حساب کتاب کا بکھیڑا
پھر بھی ہم نے دو تین بار کوشش کی، اس سے بڑھ کر اپنے کنبے کے لیے اورکیا قربانی دیتے
مشہور ریاضی دان، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ایوبی دور میں جامعہ سندھ کے وائس چانسلر ہوا کرتے تھے۔ ایک روز ان کے اولڈ کیمپس والے دفتر میں اس وقت دلچسپ بحث چھڑگئی جب تمام پروفیسر حضرات اور شعبہ جات کے سربراہان کسی اہم میٹنگ کے سلسلے میں وہاں جمع تھے۔ میٹنگ برخواست ہونے کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا کہ شعبہ ریاضی کے سربراہ نے ڈاکٹرصاحب کی توجہ ایک طالبعلم کے سوال کی طرف مبذول کرائی جس نے پوچھا تھا کہ صفر ہندسہ ہے کہ نہیں، کیونکہ جس طرح وہ کسی دوسرے ہندسے کے ساتھ مل کر اس کی قدر بڑھانے کا موجب بنتا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہندسہ ہے، اگر وہ واقعی ہندسہ ہے تو پھر دوسرے تمام ہندسوں کی طرح یہ مختلف حصوں میں تقسیم کیوں نہیں ہو سکتا۔
سب ڈاکٹر صاحب کی رائے جاننے کے لیے پوری طرح متوجہ اور ہمہ تن گوش تھے۔ ان کی بیقراری دیکھ کر وہ کچھ یوں گویا ہوئے '' صفر بلاشبہ ایک ہندسہ ہے، جیسا کہ آپ نے خود ابھی کہا کہ یہ کسی دوسرے ہندسے کے ساتھ مل کر اس کی قدر بڑھا دیتا ہے۔ مثلاً 2 کے ساتھ جڑکر اسے 20 بنا دیتا ہے اور اگر اسے 20 سے الگ کر دیا جائے تو وہ صرف 2 رہ جائے گا، گویا یہ ایسا ہندسہ ہے جو قدرگھٹانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
یہ کس نے کہا کہ یہ دوسرے ہندسوں کی طرح مختلف حصوں میں تقسیم نہیں ہوسکتا،کیوں نہیں ہوسکتا، اسی نے 2 کو 20 بنایا اور اس سے الگ ہوکر اس کی قدر ایک دو نہیں پورے 18 درجے گھٹا دی جس سے ثابت ہوا کہ صفر محض ہندسہ نہیں بہت اہم ہندسہ ہے۔ جہاں تک اس کے تقسیم نہ ہوسکنے کے غلط مفروضے کا تعلق ہے تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ 2 کو 20 صفر نے ہی بنایا ہے اس لیے اب 20 کو آپ جتنے حصوں میں بھی تقسیم کریں گے، صفر ان میں شامل سمجھا جائے گا۔'' ڈاکٹر صاحب مسلسل دو گھنٹے اسی موضوع پر بولتے رہے اور ان کے سامعین کی حالت یہ تھی کہ بہتوں کے ہاتھوں میں چائے کے کپ ویسے ہی دھرے رہ گئے اور محویت کے عالم میں انھیں چائے پینا یاد ہی نہیں رہا۔
اس قصے کا دوسرا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا اسٹینو، جو انھی کے کمرے میں دروازے کے قریب بیٹھا کرتا تھا اور جس کی میز پر ایک پرانا ٹائپ رائٹر دھرا رہتا تھا، اس میٹنگ کے دوران بھی اپنی سیٹ پر موجود تھا اور آرام سے بیٹھا ڈاکٹر صاحب کی گفتگو نوٹ کر رہا تھا۔ اس نے کسی سے اس کا ذکر نہیں کیا اور فرصت میں اپنے نوٹس فیئرکرکے ٹائپ کرتا رہا۔ جب 200 سے زائد فل اسکیپ سائز صفحات پر مشتمل مسودہ تیار ہوگیا تو اس نے وہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کرکے انھیں حیران کردیا جنہوں نے ایک ہی نشست میں پورا مسودہ پڑھ ڈالا اور اسٹینوکو لوٹاتے ہوئے کہا یہ کسی پبلشر کو دکھاؤ، اگر وہ اسے چھاپنے کی حامی بھرے تو میں دیباچہ بھی لکھ دوں گا، جو رائلٹی ملے گی وہ ساری تمہاری۔ اس زمانے میں حیدرآباد میں ایک ہی پبلشر ہوا کرتے تھے۔ آرایچ احمد اینڈ برادرز، جن کا بک اسٹور شاہی بازار میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی ہدایت پر اسٹینو نے انھیں وہ مسودہ دکھایا اور وہ اسے چھاپنے کے لیے تیار بھی ہوگئے، مگر چونکہ پیسے بہت کم دے رہے تھے اس لیے بات نہ بن سکی۔ بعد میں اس مسودے کا کیا ہوا، مجھے نہیں پتہ۔
تو یہ ہے حساب کتاب کا بکھیڑا، آج کل کے دور میں اتنی فرصت کسے ہے کہ اس بکھیڑے میں پڑے۔ اپنی تو جمع تفریق کے نام ہی سے جان جاتی ہے، اسی مارے بچوں کو ہوم ورک تک نہیں کراتا، بیگم سے کہہ رکھا ہے کہ کھانا بیشک مت پکایا کرو، باہر سے منگوالیں گے لیکن بچوں کا ہوم ورک تم ہی کروایا اور دیکھا کرو۔ ہندسے دیکھ کر متلی ہونے لگتی ہے۔ اسی لیے میں اپنے کمرے میں بیڈ کے عین سامنے لگا ہوا کیلینڈر دیکھنے سے بھی احتراز کرتا ہوں اور کسی سے بھی تاریخ پوچھ کرکام چلا لیتا ہوں۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ سوفیصد سچ ہے، مجھے تو ہندسوں کی ساخت تک سے چڑ ہے۔ یوں لکھو تو چھ ہے اور اسی کو الٹا کردو تو نو ہو جائے گا، چھ اور ایک اس طرح لکھو تو سولہ ہے اور ویسے لکھو تو اکسٹھ ہو جائے گا۔ بھئی چھ، چھ ہے اور ایک، ایک ہے، اب آپ اسے سیدھا لکھیں یا الٹا، ہندسے کی قدر وہی رہنی چاہیے، چھ اور ایک مل کر اگر سولہ بنتے ہیں تو انھیں خواہ کسی طرح بھی لکھا جائے یہ سولہ ہی رہنے چاہیئیں، اکسٹھ کیسے ہوسکتے ہیں۔
اسے بھی چھوڑیں، گزشتہ سال کے کیلینڈرکا آخری صفحہ پلٹ کر دیکھیں جس پر آخری دو مہینوں نومبر اور دسمبر کی تاریخیں درج ہیں۔ نومبر 30 اور دسمبر 31 دن کا تھا لیکن اگر آپ ان کی تاریخوں کی ترتیب دیکھیں گے تو چکرا کر رہ جائیں گے۔ مثلاً نومبر میں 7، 14، 21 اور 28 کی تاریخیں پیرکے دن تھیں لیکن دونوں مہینوں میں ایک دن کا فرق ہونے کے باوجود دسمبر میں یہی تاریخیں منگل کے بجائے بدھ کے دن آئی تھیں۔اسی طرح نومبر میں جو پانچ تاریخیں منگل کے حصے میں آئی تھیں وہ دسمبر میں جمعرات کو منتقل ہوگئی تھیں اور نومبر میں بدھ کے روز آنے والی پانچوں تاریخیں دسمبر میں جمعے کے خانے میں ڈال دی گئیں جب کہ نومبر میں جمعے کو پڑنے والی چاروں تاریخیں دسمبرکے آخری اتوار کو دے دی گئیں۔ آپ پوچھیں گے کیوں، تو اس کا جواب کیلینڈر بنانے والے ہی دے سکتے ہیں۔ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ معموں کے چارٹ اورکیلینڈر بنانے والے دونوں ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں، جس طرح معموں کے خانے پر اسرار ہوتے ہیں ویسے کیلینڈر کی تاریخوں کے پیچھے بھی کوئی دلیل یا منطق کارفرما نہیں ہوتی۔
اسکول کے زمانے میں میرا اپنے ایک کلاس فیلوکے گھر بہت آنا جانا رہتا تھا، جن کے ہاں رسالہ شمع، دہلی ہر ماہ باقاعدگی سے آتا تھا کیونکہ انکل کو معمے حل کرنے کا خبط تھا۔ میں نے ایک دو بار انھیں معموں میں سرکھپاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ بالکل صحیح حل بھیج کر پورے ایک لاکھ روپے جیتے جاسکتے تھے، سو ہم نے بھی قسمت آزمائی کی خاطر پہلا انعام جیت کر لکھ پتی بننے کی کوشش کی، یہ الگ بات کہ کامیاب نہ ہوسکے۔ ہمارا مقصد نیک تھا کیونکہ ہم نے سن رکھا تھا کہ لکھپتی کی سات نسلیں بیٹھ کرکھاتی ہیں، ہمارا کنبہ بھی عیش کرے گا۔ ایک حل بھیجنے کی فیس ایک روپیہ تھی یعنی ہم 16 دن کا جیب خرچ بچائیں تو کہیں جاکر ایک حل بھیجنے کے قابل ہوپائیں۔
پھر بھی ہم نے دو تین بار کوشش کی، اس سے بڑھ کر اپنے کنبے کے لیے اورکیا قربانی دیتے۔ تب ہمیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ معمے کا صحیح حل نکالنے کا بھی ایک میتھا میٹیکل فارمولا ہے۔ مثلاً معمے کا سوال ہے بلی کیا کھاتی ہے اور تین ممکنہ جوابات کے آگے لکھا ہے ہاتھی، چوہے اورگھوڑے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جواب کے خانے میں چوہے لکھ کر لکھپتی بن جائبں گے تو یہ آپکی بھول ہے، میتھامیٹیکل فارمولا کے حساب سے جواب اگر ہاتھی آتا ہے تو وہی جواب صحیح ہے جب کہ بلی کا باپ بھی ہاتھی نہیں کھا سکتا۔ ثابت ہوا حساب کتاب کے بکھیڑے میں نہ پڑنے اور اس سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔ بغیرکسی حساب کتاب اورحلال حرام کی تمیزکے کھلا کھاؤ اورعیش کرو۔