کرنل سید امجد حسین مرحوم
علامہ اقبال کہتے ہیں، دیکھو بھئی ، تمہاری کشتی جو پہلو ان لڑ سکتا ہے ، وہ میں نہیں، کوئی اور ہے
سخت گرمیوں کے دن ہیں۔ اسلامیہ ہائی اسکول کا ایک طالب علم اپنے دوست کے ہمراہ تھکا ماندہ علامہ اقبال کے گھر پہنچتاہے۔ 1936ء کے الیکشن ہو چکے ہیں۔ ہندوستان میں کانگریسی حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔ مسلمان بے حد مایوس ہیں اور اس طالب علم کا چہرہ اس وقت اسی قلبی کیفیت کا مظہر ہے ۔ طالب علم پر جب کبھی اس طرح کی مایوسی حملہ آور ہوتی ہے تو علامہ اقبال کے آستانہ پر حاضر ہو جاتا ہے ۔ طالب علم اور اس کا دوست علامہ صاحب کے آستانے پر پہنچے ۔ علامہ اقبال شفقت بھرے لہجے میں پوچھتے ہیں ، ہن دسو ، کی مسئلہ اے ۔ ( اب بتاو کیا مسئلہ ہے ) ۔ پہلا نوجوان کہتا ہے کہ پیرومرشد، پنجاب میں مسلم لیگ بری طرح ہارگئی ہے ۔ کانگریسی حکومتیں قائم ہو گئی ہیں۔ ہم سخت پریشان ہیں۔ ہمیں کوئی راستہ دکھائیں۔
علامہ اقبال کہتے ہیں، دیکھو بھئی ، تمہاری کشتی جو پہلو ان لڑ سکتا ہے ، وہ میں نہیں، کوئی اور ہے ۔ نوجوان متعجب ہوتا ہے اور پوچھتا ہے کہ پیرومرشد ہماری نظر میں تو آپ ہی ہیں ، جو ہماری رہ نمائی کر سکتے ہیں ۔آپ کہہ رہے ہیں ، وہ کوئی اور ہے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں ، تمہارے لیڈر بیرسٹر محمد علی جناح ہیں ، وہ آج کل لندن میں ہیں ، مگرمیں نے ان سے لکھا ہے کہ تنہا آپ ہی ہیں جوبر صغیر کے مسلمانوں کی کشتی کو پار لگا سکتے ہیں ۔
تم فکر نہ کرو، میں ان کو قائل کرلوں گا لیکن میری ایک نصیحت ہے، جب وہ لاہور پہنچیں ، تو تم فوراً ان کی خدمت میں حاضر ہو جانااور جو وہ حکم دیں اس پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنا ۔کیونکہ وہی ہم مسلمانوں کے نجات دہندہ ہیں ۔ نوجوان اور اس کا دوست یہ عزم کرکے اٹھتے ہیں کہ جیسے ہی بیرسٹر محمد علی جناح لاہور آئیںگے ، وہ ان کی خدمت میں حاضر ہو جائیں گے ۔ یہ طالب علم جو آج سے تقریباً اکیاسی سال پہلے اپنے ایک دوست کے ہمراہ علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا ، لاہور کا سید امجد حسین تھا۔ انھوں نے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں 97 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہا اور یوں1937 ء کے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے والے آخری مسلم لیگی کارکن بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔
یہ وا قعہ چند سال پہلے مجھے سید امجد حسین کی زبانی سننے کااتفاق ہوا، جب میں قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ پر ایک دستاویزی فلم بنا رہا تھا۔ میں مسلم ٹاون لاہور ان کے گھر ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ میں قائداعظم رحمتہ اللہ علیہ پر ان کی یادداشتیں ریکارڈ کرنا چاہتا ہوں ۔ کہنے لگے، یہ میرے لیے بھی اعزاز کی بات ہو گئی کہ میں اپنے قائد کے ساتھ اپنے گزرے ہوئے لمحات کو تازہ کر سکوں گا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے ساتھ یہ نشست کوئی دوڈھائی گھنٹے تک جاری رہی، اس وقت ان کی عمر اس وقت اکیانوے سال تھی مگر قائد اعظم کا ذکر کرتے ہرئے وہ ایسے لگ رہے تھے، جیسے پھر سے سترہ اٹھارہ سال کے طالب علم بن گئے ہوں۔
