سعودیہ اسرائیل مذاکرات ۔ پاکستان پہل نہ کرسکا

افراد ہوں یا اقوام بروقت صحیح فیصلے نہ کرنے کے نتائج ایک طویل عرصے تک بھگتتے ہیں



KARACHI: سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام پر مذاکرات کی اطلاعات اب زیادہ آرہی ہیں۔ ممالک کے درمیان تعلقات ہوں یا نہ ہوں، ان کے درمیان تعلقات سخت کشیدہ ہی کیوں نہ ہوں کسی نہ کسی سطح پر رابطے جاری رہتے ہیں۔ تاہم اکثر ایسے رابطے عوام یا پریس کے سامنے بظاہر نہیں کیے جاتے، سرد جنگ کے انتہائی حساس دور میں چین اور امریکا نے پاکستان کے ذریعے رابطے قائم کیے تھے۔ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کا تعلق امریکی لابی سے ہے لیکن اسرائیل کے معاملے پر سعودی عرب نے امریکی پالیسی کے برخلاف عرب ممالک کی پالیسی کی حمایت کا فیصلہ کیا۔

سرد جنگ کے دور میں امریکا نے مصر اور اسرائیل کے درمیان سمجھوتہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ سمجھوتہ جس پر مصر کے صدر انور سادات اسرائیل کے وزیر اعظم مناخم بیگن اور امریکی صدر جمی کارٹر نے ستمبر 1978ء میں دستخط کیے تھے کیمب ڈیوڈ سمجھوتہ کہلاتا ہے۔ 1979ء میں مصر اور اسرائیل کے درمیان ایک اور معاہدہ ہوا۔ اس کے تحت مصر اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا۔

امریکی اہتمام میں مصر اور اسرائیل کے تعلقات اس وقت کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کے لیے بہت بڑا دھچکا تھے۔ ان تعلقات کو سوویت بلاک اور امریکی بلاک دونوں سے وابستہ عرب ممالک نے بھی پسند نہ کیا۔ عرب لیگ نے مصر کی رکنیت معطل کردی جو 1989ء تک معطل رہی۔

مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا ملک اردن ہے۔ اردن نے بھی امریکا کے زیر اہتمام اسرائیل کے ساتھ طویل مذاکرات کیے۔ 25 جولائی 1994ء کو اردن کے شاہ حسین، اسرائیل کے وزیر اعظم آئزک رابن اور امریکی صدر بل کلنٹن نے واشنگٹن میں ایک معاہدے پر دستخط کردیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر عرب لیگ نے اردن کی رکنیت معطل نہیں کی۔ دو پڑوسی ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کامختصراً پس منظر بتانے کا مقصد کچھ واقعات قارئین کے ساتھ دہرانا اور یہ واضح کرنا ہے کہ ملکوں کے درمیان کئی معاملات برسوں کی خاموش سفارت کاری اور پس پردہ مذاکرات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کا آغاز کب ہوا اور ان میں کون کون سے ممالک شامل ہیں یہ تفصیلات ہوسکتا ہے کہ چند سال بعد سامنے آئیں۔

دنیا کا ہر ملک اپنے ملکی مفادات کے تحت فیصلوں کا حق رکھتا ہے۔ سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر مذاکرات بھی اس کی قومی مصلحتوں اور ملکی مفادات کے تابع ہیں۔ کسی تیسرے ملک کی حکومت یا عوامی حلقوں کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں۔ اچھی سفارت کاری بر وقت صحیح اقدامات کا تقاضہ کرتی ہے۔ چین انتہائی مشکل حالات میں تنہا رہنے کے باوجود اپنی اچھی معاشی و سیاسی پالیسیوں اور حقیقت پسندانہ سفارت کاری کی بدولت دنیا کی دوسری مضبوط ترین معیشت بننے میں کامیاب ہوگیا۔ کئی عرب ممالک نے سفارت کاری کو جذبات کے تابع کیے رکھا نتیجتاً بھاری نقصان اٹھا کر اب حقیقتوں کا اعتراف کر رہے ہیں۔

فلسطین میں ریاست اسرائیل کے قیام میں برطانیہ کا کنٹری بیوشن سب سے زیادہ ہے۔ ایک صدی پہلے تک یہودی قوم کو دنیا میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔کئی ممالک یہودیوں کودیس نکالا دیتے رہتے تھے۔ ان حالات میں چند یہودی دانشوروں خصوصا تھیوڈر ہیزل نے یہودی قوم کے لیے ایک ملک کے حصول کا پروگرام بنایا۔ اس دور میں ارجنٹائن میں یہودی بڑی تعداد میں اور کافی آزادیوں کے ساتھ رہ رہے تھے چنانچہ تجویز کیا گیاکہ یہودیوں کی آزاد ریاست ارجنٹائن میں قائم کی جائے۔ دوسرے متبادل کے طور پر مشرق وسطیٰ کا علاقہ تجویز کیا گیا۔ اس وقت برطانوی راج میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ برطانوی قوم یہودیوں کو پسند نہ کرتی تھی۔ ایک وقت تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ نے یہودیوں کی برطانیہ آمد اور آبادکاری روکنے کے لیےAllien Act 1905 نامی قانون پاس کیا تھا۔

برطانیہ ارجنٹائن میں یہودی ریاست کے قیام کا مخالف تھا۔ اب یہودیوں نے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے سوچ بچار شروع کی۔ برطانیہ نے اس تجویز کی حمایت کی۔اس طرح ایک طرف تو برطانیہ اور یورپ میں یہودیوں کی آمد سے جان چھٹ رہی تھی دوسری طرف سلطنت عثمانیہ کو توڑ کر آزاد ہونے والے عرب ممالک کی اچھی نگرانی کا بندوبست بھی ہورہا تھا۔ دنیا بھر میں آباد یہودیوں سے کہا گیا کہ وہ فلسطین میں جائیداد خریدیں اور وہاں رہائش اختیار کریں۔ شروع میں تو اس مہم کو کوئی خاص کامیابی نہ ہوئی تاہم پچیس سال میں تقریباً ایک لاکھ یہودی ارض فلسطین جا کر آباد ہوگئے۔ اس وقت وہاں فلسطینیوں کی آبادی پانچ لاکھ سے زیادہ تھی۔ فلسطین سلطنت عثمانیہ میں بھی شامل تھا۔ یہ وہ دور تھا جب برطانیہ سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے مشرق وسطیٰ میں عرب قوم پرستی کو ہوا دے رہا تھا۔ 1918ء میں برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت کی اقوام متحدہ یعنی لیگ آف نیشنز نے 1920ء میں فلسطین پر برطانوی قبضے کو تسلیم کرکے قانونی حیثیت دے دی۔

دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد دنیا بھر سے برطانوی نو آبادیوں کا خاتمہ شروع ہوا۔ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947 کو ایک قرارداد کے ذریعے یہ طے کیا کہ وہاں برطانوی راج 1948ء میں ختم ہوجائے گا اور اس علاقے کو دو آزاد ریاستوں یعنی یہودی ریاست، فلسطینی ریاست اور ایک آزاد شہر یروشلم میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ فلسطینیوں نے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی فلسطین کی تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جیوش ایجنسی برائے فلسطین نے اس تجویز کو قبول کرلیا۔ اس طرح ارض فلسطین پر ریاست اسرائیل کا قیام 14مئی 1948ء میں عمل میں آیا۔ عالمی صیہونی تنظیم اور جیوش ایجنسی کے اس وقت کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔

افراد ہوں یا اقوام بروقت صحیح فیصلے نہ کرنے کے نتائج ایک طویل عرصے تک بھگتتے ہیں۔ فلسطینیوں کے انکارکا نتیجہ یہ نکلا کہ فلسطینی ایک طویل اور پُر آشوب جدوجہد کے باوجود آج تک وہ مقام حاصل نہ کرسکے جو اقوام متحدہ کی تنظیم انھیں 1948ء میں خود دے رہی تھی۔ فلسطینی عرب نیشنل ازم کے تحت مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی بصیرت پر اعتماد کر رہے تھے۔ لیکن مصری حکومت اور دیگر کئی عرب حکومتوں کو سوویت یونین اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ اس کھینچا تانی کا نتیجہ بھگتا کم زورفلسطینیوں نے، سوویت اثرات سے باہر نکلتے ہی مصر نے فلسطین پر اپنا موقف تبدیل کرکے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اس کے ساتھ کئی شعبوں میں تعاون بھی شروع کردیا۔

اسرائیل اپنے قیام کے فوراً بعد سے ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات کا شدت سے خواہاں رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی تھی کہ اسرائیل پاکستان کے ذریعے عرب ممالک سے تعلقات قائم کرنا چاہتا تھا لیکن پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے عرب ممالک خصوصا مصر شام اور اردن اور عرب لیگ کی پیروی کی پالیسی اختیار کی۔ اب کئی عرب ممالک اسرائیل کے بارے میں اپنی پالیسیاں تبدیل کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام پر بات چیت کی خبریں بھی آنے لگیں۔

پاکستان کو اسرائیل کے بارے میں عربوں یا کسی اور بلاک کی پیروی کے بجائے اپنے قومی مفاد کے تحت حقیقت پسندانہ پالیسیاں اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنا چاہئیں۔ ریاض میں مسلم ممالک کی حالیہ سربراہ کانفرنس اور دیگر کئی مواقع پر عرب ممالک نے تو ہمیں صاف بتا دیا ہے کہ خارجہ پالیسی میں جذبات نہیں صرف مفادات کو اولیت ہوتی ہے۔ ہمارے خطے کے بارے میں روس، امریکا، چین، برطانیہ، یورپی یونین سمیت ہر اہم ملک کی پالیسیاں وقت کے تقاضوں کے مطابق بدل چکی ہیں۔ پاکستان عرب دنیا میں پہل نہ کرسکا اب پاکستان کو سی پیک سے اپنے لیے کئی مواقع کشید کرنا ہیں۔ ایسے میں ایک حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں