بیئرآئی لینڈ ریچھ والا یہ جزیرہ ناروے کی ملکیت ہے

مجموعی طور پر یہ جزیرہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لطف اندوز ہونے کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہے


Mirza Zafar Baig July 02, 2017
مجموعی طور پر یہ جزیرہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لطف اندوز ہونے کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہے: فوٹو : فائل

PESHAWAR: بیئر آئی لینڈ یا ریچھ والا جزیرہ ناروے کے علاقے بحر منجمد شمالی میں واقع مجموعہ الجزائر کے انتہائی جنوب میں واقع ہے۔ یہ غیرمعمولی جزیرہ بحیرۂ بیرنٹس کے مغربی حصے میں موجود ہے اور روس اور ناروے کے شمال میں بحر منجمد شمالی کا ایک حصہ ہے۔

بیئر آئی لینڈ کو ولندیزی یا ہالینڈ کے مہم جو ولیم بیرنٹس اور جیکب وان ہمسکرک نے 10جون1596کو دریافت کیا تھا۔ وہ دونوں سمندر میں اپنے بحری جہاز میں مٹرگشت کررہے تھے اور سرد لہروں سے لطف اندوز ہورہے تھے کہ انہوں نے یکایک اس جزیرے کو دریافت کرلیا جسے بعد میں بیئر آئی لینڈ کا نام دیا گیا۔

٭اس انوکھے نام کی وجہ:
اس جزیرے کو ریچھ یا بیئر کا نام کیوں دیا گیا، اس کے پیچھے بھی ایک دل چسپ کہانی سنائی جاتی ہے۔

تاریخی کتابوں اور حوالوں میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالا مہم جوؤں یعنی ولیم بیرنٹس اور جیکب وان ہمسکرک نے قریبی سمندر میں ایک قطبی ریچھ کو تیرتے دیکھا، یہ اتفاق ہی تھا کہ وہ ریچھ اچانک ان کی نظروں میں آگیا جس پر نظر پڑتے ہی ان دونوں حضرات نے اس نو دریافت شدہ جزیرے کو ''بیئر آئی لینڈ'' کہہ کر پکارا، اس دن سے یہ جزیرہ اسی نام سے ساری دنیا میں مشہور ہوگیا اور آج تک ریچھ والا جزیرہ ہی کہلاتا ہے۔

٭نو مینس لینڈ:
یہ جزیرہ یعنی بیئر آئی لینڈ پہلے نہ تو کسی کی حکومت میں شامل تھا اور نہ ہی کسی ملک نے اس کی ملکیت کا دعویٰ کیا تھا، کیوں کہ اسے ''نو مینس لینڈ'' سمجھا جاتا تھا، مگر بعد میں 1920کے اسپٹس برگن معاہدے کے تحت یہ ناروے کے زیرانتظام آگیا اور اس پر ناروے کا اقتدار قائم ہوگیا اور آج بھی یہ ناروے کے زیرانتظام ہی ہے۔ گویا اب ناروے کی حکومت اس کے سیاہ و سفید کی ذمے دار ہے اور اس کے تمام امور کو چلاتی ہے۔

٭بیئر آئی لینڈ کی جغرافیائی اور محل وقوع کی اہمیت:
حالاں کہ اس جزیرے کا محل وقوع کچھ ایسا ہے کہ یہ نہایت دوردراز علاقے میں واقع ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی فطرت اور نوعیت کے اعتبار سے بنجر اور ویران بھی ہے، یعنی ایک تو جگہ بہت دور، دوسرے یہاں نہ انسان رہتے ہیں اور نہ جانور، نہ آبادی ہے اور نہ خوش حالی، اس کے باوجود گذشتہ کئی صدیوں کے دوران یہاں تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی انجام دی جاتی تھیں۔

مثال کے طور پر یہاں کوئلے کی کانیں ہیں جہاں سے کوئلہ نکالا جاتا اور کوئلے کی کان کنی کی جاتی تھی، اس کے علاوہ اس جزیرے پر ماہی گیری کا کام بھی بہت زور و شور سے چلتا تھا، گویا ماہی گیری یہاں کا ایک منافع بخش کاروبار تھا، اور اس کے ساتھ ہی یہاں کے سمندر سے وھیل کو پکڑنے کا کاروبار تو اپنے عروج پر تھا۔ اس کے لیے یہاں کئی بیس کیمپ ایسے بھی قائم کیے گئے تھے جو صرف وھیل کے لیے مخصوص تھے، لیکن اس سب کے باوجود یہاں کوئی بھی انسان رہنے کو تیار نہیں ہوتا تھا، گویا کاروباری کشش بھی انہیں یہاں رہنے پر آمادہ نہ کرسکی اور یہ جگہ پہلے کی طرح ویران اور غیرآباد ہی پڑی رہی۔

