28 جولائی 1971کو عراق میں پیدا ہوا، زیادہ امکان بغداد کی پیدائش کا ہے، والدین سخت گیر عقائد سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے اپنے فرزند کا نام ابراہیم عواد علی محمد البدری رکھا، جب البدری کی عمر 12-13 سال کی ہوئی تو اس نے اپنا نام از خود بدل دیا اور اپنے ساتھیوں سے خود کو البدری الحسینی ہاشمی کہلوانے لگا۔ بعد میں خود کو ابوبکر البدری بغدادی کہلوانا شروع کردیا، یہاں تک کہ جب بغدادی نے خود کو 2014 میں خلیفہ امیرالمومنین کہلوانا شروع کیا تو خود کو صرف ابوبکر بغدادی کہلوانا شروع کردیا۔

ابوبکر بغدادی نے سفاکی القاعدہ سے متاثر ہوکر شروع کی۔ وہ ایمن الظواہری سے بہت متاثر تھا۔ اپنے عقائد کے علاوہ دیگر عقائد کے لوگوں کو کافر قرار دینا اس کی پہلی صفت تھی۔ اس کی فوج کی پہلی تربیت، بکتر بند گاڑیاں، بڑا اسلحہ کس نے فراہم کیا؟ یہ ایک سوال ہے جو آج تک حل نہ ہوا۔

قیاس سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ کچھ مسلم حکومتوں نے ان کو امریکی برطانوی اسلحہ سے لیس کیا، اس لیے ابو بکر بغدادی کی فوج نے جب عراق پر قبضہ کی ٹھان لی تو عراقی فوج کی طرف سے کوئی مزاحمت نہ ہوئی اور وہ عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل تک چند ہفتوں میں قبضہ کرنے کے قابل ہوگئے اور نوری مسجد جو موصل کے قدیم علاقے میں موجود ہے، وہاں سے ابو بکر بغدادی نے اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا۔ یہ مسجد تقریباً ہزار برس سے قائم ہے۔ ابو بکر بغدادی نے عراق پر زبردستی قبضہ کیا اور فرقہ واریت کو فروغ دیا۔اور بے دریغ قتل عام کیا۔

شام کے شمالی علاقے سے لے کر موصل تک ان کی سپلائی لائن موجود تھی، جو آج بھی موجود ہے۔ گو شام نے ترکی سے قریب رقہ کے قرب و جوار کے علاقے تک قبضہ کرلیا ہے مگر داعش کے شکست خوردہ عناصر جو 27/28 جون کو موصل سے پسپا ہوئے تھے، اب رقہ کی طرف جا رہے ہیں، اب جب کہ داعش بغدادی کی مضبوط اور سفاک قیادت سے محروم ہوچکی ہے تو اس کو پسپا ہو کر رقہ کی جانب ہی جانا ہے، ایسی صورت میں امریکا اس علاقے میں شامی فوجوں پر بمباری کر رہا ہے تاکہ داعش کے پسپا خونخوار سپاہی جو بچ سکیں تو اچھا ہے، کیونکہ یہ کرائے کے فوجی کسی بھی ملک کو غیر مستحکم کرنے کے کام آ سکیں گے، ورنہ شامی علاقوں پر اب بمباری کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک اور بڑی جنگ کے امکانات موجود ہیں، مگر داعش کا کمانڈ اور کنٹرول سسٹم راکھ کا ڈھیر بن گیا ہے۔

ابوبکر بغدادی کے پکڑے جانے کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، البتہ اب چھوٹے چھوٹے غیر منظم گروہ جو پاک ایران سرحدی کے علاقے کے موجود تھے ممکن ہے کہ اب ان کا بھی خاتمہ ہوچکا ہو، اسی طرح قندھار، شام اور لیبیا میں بن غازی اور بنیادی طور پر چھوٹے چھوٹے سیل (Cell) مسلم ممالک میں موجود ہوں۔ اب جو عراق ابھر کر سامنے آیا ہے وہ ایران کا حمایتی ہے۔ اس لیے سعودی عرب اب اس علاقے میں کسی بڑی جنگ کا متحمل نہ ہوسکے گا۔ کیونکہ خطے میں ایران کی پوزیشن مضبوط تر ہوگئی ہے اور نئے علاقوں پر داعش کا عملی خوف جاتا رہا، اب ایک بم بلاسٹ کی انفرادی کوشش ضرور موجود ہے مگر کوئی وسیع اور بلند حوصلہ دستے اپنا وجود رفتہ رفتہ ختم کر بیٹھیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں