مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
ہمارے نظام کا یہ کمال ہے کہ مبینہ کرپٹ کو پکڑکر اس پر اربوں، کھربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں
KARACHI:
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایک سروے کیمطابق پاکستان میں 78 فی صد افراد پولیس کو، 68 فی صد عدالتوں کو،61 فی صد پانی، بجلی، صفائی کے محکموں،38 فی صد شناختی دستاویزات، ووٹر کارڈ، حکومت کے پرمٹ بنانیوالے اداروں،11 فی صد سرکاری اسپتالوں، 9 فی صد سرکاری اسکولوں کو رشوت دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ 44 فی صد افراد کے خیال میں حکمرانوں کے دفتر کا عملہ بھی کرپٹ ہے۔
رشوت دینے والوں میں 64 فی صد غریب اور 26 فی صد امیر افراد شامل ہیں اور یہ وہ بین الاقوامی آئینہ ہے سال گزشتہ کا جس میں ہم اپنے معاشرے کی بڑی واضح جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پولیس کی اصلاحات کے لیے طرح طرح کی قانون سازی کی گئی اور انواع و اقسام کے تربیتی پروگرام بھی اختیار کیے گئے مگر ہر ظالم وہیں کا وہی ہے، جب ایک مصیبت زدہ تھانے پہنچتا ہے تو اس کی دلجوئی اور ہمدردی کرنے کی بجائے اسے طنزیہ سوالوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ایف آئی آر درج کرنے سے انکارکردیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پولیس ہر طرح کے سیاسی وسماجی دباؤ سے آزاد ہوتی ہے۔ اگرچہ وہاں پولیس بظاہر حکومت کو جواب دہ ہوتی ہے مگر در اصل وہ قانون کو جواب دہ ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے پاکستان میں سیاسی حکومتیں پولیس کے معاملات میں مداخلت کرتی ہیں اور اسے آزادانہ کام نہیں کرنے دیتیں۔ حالانکہ اگر تمام صوبائی حکومت چاہیں تو ایسی قانون سازی کریں جس میں پولیس کو مکمل خود مختاری دی جائے۔ تھانہ کلچر، آئی ٹی مانیٹرنگ سے زیادہ پولیس کے موجودہ ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں لانے اور اخلاقی تعلیم و تربیت کا شاندار نظام قائم کرنے سے ہی تبدیل ہوسکتا ہے۔
اس حقیقت سے سبھی واقف ہیں کہ خیانت، بددیانتی، ضمیر فروشی، بے ایمانی، فریب سے ہمارا پورا ملک لتھڑا ہوا ہے۔ سرکاری، نجی محکموں اور اداروں میں قومی خزانے کی لوٹ مار لگی ہوئی ہے اور ان تمام عوامل کے لیے آج ہم انگریزی کا لفظ ''کرپشن'' استعمال کرتے ہیں، جو فی الحقیقت ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بلکہ اُم المسائل ہے اور موجودہ مروجہ نظام کے رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے قومی وسائل کا بہت بڑا حصہ آج بھی با اثرافراد اورگروہوں کی لوٹ کھسوٹ کی نذر ہورہا ہے جب کہ ماضی میں جو قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک بینکوں کے خفیہ کھاتوں میں منتقل کی گئی یا قیمتی جائیدادوں کی خریداری میں صرف کی گئی اس کی مالیت اتنی زیادہ ہے کہ بعض اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر اس ملک میں اسے واپس لایا جاسکے تو نہ صرف یہ کہ تمام بیرونی قرضوں سے چھٹکارا مل جائے بلکہ کئی عشروں تک سرکاری اور ترقیاتی اخراجات کے لیے کوئی ٹیکس لگانے کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔
قومی احتساب بیورو نے گزشتہ سال سیکریٹری خزانہ بلوچستان کے گھر پر چھاپہ مار کر وہاں سے 73 کروڑ روپے کے نوٹوں کی گڈیاں اور ایک کلو سے زائد سونے کا جو خزانہ برآمدکیا اس نے ہر شخص کو حیران اور ششدرکرکے رکھ دیا۔ اسی طرح نیب ہی نے حیدرآباد کے ایک پولیس ہیڈکانسٹیبل کو گرفتار کرکے اربوں روپے نقد اوراربوں روپے مالیت کے اثاثے جن میں زیورات، غیر ملکی کرنسی، فلیٹس، پلاٹس اورگاڑیاں اپنی تحویل میں لیں۔ یہ بجا کہ کرپشن کسی نہ کسی شکل میں ہر جگہ موجود ہے اورکوئی بھی ملک اس سے مکمل طور پر پاک ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا لیکن پاکستان میں یہ جس طرح پورے معاشرے کے رگ وپے میں سرائیت کرچکی ہے اس کا اعتراف تو ہر سطح پرکیا جاتا ہے اور بعض اوقات کرنسی نوٹوں کے ٹرک تک پکڑے جاتے ہیں اور غیر معمولی مقدار میں کرنسی کے انبار لانچوں میں بھرکے سمندر پار ممالک میں پہنچائے جانے کی کہانیاں بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن چند دن کے شور شرابے کے بعد یہ ساری گرد اس طرح بیٹھ جاتی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
بڑے افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ بھاری کرپشن اور دیگر بڑے جرائم کے متعدد بڑے بڑے معاملات میں جس طرح پسپائی کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے وہ لوگوں کے ذہنوں میں سوالات اٹھانے کا سبب بن رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین کی تمام مقدمات میں ضمانت، انور مجید کیس، پانچ ارب کی کرپشن کے مبینہ ملزم قرار دیے جانے والے شرجیل میمن کی وطن واپسی، عزیر بلوچ کے معاملے میں خاموشی، نثار مورائی اور منظورکاکا کے انجام کی بے یقینی، عزیزآباد سے اسلحے کی بہت بڑی کھیپ پکڑے جانے کا معمہ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر سے سولہ ہزار فائلوں کا لاپتا ہونا اورایسے ہی کئی اہم معاملات انجام کو نہیں پہنچے۔ بیشتر مقدمات کے بارے میں کوئی معلومات دستیاب نہیں جب کہ اکثر مقدمات میں استغاثے نے پیروی ہی نہیں کی جس کے باعث ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا سلسلہ جاری ہے اور اسے بریت سے تعبیر کیا جارہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ سنگین جرائم کے جو کئی بڑے معاملات نہایت بلند وبانگ دعوؤں کے ساتھ سامنے لائے گئے تھے استغاثہ ان کی پیروی میں کیوں ناکام رہا؟ پسپائی کے نتیجے میں عوام یقینا بے اعتمادی اور بد دلی کا شکار ہورہے ہیں جب کہ جرائم پیشہ عناصر کے لیے یہ صورتحال نہایت حوصلہ افزا ثابت ہورہی ہے اور یہ سب کا سب کراچی آپریشن کے مقاصد کو بھی شدید خطرات میں ڈالے ہوئے ہے۔ عدل وانصاف کے بغیرکوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا مگر بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک عدل کا حصول بہت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ریاستی اداروں پر اعتماد کرنے کی بجائے خود قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے نظام کا یہ کمال ہے کہ مبینہ کرپٹ کو پکڑکر اس پر اربوں، کھربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور کچھ ہی عرصے کے بعد اس چور، ڈاکو یا کرپٹ کو صاف ستھرا ہیرو بناکر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ یہ سسٹم کرپشن اورکرپٹ کو بچانے کے لیے ہی بنایا گیا ہے، جن پر ایک وقت میں یہی سسٹم ملک کے خزانے کو لوٹنے کے سنجیدہ الزام لگاتا ہے انھیں کو کچھ عرصے بعد پھولوں کے ہار ڈال کر انھیں پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ پاکستان کے آئینی سربراہ کا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپٹ افراد کا بلا تفریق محاسبہ نہ ہونا ہے اور اسی وجہ سے اب معاشرے میں رشوت اور بد عنوانی محض طاقتور لوگوں تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ معاشرے کے ہر فردکا شاید پیدائشی حق بن چکی ہے۔
پاکستان میں اس وقت انسداد بد عنوانی کی چھ ایجنسیاں کام کررہی ہیں جن میں سے دو وفاقی اور چار صوبائی سطح پر موجود ہیں مگر ان کی کارکردگی کوکسی طور صحت مند قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ایسے میں وزیراعظم پاکستان کی پاناما لیکس کے حوالے سے جے آئی ٹی کا سامنا کرنا فی الحقیقت معاشرے میں صحت مند اقدار کی ترویج کا نہایت خوش آیند مظاہرہ ہے۔ کیونکہ بے لاگ احتساب اور انصاف ہی معاشرے کی بقا اور سلامتی کی ضمانت ہوتا ہے اور یہ امر باعث اطمینان ہے کے پاکستان کی عدلیہ اپنے آہنی عزم اور سیاسی جمہوری قوتوں کی جدوجہد کے نتیجے میں الحمدﷲ آج اس حد تک آزاد ہے کہ حکمراں اس کے سامنے احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔آج ہماری عدالتیں منتخب حکمرانوں کو گھر بھیجنے کے فیصلے تک کرنے کے لیے آزاد ہیں اور یہ قانون اور انصاف کے حوالے سے ایک بڑی قومی کامیابی ہے۔
وزیراعظم اور ان کے خاندان کے حوالے سے پاناما کا جو بھی فیصلہ ہوا اس سے ہمارے معاشرے میں قانون کی حکمرانی کی بنیادیں مضبوط ہوںگی بشرطیکہ احتساب کے عمل کو محض ایک شخص یا ایک خاندان تک محدود نہ رکھا جائے۔ پاناما پیپرز میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جن سیکڑوں ممتاز پاکستانیوں کے نام ہیں انھیں بھی غیر جانبدار احتسابی عمل سے گزارا جائے اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ ماضی میں جو حکمران قومی خزانے کی لوٹ مار میں کھلم کھلا ملوث رہے ہیں جو قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک خفیہ کھاتوں میں منتقل کرتے رہے ہیں جس کی مالیت دو سو ارب ڈالر تک بتائی جاتی ہے اور آج بھی جو لوگ کرپشن کی دلدل میں گردن تک دھنسے ہوئے ہیں۔
ان سب کے بے لاگ مواخذے کے لیے ایک مستقل ہمہ جہت، کل وقتی، بے لاگ اور خود کار نظام احتساب روبہ عمل لایا جائے، تاکہ ملک کرپشن کی لعنت سے دائمی نجات مل سکے۔کرپشن کے خاتمے کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ تمام معاملات میں شفافیت کا اہتمام کیا جائے ہر سطح پر میرٹ تک کو واحد معیار بنایا جائے اور محض پیشہ ورانہ قابلیت نہیں بلکہ کھرے کردار اور دیانت داری کو بھی میرٹ کی لازمی شرط قرار دیا جائے۔