اس میں شک نہیں کہ ایک زمانے میں یہاں انسان آکر رہنے بھی لگے تھے، مگر شاید اس جگہ کی بدقسمتی تھی کہ کہ انسانوں کی کوئی بھی بستی یا آبادی یہاں چند سال سے زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی اور کچھ ہی عرصے میں گھبرا کر اور اس خطے کی بے رونقی کے علاوہ اس جگہ کی سردی سے پریشان ہوکر آنے والے واپس چلے گئے ۔ شاید اسی کی وجہ سے بیئر آئی لینڈ آج بھی ویران اور غیرآباد ہے۔ یہاں نہ تو انسان باقاعدگی سے رہتے ہیں اور نہ ہی اس جگہ کو انسانوں سے آباد جگہ قرار دیا جاتا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہاں جزیرے کے میٹرولوجیکل اسٹیشن Herwighamna میں کچھ لوگ اپنے ذاتی کام یا تحقیق وغیرہ جیسے امور انجام دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس جزیرے یعنی بیئر آئی لینڈ سے ملحقہ پانیوں یعنی سمندرے علاقے کو 2002 میں ایک نیچر ریزرو قرار دیا گیا تھا اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا گیا تھا۔

٭بیئر آئی لینڈ کی تاریخ:
ممکن ہے کہ وائی کنگ عہد کے ملاح اور جہاز راں بیئر آئی لینڈ کے بارے میں جانتے ہوں اور انہوں نے اس خطے کو باقاعدہ اپنی آنکھوں سے دیکھا بھی ہو اور شاید یہاں کوئی کام بھی کیے ہوں، لیکن اس جزیرے کی دستاویزی اور ٹھوس تاریخ کا آغاز 1596سے ہوتا ہے جب ولیم بیرنٹس نے اپنی تیسری مہم جوئی کے دوران اس جزیرے کو پہلی بار اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حیران ہوا تھا۔ اس نے اس جزیرے پر نظر پڑتے ہی اس جزیرے کو مقامی زبان میں Vogel Eylandt کہہ کر پکارا اور اسی کو انگریزی زبان میں Bird Island کا نام دیا تھا۔ لیکن اس حوالے سے بعد میں تاریخ میں کچھ نہیں ملا، لیکن یہ حوالہ ضرور ملا ہے کہ بعد میں اسٹیون بینٹ نے اپنی مزید مہم جوئی 1603اور 1604میں بھی کی اور یہ بات خاص طور سے نوٹ کی کہ یہاں والرس بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ والرس کی موجودگی سے اسے خاصی تقویت ملی کہ یہاں انسان نہ سہی، والرس تو بڑی تعداد میں موجود ہے ناں!

چناں چہ سترھویں صدی کے آغاز میں اس جزیرے یعنی بیئر آئی لینڈ کو بہ طور خاص والرس اور سیل کی دوسری اقسام کے شکار کے لیے بطور بیس استعمال کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں والرس اور سیل کے حوالے ہونے والی تجارت میں مضبوطی اور استحکام بھی آیا اور نئی راہیں بھی کھلنے کی امید پیدا ہوگئی۔

٭نایاب انڈوں سے افزائش نسل:
اس سب کے علاوہ بیئر آئی لینڈ کے بارے میں یہ بھی تاریخ میں درج ہے کہ یہاں پائے جانے والے آبی پرندوں کے انڈے بھی ان کی آبادیوں سے جمع کیے گئے اور انہیں مزید پرندوں کی افزائش نسل کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ کام 1971تک کرلیا گیا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے نہ تو ان انڈوں پر توجہ دی گئی تھی اور نہ ہی انہیں افزائش نسل کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں سوچا گیا تھا۔

٭تاج برطانیہ کی ملکیت:
Muscovy Company نے 1609میں بیئر آئی لینڈ پر دعویٰ کردیا کہ یہ تاج برطانیہ کی ملکیت ہے اور وہاں اپنی عمارتیں تعمیر کرنی شروع کردیں، مگر بعد میں جب اس کمپنی نے یہ دیکھا کہ یہاں والرس کا شکار کم ہوتا چلا جارہا ہے تو اس جگہ کو بے مقصد سمجھتے ہوئے یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیا اور جگہ خالی کردی۔ ویسے بھی اس دور میں برطانیہ کی یہ پالیسی تھی کہ ہماری سلطنت اتنی وسیع و عریض ہوکہ ہماری سلطنت میں سورج غروب نہ ہو، انہیں اپنے زیر اقتدار علاقے کو بہت زیادہ وسیع کرنے کا شوق تھا، مگر ساتھ ہی یہ لوگ یہ ضرور دیکھتے تھے کہ اگر ہم کسی جگہ پہنچیں گے اور اپنے پنجے گاڑیں گے تو اس سے ہمیں کتنا فائدہ ہوگا۔ لیکن جب یہ دیکھتے کہ منافع سے زیادہ یہاں خرچ ہوگا تو فوراً وہاں سے واپس چل دیتے تھے۔

٭جزیرے پر روسی نو آبادی:
اٹھارھویں صدی میں یہاں یعنی بیئر آئی لینڈ پر ایک روسی نو آبادی بھی پائی جاتی تھی جو ظاہر ہے کسی نہ کسی مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے قائم کی گئی ہوگی، بعد میں اسی نوآبادی کی باقیات کو روسیوں نے 1899میں علاقائی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے استعمال کیا، اس وقت روس میں شہنشاہیت قائم تھی۔

روسی بادشاہ بھی اسی طرح اپنی سلطنت کو وسعت دیتے تھے جس طرح انگریز بادشاہ دیتے تھے۔ لیکن ان کی یہ سب کوششیں سودمند ثابت نہ ہوسکیں۔

اس کے بعد 1947میں سوویت یونین نے دوسری بار یہاں اپنی عمل داری قائم کرنے کی کوشش کی اور اس خطے کو اپنی ملکیت قرار دے دیا۔

٭بیئر آئی لینڈ کی بدنصیبی:
دنیا بھر کے ملکوں کی بیئر آئی لینڈ پر قبضہ کرنے کی کوششیں اپنی جگہ، لیکن یہ بیئر آئی لینڈ کی بدقسمتی تھی کہ اس خطے کو کبھی بھی بھرپور استحکام نصیب نہیں ہوا، نہ یہ جزیرہ اپنی بنیادیں مضبوط کرسکا اور نہ ہی یہاں انسانی آبادیاں قائم ہوسکیں، بلکہ یہ پہلے کی طرح ویران اور بنجر علاقہ ہی بنا رہا۔ یہاں کی ترقی اور خوش حالی کے لیے نہ کوئی منصوبہ بنا اور نہ ہی کسی قسم کی ترقیاتی پالیسی کا اعلان ہوسکا اور نہ ہی کسی ملک نے ہمدردی کے ساتھ اس علاقے کو ترقی دینے کے لیے کوئی کوشش کی۔ اس کی بدنصیبی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے ابتدائی دور کے ایک قدیم وھیلنگ اسٹیشن کی باقیات آج بھی جنوب مشرق میں آباد Kvalrossbukta میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ Kvalrossbukta کا مطلب مقامی زبان میں ''خلیج والرس'' ہے۔

٭کوئلے کی کانیں:
1916سے1925تک یہاں کے ایک چھوٹے سے علاقے Tunheim سے کان کنی کے ذریعے کوئلہ بھی نکالا جاتا تھا۔ Tunheim شمال مشرقی ساحل پر واقع ایک ایسا چھوٹا سا علاقہ ہے جہاں سے محدود پیمانے پر کوئلہ نکالا جاتا تھا۔ لیکن بعد میں جب یہ دیکھا گیا کہ یہاں سے کوئلہ نکالنے پر خرچ زیادہ ہورہا ہے اور اس کے بدلے میں بہت کم مقدار میں کوئلا مل رہا ہے تو یہاں کوئلے کی کان کنی کو غیرمنافع بخش قرار دیتے ہوئے اس کام کے سلسلے کو روک دیا گیا اور اس طرح یہ منصوبہ خود ہی ختم ہوگیا۔

٭سرد آب و ہوا سب سے بڑا مسئلہ ہے:
چوں کہ یہاں کی آب و ہوا نہایت سرد ہے، اس لیے یہاں کبھی کوئی کوشش بار آور ثابت نہیں ہوسکی۔ لیکن پھر بھی اس علاقے سے محبت کرنے والے چند لوگوں نے یہاں کے سیٹلمنٹ کی باقیات کو نہایت مہارت اور عمدگی سے محفوظ کرلیا، تاکہ بعد میں بہ طور سند استعمال کرسکیں۔ ان محفوظ کردہ اشیا میں ایک نصف تباہ شدہ جیٹی یا گودی اور ایک بھاپ سے چلنے والا انجن شامل ہیں۔ یہ بلاشبہہ اس خطے کی ناقابل فراموش اشیاء ہیں جن پر یہاں کے لوگوں کو فخر کرنا چاہیے۔