میںنے پوچھا، پھر قائداعظم سے آپ کی یہ ملاقات پھر کب اور کیسے ہوئی ۔ کہنے لگے ، علامہ اقبال سے بیرسٹر محمد علی جناح کا ذکر سنتے ہی ہم اب ان کے لیے سراپا انتظار بن گئے۔ ایک روز معلوم ہوا کہ قائداعظم پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں اور جلد ہی لاہور بھی تشریف لائیں گے۔ جیسے ہی وہ لاہور پہنچے اور پتا چلا کہ وہ فلیٹیز ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں ، ہم فی الفور فلیٹیز ہوٹل پہنچ گئے۔ سیکریٹری نے کہا،میںبیرسٹر صاحب سے پوچھ کر آتا ہوں ۔ تھوڑی دیر بعد وہ باہر آئے اور کہا کہ بیرسٹر صاحب نے کہا ہے کہ آپ کے پاس صرف دوتین منٹ ہوں گے ۔یہ سنتے ہی ہمارے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ۔ ہم کمرے میں داخل ہوئے ۔ قائداعظم نے نظریں اٹھا کر ہماری طرف دیکھا۔ ایک مرتبہ تو ہم بوکھلا ہی گئے ۔ میرے ذہن میں پیرومرشد علامہ اقبال کایہ شعر گونجا،
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
ابھی ہم پوری طرح سنبھل بھی نہیں پائے تھے کہ قائداعظم کی کڑک دار آواز گونجی ،sid down ۔ ہم بیٹھ گئے ۔ میں نے انگریزی میں اپنا اور اپنے دوست کا تعارف کرایا، علامہ اقبال کا حوالہ دیا اور درخواست کی کہ سر، آپ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ تشریف لائیں اور مسلمان طلبہ سے خطاب فرمائیں۔ قائداعظم نے کہا، تم لوگ کس اتھارٹی کے تحت مجھے کالج آنے کی دعوت دے رہے ہو، کیا تم نے اس کے لیے پرنسپل صاحب سے اجازت لی۔ ہم نے کہا،نو سر۔ ان کی کڑک دار آواز دوبارہ گونجی ، جاو ، پہلے اپنے پرنسپل سے اس کی اجازت لو ، اس کے بعد اگر میرے پاس وقت ہوا تو میں آجاوں گا ۔ ہم نے سر جھکا لیے اور کہا، یس سر۔ ایک بار پھر ان کی آواز گونجی، boys , dont waste my time and dont waste your time , you may go now ۔ یہ کہہ کر قائداعظم نے ہماری طرف سے نظریں ہٹا لیں اور اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔ قائداعظم سے ملتے ہی سینے پر مایوسی اور ملال کا جوغبار چھایا ہوا تھا، وہ یکلخت چھٹ گیا۔ مجھے میرا قائد مل گیا تھا۔'' یہ کہتے ہوئے سید امجد حسین کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی تھی۔
سید امجد حسین اپنے محبوب قائد کے لیے اسلامیہ کالج کے پرنسپل کی طرف سے تحریری دعوت نامہ حاصل کرنے میں کامیاب تو نہ ہو سکے، لیکن اپنے قائدکی طرف سے ان کو مسلم لیگ کے لکھنو اجلاس 1936ء کا تحریری دعوت نامہ اس طرح موصول ہوا کہ وہ دنگ گئے۔ سید امجد حسین نے عید سے پہلے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں 97 سال کی عمر میں داعی اجل کا لبیک کہا اور یوں1937 ء کے مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شرکت کرنے والے آخری مسلم لیگی کارکن بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔
لو وصل کی ساعت آ پہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کیے اور سینے کا در باز کیا
سید امجد حسین کی زبانی لکھنو کے اس تاریخی اجلاس کی ولولہ انگیز روائیداد آئندہ کالم میں۔