٭بیئر آئی لینڈ کی قدر و قیمت اور تنازعہ:
بیئر آئی لینڈ کی اسٹریٹیجک ویلیو کو بعد میں انیسویں صدی کے اواخر میں اس وقت سمجھا اور جانا گیا جب روسی ملوکیت اور جرمن ملوکیت نے بحیرۂ بیرنٹ میں اپنے مفادات کا بہت کھل کر مظاہرہ کیا تھا۔ وہ دونوں ہی اس چکر میں تھے کہ کسی طرح اس جزیرے کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیں۔

1898اور 1899میں جرمن صحافی اور مہم جو تھیوڈر لرنر نے اس جزیرے کا دورہ کیا اور اس جزیرے پر اپنے ملک و قوم کی ملکیت اور حقوق کا دعویٰ کردیا تھا۔ پھر 1899میں جرمن فشری ایسوسی ایشن Deutsche Seefischerei-Verein (DSV) نے بحیرہ بیرنٹ میں وھیلنگ اور فشری پر تحقیقات شروع کردیں۔ لیکن وہ ان تحقیقات کی آڑ میں دوسرے خفیہ قسم کے کام کررہے تھے اور ان کی سمندری سرگرمیاں کافی مشکوک اور مشتبہ تھیں۔The DSV خفیہ طور پر جرمن بحریہ کے ساتھ رابطے میں تھی اور اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ بیئر آئی لینڈ پر قابض ہوسکتے ہیں جس سے آنے والے وقت میں انہیں بہت سے فوائد حاصل ہوسکیں گے۔

چناں چہ روس نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اپنی جانب سے کارروائی کی اور اس طرح کی پیش رفتوں کے ردعمل کے طور پر روسی بحریہ نے ایک محافظ بحری جہاز Svetlana مزید تفتیش کرنے بھیجا اور روسیوں نے 21جولائی 1899ء کو بیئر آئی لینڈ پر اپنا پرچم لہرادیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، بلکہ ایک کھلی جارحیت تھی۔ حالاں کہ جرمن صحافی لرنر نے اس اقدام پر احتجاج کیا، لیکن حیرت انگیز طور پر اس موقع پر بڑی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا گیا اور دونوں ہی ملکوں نے بڑے ڈپلومیٹک انداز سے اس تنازعے کو سلجھالیا۔ اس موقع پر نہ تو کوئی پرتشدد واقعہ پیش آیا اور نہ کوئی جارحانہ کارروائی ہوئی بلکہ یہ سارا معاملہ سیاسی طور پر سلجھا لیا گیا جس میں نہ تو اس جزیرے پر کسی نے اپنی ملکیت یا حاکمیت کا کوئی واضح دعویٰ کیا اور نہ ہی بیئر آئی لینڈ کو کسی قوم کی ملکیت قرار دیا گیا۔

٭آخر یہاں کس کی عمل داری تھی؟
اس پورے جزیرے پر 1918 سے 1932 تک ایک نجی ادارےAS Bjørnøen کا قبضہ تھا جو کوئلے کی کان کنی کا کام کرتا تھا۔ بعد میں ناروے کی ریاست نے اس کے تمام شیئرز یا حصے خود لے لیے۔ اب AS Bjørnøen ریاست کی ملکیت والی کمپنی ہے جو Kings Bay AS کے ساتھ مشترکہ طور پر چلائی جاتی ہے۔

یہاں ایک نارویجن ریڈیو اسٹیشن بھی 1919میں شمالی ساحل پر Herwighamna میں قائم کیا گیا تھا۔

بعد میں اسے توسیع دی گئی اور اس میں ایک بڑا سار میٹرولوجیکل اسٹیشن بھی قائم کردیا گیا۔

چوں کہ بحر اوقیانوس سے مرمنسک اور بحیرۂ ابیض کی ساحلی بندرگاہیں بحیرہ بیرنٹس سے گزرتی ہیں، اس لیے ان کے پانیوں کی بڑی زبردست اہمیت تھی، خاص طور سے دوسری جنگ عظیم کے زمانے کے علاوہ سرد جنگ کے زمانے میں بھی یہ آبی خطہ اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا تھا۔ حالاں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران سوالبرڈ پر جرمنی نے قبضہ نہیں کیا تھا، مگر جرمن فوجوں نے یہاں متعدد موسمیاتی اسٹیشن قائم کردیے تھے اور 1941میں یہاں ایک خود کار ریڈیو اسٹیشن بھی قائم کردیا تھا۔

جرمن فوجوں نے بحر منجمد شمالی میں چلنے والے متعدد ملٹری قافلوں پر حملے کیے تھے جو روسیوں کے لیے فوجی ساز و سامان ان پانیوں سے لے جاتے تھے، جنہوں نے بیئر آئی لینڈ کو ہر طرف سے گھیر رکھا تھا۔ انہوں خاصے نقصانات برداشت کیے لیکن کچھ نہ ہوسکا۔ یہاں کئی بے نتیجہ جنگیں لڑی گئیں، پھر نومبر 1944میں سوویت یونین نے سوالبرڈ کے اس معاہدے کی تجدید کرنے کی کوشش کی جس میں اسے ''نو مینز لینڈ'' قرار دیا گیا تھا۔ اس سے روسی بیئر آئی لینڈ پر خود قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر چوں کہ اس دوران ان کے کئی لیڈر جیل میں تھے اس لیے کچھ نہ ہوسکا۔

٭جرمن فوجیوں کا انجام:
بیئر آئی لینڈ پر جرمن فوجیوں کا ایک چھوٹا سا گروپ پھنس گیا تھا۔ انہیں وہاں ایک موسمیاتی اسٹیشن قائم کرنا تھا۔ لیکن مئی 1945میں ریڈیو رابطہ ختم ہونے سے وہ ہر طرف سے تنہا اور اکیلے ہوکر رہ گئے اور بعد میں 4ستمبر کو انہوں نے ناروے کے کچھ سیل کے شکاریوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ 2002 میں پورے جزیرے پر قبضہ کرنے کے لیے ایک قدرتی ریزرو قائم کیا گیا، اس میں 1.2 مربع کلومیٹر کا علاقہ چھوڑ دیا گیا تھا جو میٹرولوجیکل اسٹیشن کے اطراف واقع تھا۔ اس ریزرو میں چار ناٹیکل میل کے ملحقہ پانی بھی شامل تھے جو ساحل سے اتنے فاصلے پر واقع تھے۔ پھر 2008میں فیصلہ ہوا کہ یہ حد ساحل سے بارہ ناٹیکل میل تک بڑھائی جائے۔ آج اس جزیرے کے مکین صرف نو افراد ہیں جو نارویجن میٹرولوجیکل اور ریڈیو اسٹیشن پر کام کرتے ہیں۔ یہاں تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں اور اہم سائنسی امور پر ریسرچ بھی جاری ہے۔

خاص طور سے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے یہاں ہر وقت تحقیق اور ریسر ہوتی رہتی ہے۔ یہاں عام طور سے عام لوگ سفر نہیں کرتے۔ اس جزیرے کا سب سے بلند ترین پوائنٹ اسٹیپن برد کلف ہے جس کی بلندی 536میٹر ہے۔ اس بیئر آئی لینڈ پر کوئی گلیشیئر نہیں ہے، اس جزیرے پر ریتلے ساحل بھی ہیں لیکن زیادہ تر ساحل ڈھلوان ہے جس میں بلند چوٹیاں ہیں۔ یہاں پیڑ پودے اور پھل پھول بھی ہوتے ہیں اور طرح طرح کے پرندے بھی، مگر ان کی تعداد برائے نام ہے، چوں کہ اس خطے میں بہت زیادہ سردی پڑتی ہے، اس لیے یہاں جنگلی حیات اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی، البتہ سمندری جانور خاصی تعداد میں ملتے ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی کی جاتی ہے۔

مجموعی طور پر یہ جزیرہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لطف اندوز ہونے کے لیے تو کچھ بھی نہیں ہے، لیکن یہاں کے جغرافیائی عوامل اور یہاں کا محل وقوع ایسا ہے جس کی وجہ سے ان میں بہت سے ملکوں اور متعدد اقوام کی دل چسپی ہوسکتی ہے اور ان کے اپنے اپنے مفادات بھی ہوسکتے ہیں، لیکن عمومی طور پر نہ تو یہ کوئی پکنک اسپاٹ ہے اور نہ ہی ایسی جگہ ہے جہاں انسان سیرو تفریح کے لیے جانا پسند کرے، البتہ یہ ایک اچھا ریسرچ سبجیکٹ بھی ہے جہاں رہنے والے موسمیاتی ماہرین اور سائنسی محقق بہت کچھ ڈھونڈ سکتے ہیں اور اس سے بعد میں انسانیت کی فلاح و بہبود کے کام بھی کرسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں