شکار۔۔۔ آپ اپنی تباہی کا مشغلہ

جنگلی حیات کو مارنے سے غذائی زنجیر متاثر ہورہی اور ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہورہا ہے


پاکستان میں جانوروں کے شکار کی بابت معلومات، خوف ناک حقائق اور چشم کُشا اعدادوشمار ۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: تفریح طبع کے لیے جانوروں کو پکڑنا اور ان کا شکار کرنا ہزاروں برس سے انسانوں کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ زمانۂ قدیم میں جانوروں کو گوشت اور کھال کے لیے شکار کیا جاتا تھا، کیوں کہ گوشت ان کی غذائی ضروریات، ہڈیاں ان کے لیے ہتھیار اور کھال ان کے لیے لباس کے طور پر استعمال ہوتی تھیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ انسان نے درج بالا تینوں چیزوں کے متبادل تو تلاش کرلیے لیکن جانوروں کے شکار کی عادت کو ترک نہیں کیا جس کی وجہ سے زمانۂ قدیم میں پائی جانے والی بہت سی جنگلی حیات آج ہم صرف تصویروں میں ہی دیکھتے ہیں۔

دور حاضر میں جانوروں کا شکار ہماری ضرورت تو نہیں لیکن کہیں اسے کھیل کا درجہ دیا گیا ہے تو کہیں شکار کو مردانگی سے مشروط کیا جاتا ہے۔ اگر ہم نے اس روش کو ختم نہیں کیا تو ہماری آنے والی نسلیں ایسے بہت سے جانوروں کو زندہ نہیں دیکھ پائیں گی جنہیں آج ہم اپنی آنکھوں سے جیتے جاگتے دیکھتے ہیں۔ پاکستان میں قانون موجود ہونے کے باوجود جانوروں کو پکڑنے اور ان کا شکار کر نے کا رجحان عروج پر ہے۔ پاکستان میں جانوروں کو لاحق خطرات، معدومیت اور اس ضمن میں قانون سازی کے حوالے سے جاننے کے لیے اس فیچر کی تیار کے سلسلے میں جب ہم نے انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این ) سنیئرایڈوائزر کوسٹل ایکو سسٹم محمد طاہر قریشی سے استفسار کیا تو انہوں نے کہا: جنگلی حیات کو پکڑنے یا ان کا شکار کرنے سے نہ صرف قدرت کی بنائی گئی غذائی زنجیر متاثر ہورہی ہے بل کہ اس کے ماحول پر بھی بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہورہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بڑا جانور جو دوسرے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتا ہے اگر اس کا شکار زیادہ کیا جائے تو پھر اس کی خوراک بننے والے چھوٹے جانوروں کی تعداد بہت زیادہ ہوجائے گی۔

قدرت نے ہر چیز کو ایک توازن میں پیدا کیا ہے جس میں معمولی سا بھی انسانی عمل دخل اس پورے نظام کو تباہی سے دوچار کردے گا۔ اسی طرح پرندے درختوں یا جنگلوں میں پائے جانے والے حشرات الارض کو اپنی خوراک بناتے ہیں لیکن دنیا بھر میں پرندوں کی کم ہوتی نسل کی وجہ سے حشرات الارض کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ ماحول ہے کیا؟ دنیا میں انسانوں سمیت ہر جان دار چیز چاہے وہ جنگلی حیات کی شکل میں ہو یا پودوں کی شکل میں، یہ ساری چیزیں مل کر ایک ماحولیاتی نظام بناتی ہیں، ماحولیاتی توازن بناتی ہیں۔ ماحول ان ساری چیزوں کا مرکب ہے، جہاں انسان، جانور چرند پرند، پودے بستے ہیں، زندہ ہیں۔

اسی طرح ایک طرف آپ پہاڑ دیکھتے ہیں، تو دوسری طرف میدانی علاقے ہیں، ایک طرف سمندر ہیں تو دوسری طرف بنجر بیاباں ریگستان ہیں۔ لیکن یہ سب ایک ماحولیاتی توازن میں ہیں۔ یہ انسانوں اور جنگلی حیات کی شکل میں موجود زندہ اجسام کی جائے مسکن ہے۔ انسان گھروں میں، پرندے گھونسلوں میں، جانور جنگلوں میں اور آبی حیات سمندروں میں رہتی ہیں۔ یہ سب ایک توازن میں ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی تنوع (بائیو لوجیکل ڈائیورسٹی) ہے۔ اب اگر آپ اس نظام میں موجود کسی بھی ایک شے کو کم یا زیادہ کرتے ہیں تو اس سے ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہوگا۔ مثال کے طور پر سمندر میں چھوٹی مچھلی بڑی مچھلی کی خوراک ہے، بڑی مچھلی کو اس سے بڑی مچھلی شارک یا ڈولفن کھاتی ہے۔ دوسری طرف انسان بھی بہت سے جانوروں کا شکار کرتا ہے جس سے اس جانور کو کھانے والے جانوروں کی غذائی زنجیر ٹوٹ جاتی ہے جس کا اثر ماحول پر بھی مرتب ہورہا ہے۔ کیوں کہ غذائی زنجیر میں سے اگر ایک چھوٹے سے چھوٹے جان دار کو بھی نکال دیا جائے یا اس کی تعداد کم ہوجائے تو پھر اسے کھانے والوں کی تعداد کم ہوجاتی ہے جب کہ اس کی خوراک بننے والے جان داروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جس سے قدرت کا بنایا ہوا ماحولیاتی نظام متاثر ہوجاتا ہے۔

نہ صرف پاکستان بل کہ دنیا بھر میں جانوروں، پرندوں اور آبی حیات کو پکڑنے یا انہیں شکار کرنے سے ان کی بہت سی نسلیں ناپید ہوچکی ہیں۔ ماضی میں جانوروں کے ناپید ہونے میں زیادہ عمل دخل قدرتی آفات کا تھا لیکن گذشتہ دو تین صدیوں میں بنی نوع انسان نے اپنی ہی حرکتوں کی وجہ سے بہت سے جانوروں کی نسلیں ختم کردی ہیں۔ بہت سی جنگلی حیات ایسی ہے جن کی نسلیں بالکل ختم ہونے کو ہے اور اگر ہم نے انہیں پکڑنے، شکار کرنے کی روش ختم نہیں کی تو کچھ سال بعد وہ پاکستان میں ناپید ہوجائیں گی اور ہماری آنے والی نسلیں صر ف ان جانوروں کی تصاویر ہی دیکھ سکیں گے۔

مثال کے طور پر ہرن کی تعداد لاکھوں سے کم ہو کر ہزاروں میں آگئی ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے ہرن کو تحفظ فراہم نہیں کیا، ان کی افزائش نسل نہیں کی تو پھر یہ بھی ایک ناپید جانور ہوجائے گا۔ اسی طرح کچھ جانور ایسے ہیں کہ جن کی تعداد ابھی تو زیادہ ہے لیکن اگر ہم نے ابھی سے اسے پکڑنے اور شکار پر پابندی عائد نہیں کی تو پھر یہ بتدریج معدومی کا شکار ہوجائیں گے۔ آپ درختوں کو جلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، آپ پھل دینے کے عرصے میں درخت کاٹ دیتے ہیں جس سے زیرگی کا عمل رُک جاتا ہے۔

بہ ظاہر تو آپ کو یہی لگے گا کہ صرف ایک درخت ہی کاٹا ہے لیکن اس ایک درخت کی وجہ سے مزید جو درخت اگنے تھے آپ نے اس کو بھی ختم کردیا۔ درخت بڑھتے تو وہ کسی نہ کسی جانور یا پرندے کی جائے مسکن تو بنتے لیکن ہم نے تو قیمتی لکڑی اور زمین کے حصول کے لیے پورے پورے جنگل کاٹ دیے ہیں اور ابھی تک یہ کام زور و شور سے جاری ہے۔

زولوجیکل سروے آف پاکستان کی حالیہ رپورٹس کے مطابق چند دہائی قبل تک مہاجر پرندوں خصوصاً تلور کی بڑی تعداد ہجرت کر کے پاکستان آتی تھی۔ لیکن ان کی آبادی ہر گزرتے سال کم ہوتی جارہی ہے اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو ان کا بڑے پیمانے پر شکار ہے دوسرا یہ کہ آپ نے اربنائزیشن کے نام پر پورے پورے جنگل کاٹ دیے، اب جہاں وہ گھونسلے بناتے تھے، انڈے دیتے تھے وہ درخت ہی آپ نے کاٹ دیے۔ اب جب آپ نے ان کے رہنے کی جگہ ہی ختم کردی ہے تو پھر اپنی افزائش نسل کیسے کریں گے۔ دنیا بھر میں جنگلی حیات کو سب سے زیادہ نقصان زرعی اور صنعتی انقلاب نے بھی پہنچایا۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے اٹھارھویں صدی میں زرعی انقلاب آیا اور آپ نے جنگل کے جنگل کاٹ کر وہاں زراعت شروع کردی۔ انیسویں صدی میں آنے والے صنعتی انقلاب نے اربنائزیشن کو فروغ دیا۔

لوگوں نے دیہات سے نکل کر شہروں کا رخ کرنا شروع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چھوٹے دیہات قصبے، قصبے شہر اور شہر میگا سٹی بن گئے، اب جگہ تو آپ کے پاس محدود ہی تھی تو رہائش کے لیے آپ نے درختوں کو کاٹ دیا، ریت ڈال کر سمندر کو پیچھے دھکیل دیا، دریائوں کا بہائو روک کر زرعی ضروریات کے لیے نہریں بنادیں، اس انسانی سرگرمی کے نتیجے میں وائلڈ لائف جسے تیکنیکی زبان میں فلورا اینڈ فانا کہتے ہیں کہ رہنے کی جگہ کو ختم کردیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہجرت کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد میں تیزی سے کمی ہورہی ہے، کیوں کہ آپ نے نہ صرف ان کے مسکن بل کہ غذائی زنجیر کو بھی توڑ دیا ہے کیوں کہ جنگلات، دریائوں سمندروں میں رہنے والے حشرات اور دیگر جانور ان کی غذائی ضروریات پوری کرتے تھے۔

جہاں تک بات ہے پاکستان کی تو یہاں جانوروں کے تحفظ کے لیے دو طریقوں سے کام کیا جانا چاہیے۔ ایک اداروں کی سطح پر جن میں حکومتی ادارے ، این جی اوز وغیرہ شامل ہیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اکیڈیمیا یعنی کالج اور جامعات کی سطح پر تحقیقی کام کیا جائے کہ جی یہ جو کیڑا آج سے پچاس سال پہلے پایا جاتا تھا اس کے ناپید ہونے کی کیا وجوہات ہیں، یا اس معدوم ہوتے جانور کی نسل کو کس طرح بچایا جائے۔ جنگلی حیات کا تحفظ صرف محکمۂ جنگلی حیات کی ذمے داری نہیں ہے یہ ہم سب کی انفرادی ذمے داری ہے۔ اور اس سلسلے میں شعور اجا گر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جانوروں کی بقا میں ہم انسانوں کی بقا ہے۔ ہر ادارہ اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرے، یعنی سمندری حیات کے تحفظ کے لیے فشری ڈیپارٹمنٹ ماہی گیروں کو یا مچھلی کا شکار کرنے والوں کو اس بات کا پابند کرے کہ جی آپ ایسا جال استعمال نہ کریں جس سے مچھلی، جھینگوں، کیکڑوں اور دیگر آبی حیات کی نسل کُشی ہو، اس سیزن میں ان کا شکار نہ کریں جو ان کی افزائش نسل کا سیزن ہو۔ محکمۂ ماہی گیری کے ساتھ ساتھ مچھیروں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ زیادہ کمائی کے چکر میں حد سے زیادہ شکار نہ کریں۔

اسی طرح محکمۂ جنگلات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کہ وہ جنگلوں کی کٹائی روکے اور اگر بہت ضروری ہے تو اس کے لیے صحیح وقت کا انتخاب کرے۔ جنگلات تو سارے جانوروں کا مسکن ہوتے ہیں اور ہم جنگلات کو بے دریغ کاٹ کر انہیں ان کی ہیبی ٹیٹ یعنی جائے مسکن سے بے دخل کر رہے ہیں، جانوروں کی زندگی کا دارومدار ہی جنگلات پر ہوتا ہے، وہ وہیں افزائش نسل کرتے ہیں وہیں سے اپنی غذائی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ آئی یو سی این جانوروں کو معدومی سے بچانے کے لیے ہم ہر ممکن سطح پر شعور اجاگر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہم نیشنل پارکس میں ہونے والے غیرقانونی شکار کے خلاف بھی وائلڈلائف اور دیگر این جی اوز کے ساتھ مل کر آواز اٹھاتے ہیں۔ ہمارے یہاں جانوروں کو پکڑنے اور ان کے شکار کے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر اس طرح عمل درآمد نہیں ہورہا جس طرح ہونا چاہیے۔ انگلینڈ میں بھی غیرقانونی شکار ہوتا ہے، غیرقانونی تجارت ہوتی ہے لیکن اس کے سدباب کے لیے ان کے قوانین پر عمل درآمد بھی بہت سختی سے کیا جاتا ہے۔

ان سب کے علاوہ آلودگی نے بھی جنگلی اور آبی حیات کو شدید نُقصان پہنچایا ہے۔ سمندر میں جہازوں سے رسنے والا تیل آبی آلودگی پیدا کرتا ہے، آئل ریفائنریز اور ٹینریز نے آپ کے ساحل آلودہ کردیے۔ زراعت میں استعمال ہونے والا پانی جس میں یوریا ، فاسفورس جیسے کیمیائی مادے موجود ہوتے ہیں آپ سمندر میں پھینک رہے ہیں، آپ کا صنعتی اور گھریلو فضلہ کسی ٹریٹمنٹ کے بنا سمندر میں پھینکا جا رہا ہے۔ انڈسٹریلائزیشن نے آبی اور زمینی حیات کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ میں آپ کو بتائوں کہ دنیا بھر میں پائی جانے والی آلودگی کی تمام اقسام پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔

گورا یہ کہتا ہے کہ آلودگی کو ختم کرنے کے آپ کو اس کے سورس کو ختم کرنا ہوگا۔ یعنی اگر ایک فیکٹری کا فضلہ ہے تو اسے وہیں ٹریٹ کرکے تلف کیا جائے، یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ آبی گزر گاہوں پر رکاوٹیں لگا کر اسے ٹریٹ کرنے کی کوشش کریں۔ میں آپ کو ایک بات یہ بھی بتادوں کہ اس آلودگی سے سب سے زیادہ نقصان انسانوں کو ہی ہے، کیوں کہ سمندر میں رہنے والی آبی حیات اسی فضلے کو کھاتی ہے اور ماہی گیر اسی مچھلی کو پکڑ کر فروخت کردیتے ہیں، آلودہ پانی میں رہنے والی پچھلی کے جسم میں بھی بہت سے زہریلے مادے سرایت کرچکے ہوتے ہیں جو گوشت کے ذریعے انسانی جسم میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ جو جلد، آنکھ، دل گردوں اور دیگر اعضا کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

ساری دنیا میں پہلے سائنٹیفک مینیجمنٹ ہوتی تھی، اس سے آپ سسٹین ایبل مینجمنٹ پر آئے لیکن اب دنیا انٹیگریٹڈ مینجمنٹ پر آگئی ہے یعنی اب معاشرے میں بہتری کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، اگر آپ کو تعلیمی نظام میں بہتری لانی ہے تو اس میں اساتذہ، طلبا، محقق اور والدین سب مل کر ایک مقصد کے لیے کام کریں گے۔

اسی طرح اگر آپ جانوروں کو معدومی سے بچانا چاہتے ہیں تو یہ کام صرف محکمۂ جنگلی حیات یا اس سے متعلق این جی اوز نہیں کر سکتی اس کے لیے جنگلات، ماحولیات، فشریز کے محکموں کے ساتھ ساتھ صنعت کاروں سمیت ایک عام آدمی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ صنعتیں اپنا فضلہ ٹریٹمنٹ کے بعد سمندر میں پھینکیں، محکمۂ جنگلات اور ماہی گیر اپنا کردار ادا کریں، اسی طرح انفرادی طور پر بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت معدوم ہوتی نسل کے جانوروں کی تجارت اور شکار پر مکمل پابندی عائد ہے لیکن دوسرے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی یہ کام جاری ہے اور اس کے سدباب کے لیے سخت اقدامات کرنے چاہییں۔ یہاں تو لوگ اپنی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے شیر، چیتے اور مار خور کو مار کر اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا رہے ہیں۔ اس رجحان کی بلاامتیاز حوصلہ شکنی کرنا بہت ضروری ہے ورنہ پاکستان میں پانے جانے والے بہت سے جانور ناپید ہوجائیں گے۔

پاکستان میں معدومی کے خطرے سے دوچار جنگی حیات
آبادی کے پھیلائو، بڑھتی ہوئی آلودگی، اعضا کی فروخت کے لیے غیر قانونی شکار، مالی مفادات کے لیے تجارت اور قوانین کا موثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بہت سی آبی و جنگلی حیات معدومی کا شکار ہورہی ہیں، جن میں پہاڑی نیولا، سنگِ ماہی، یورپی اود بلائو، برانڈڈ ایگل رے، بگ آئی ٹیونا مچھلی، مارکوپولو بھیڑ، سائبیرین سارس (لق لق)، لمبی گردن والا گدھ، فشنگ کیٹ (جنوب مشرقی ایشیائی دلدلی زمینوں میں گھر بناکر رہنے والی چتکبری بلی)، Marbled Polecat (یورپ کا ایک قسم کا نیولا جو اپنے جسم سے خارج ہونے والی بُو کی وجہ سے جانا جاتا ہے)، Sociable Lapwings(بری جنس کا سیاہ بازئووں والا سفید پرندہ)، وہیل مچھی کی مختلف نسلیں (اسپرم وہیل، ہمپ بیک وہیل، کلر وہیل، بوٹل نوز وہیل)، اسپینر ڈولفن ، منگرا مچھلی، بلیو شارک، ٹائیگر شارک، بُل شارک، وہیل شارک، ٹیونا مچھلی، مہاجر پرندے (سارس، بطخ، قاز تلور وغیرہ)، اود بلائو، نیلی بھیڑ، ہمالین آئی بیکس (پہاڑی بکرا)، بن بلائو، بلوچستان کا سیاہ ریچھ، ہاگ ہرن، پینگولین (جنوبی افریقا کا بغیر دانتوں والا ممالیہ جانور جس کا جسم سخت چھلکوں سے ڈھکا ہوتا ہے)، پنجابی اریل، گرے طوطا شامل ہیں۔

ان میں سے کچھ جانوروں کی نسلیں ناپید ہونے کے قریب ہیں۔

مارخور
پاکستان کا قومی جانور مارخور بھی معدومی سے دوچار ہوگیا ہے۔ جنگلی بکروں کی اس نایاب نسل کو بقا کا شدید خطرہ لاحق ہے۔ جانوروں کی بقا کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل یونین فار دی کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی ریڈ لسٹ کے مطابق مار خور کی آبادی معدوم ہونے کے قریب ہے ۔ تاہم گذشتہ ایک دہائی میں ان کی تعداد میں حیرت انگیز طور پر بیس فی صد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ پاکستان کے شمالی اور وسطی علاقوں ، شمال مشرقی افغانستان، مقبوضہ کشمیر ، جنوبی تاجکستان ، ازبکستان اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں 600سے تین ہزار 600میٹر کی بلندی پر پایا جاتا ہے۔ مارخور برفانی چیتے، بھورے بھالو، بن بلائو، لومڑیوں اور گولڈن ایگل کی مرغوب غذا ہے، لیکن جانوروں سے زیادہ اسے انسانوں سے خطرہ ہے۔

انڈس ریور ڈولفن
دریائے سندھ میں پائی جانے والی نایاب نسل کی انڈس ریور ڈولفن کو نابینا ڈولفن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ آئی یوسی این کی خطرے سے دوچار آبی حیات کی فہرست کے مطابق تازہ پانی میں رہنے والی ڈولفن کی یہ نایاب نسل اب پاکستان میں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔ ماضی میں صرف دریائے سندھ کے آبی نظام میں پائی جانے والی اس ڈولفن کی آبادی دریائے سندھ کے34 سو کلومیٹر رقبے پر محیط تھی۔ اٹھارھویں صدی کے آغاز میں دریافت ہونے والی نابینا ڈولفن کی آبادی اسی فی صد تک کم ہوچکی ہے اور اب یہ دریائے سندھ کے محض 690کلومیٹر رقبے پر آباد ہے۔

آب پاشی کی وجہ سے دریائے سندھ میں کم ہوتی پانی کی سطح اور ممنوعہ جال کا استعمال نابینا ڈولفن کی کم ہوتی آبادی کا اہم سبب ہے۔ دوسری جانب اس مچھلی کو زرپرست انسانوں سے بھی شدید خطرات لاحق ہیں جو گوشت اور تیل کے حصول کے لیے اس معصوم آبی مخلوق کا بے دریغ شکار کر رہے ہیں۔ دریائوں کے ساتھ بننے والے بڑے ڈیموں کی تعمیر ، زرعی کیمیکلز اور صنعتی فضلے سے بھی اس کی نسل کو خطرات ہیں۔ انڈس ریور ڈولفن کا شمار خطرے سے دوچار دوسری سی ٹیسیا (سمندری مچھلیوں کی وہ قسم جس میں وہیل، ڈولفن اور سوس شامل ہیں) میں کیا جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ان کی تعداد تقریباً بارہ ہزار رہ گئی ہے۔

برفانی چیتا
پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں رہنے والا یہ خوب صورت جانور بھی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ آئی یو سی این کے مطابق انسانی آبادی کے پھیلائو اور شکار کی وجہ سے دنیا بھر میں برفانی چیتے کی آبادی چار سے چھے ہزار کے درمیان رہ گئی ہے۔ پاکستان میں اسی ہزار اسکوائر کلومیٹر رقبے پر دو سو سے 420 برفانی چیتے آباد ہیں۔ خوش قسمتی سے برفانی چیتے کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر اقدامات کیے جارہے ہیں۔ 2013 میں بارہ ممالک پاکستان، افغانستان، بھوٹان ، چین، بھارت، قازقستان، کرغزستان، منگولیا، روس، تاجکستان اور ازبکستان کی حکومتوں نے مل کر گلوبل سنو لیوپرڈ فورم تشکیل دیا۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی کھال کو ڈرائنگ روم کی زینت بنانے اور اعضا کی فروخت سے ملنے والی کثیر رقم کے لالچ میں پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اس کا غیرقانونی شکار جاری ہے۔

سبز سمندری کچھوا
سمندر میں پائے جانے والے اس کچھوے کا تعلق نایاب Specieجینس چیلونیا سے ہے۔ آئی یو سی این کی ریڈلسٹ میں معدومی کے خطرے سے دوچار جانوروں میں شمار ہونے کے باوجود پاکستان میں اس کا شکار بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ اس بے ضرر آبی مخلوق کو اس کے خوب صورت مضبوط خول اور جلد کی وجہ سے مار کر بلیک مارکیٹ میں منہگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سمندر میں یہ صرف بڑی شارک خصوصاً ٹائیگر شارک کی مرغوب غذا ہے اس کے علاوہ کوئی سمندری مخلوق اسے شکار نہیں کرتی۔ کچھوے کا گوشت زمانۂ قدیم سے ہی چینیوں کی مرغوب ترین غذا رہا ہے، جب کہ اس کی مضبوط کھال کو خواتین کے پرس اور جوتے بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ریچھ
دنیا بھر میں ریچھ کی مختلف نسلیں جن میں ایشیائی کالا ریچھ، بھورا ریچھ، قطبی ریچھ شامل ہیں بتدریج معدومی کے خطرے سے دوچار ہو رہی ہیں۔ ایشیائی کالا ریچھ جسے تبتی کالا ریچھ، ہمالیائی کالا ریچھ اور چاند ریچھ بھی کہا جاتا ہے، درمیانی قامت، تیز پنجوں اور کالے رنگ کا حامل ریچھ ہے، جس کی پہچان اس کے سینے پر سفید رنگ سے انگریزی حروف تہجیv جیسا نشان بنا ہوتا ہے۔ ایشیائی کالا ریچھ عموماً پاکستان ، بنگلادیش، انڈیا، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، افغانستان، نیپال، برما، چین، بھوٹان، روس، جاپان اور تائیوان کے جنگلات اور پہاڑی مقامات میں 4 ہزار 700 میٹر کی بلندی تک پایا جاتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی، کھال اور جسمانی اعضا کی فروخت کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک میں بڑی تعداد میں ہونے والے شکار سے ریچھ کی اس نسل کو خطرے کا سامنا ہے۔ کالے ریچھ کے ساتھ ساتھ بحر منجمد شمالی اور اس کے اطراف میں پائی جانے والے قطبی ریچھ کی نسل بھی دنیا بھر میں معدومیت کی جانب بڑھ رہی ہے۔ سارا سال برف پوش علاقوں میں رہنے کی وجہ سے انہیں برفانی اور سفید ریچھ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کا گوشت برفانی علاقوں میں رہنے والے انسانوں کی مرغوب ترین غذا سمجھا جاتا ہے۔ گوشت کے علاوہ کھال، چربی اور دیگر اعضا کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت زیادہ طلب ہونے کی وجہ سے بھی اس کا شکار بڑے پیمانے پر کیا جارہا ہے۔ آئی یو سی این کے اعداد و شمار کی ریڈ لسٹ کے مطابق قطبی ریچھ کو vurnalable جانوروں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔ وسط ایشیا، روس، چین، شمالی امریکا اور پاکستان کے کچھ شمالی علاقوں میں پائے جانے والے بھورے ریچھ کی نسل بھی بتدریج کم ہوتی جارہی ہے اور کچھ علاقوں میں اسے معدوم ہونے کے خطرات بھی لاحق ہیں۔ اگرچہ آئی یو سی این نے اسے ابھی کم خطرے والے جانوروں کی فہرست میں رکھا ہے، لیکن اگر اس کے غیرقانونی شکار اور اس کی جائے مسکن کو تباہ کرنے کی روش ترک نہیں کی گئی تو چند سالوں میں یہ بھی معدوم جانوروں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔

دنیا بھر میں معدوم ہوتی جنگلی اور آبی حیات
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن کی ریڈ لسٹ میں شامل جانوروں کی تین درجوں Extinct، Threatened، Lower Risk میں تقسیم کی گئی ہے۔ پہلے درجے کو مزید دو ذیلی درجات Extinct (EX)، Extinct in the Wild (EW)، دوسرے درجے کو مزید تین ذیلی درجات Critically Endangered (CR)، Endangered (EN)، Vulnerable (VU) اور تیسرے درجے کو مزید تین ذیلی درجات Near Threatened (NT)،Conservation Dependent (CD)،Least Concern (LC) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آئی یو سی این کی ریڈ لسٹ کے مطابق دنیا بھر میں پائے جانے والے جانوروں کی 746 نوع ناپید، 39 اقسام کے جانوروں کی نسلیں جنگلات میں معدوم، جانوروں کی 4574 اقسام کی بقا کو شدید خطرات ، 2754جانوروں کی اقسام کو درمیانے خطرے کا سامنا اور4618 اقسام غیر محفوظ ہیں۔ جب کہ جانوروں کی 2657اقسام نیئر تھریٹینڈ کے درجے میں شامل ہیں۔

پاکستان میں جانوروں کے شکار کے لیے قوانین
پاکستان میں تقسیم کے تین سال بعد تک جانوروں کے شکار اور انہیں پکڑنے کے لیے کوئی قانون وضح نہیں کیا گیا۔ 1950میں صوبہ سرحد نے جنگلی جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کے قانون پاس کیا اور اس کی پاسداری کو یقینی بنانے کی ہدایات کیں۔ 1951میں خود مختار ریاست بہاولپور نے بہاولپور اسٹیٹ فشریز ایکٹ 1951کے نام سے قانون بنایا۔ سندھ حکومت نے1953میں وائلڈ برڈز اینڈ وائلڈ اینیملز پروٹیکشین ایکٹ 1940 کو ترمیم شدہ ایکٹ 1953 کے تحت نئے قوانین کے ساتھ نافذ کیا۔ اسی سال بلوچستان حکومت نے بھی بلوچستان وائلڈ برڈز اینڈ وائلڈ اینیملز پروٹیکشن رولز 1953جاری کیا۔ حکومت پنجاب نے پنجاب وائلڈ برڈز اینڈ وائلڈ اینملز ایکٹ1954متعارف کرایا، تاہم اسے 1955میں نافذ کیا گیا۔

سب سے آخر میں مغربی پاکستان نے دی ویسٹ پاکستان وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈینینس1959 جاری کیا۔ تاہم صوبوں کی جانب سے بنائے گئے قوانین میں موجود کچھ خامیوں کی وجہ سے 1972میں صوبہ سندھ میں قانون سازی کے بعد سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن آرڈینینس اور پنجاب میں وائلڈ لائف ( پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزویشن اینڈ مینجمنٹ ) ایکٹ1975جاری کیا گیا، جب کہ اس قانون کے تحت شمالی علاقہ جات اور وفاقی دارلحکومت کے لیے مختلف قوانین بنائے گئے اور انہیں نادرن ایریا وائلڈ لائف پریزرویشن ایکٹ، 1975، اسلام آبادوائلڈ لائف ( پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ ) ایکٹ1975 کے نام سے نافذ کیا گیا۔ انہی رولز کے تحت آزاد جموں کشمیر کے لیے قانون بنایا گیا۔ اسی طرح بلوچستان وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ ،1974 اور سرحد (موجودہ کے پی کے) ( پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ ) ایکٹ، 1995تشکیل دیا گیا۔ تاہم اس تمام تر قانون سازی کے باوجود پاکستان میں جنگلی حیات کا پکڑنے اور ان کا شکار بڑے پیمانے پر جاری ہے۔

جانوروں کے شکار اور انہیں پکڑنے سے ہونے والے معاشی فائدے
دنیا بھر میں شیر، گینڈے، ہاتھی اور دیگر جانوروں کے اعضا کی تجارت ایک منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔ بین الاقوامی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات کے اعدادوشمار کے مطابق ہاتھی دانت، گینڈے کے سینگ اور کھال، شیر کے جسمانی اعضا کی فروخت کے لیے دنیا بھر میں ان جانوروں کا غیر قانونی شکار اپنے عروج پر ہے۔ چند سال قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک کارروائی کے دوران 23 میٹرک ٹن (23ہزار کلو گرام ) ہاتھی دانت کو اپنے قبضے میں لیا جو کہ تقریباً ڈھائی ہزار ہاتھیوں کو ہلاک کرکے حاصل کیے گئے تھے۔ اسی طرح غیرقانونی شکار نے جنگلی شیروں کی نسل کو کم کردیا ہے اور اب دنیا بھر میں اس نسل کے محض 3890 شیر ہی باقی بچے ہیں۔ جانوروں کے اعضا کی تجارت دنیا بھر میں اسی طرح اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے جس طرح، غیرقانونی ہتھیار اور منشیات کی صنعت۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سمندری حیات، پرندوں اور جانوروں کی چار سو سے زائد اقسام کی غیرقانونی تجارت سے دس سے بیس ارب ڈالر سالانہ منافع کمایا جاتا ہے۔ براعظم ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا اس دھندے میں سب سے آگے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ( ڈبلیو ڈبلیو ایف) اور آئی یو سی این کے جانوروں کی تجارت کی نگرانی کرنے والے مشترکہ نیٹ ورک 'ٹریفک' کے اعدادوشمار کے مطابق ہاتھی دانت کی طرح گینڈے کے سینگ کی غیرقانونی تجارت بھی بے رحم انسانوں کے لیے ایک نہایت منافع بخش کام بن چکی ہے اور صرف سینگ کی خاطر صرف جنوبی افریقا میں ہی ایک سال کے عرصے میں ساڑھے چار سو گینڈوں کو ہلاک کردیا گیا۔ ہاتھی اور گینڈے کی طرح کھال اور ہڈیوں کے لیے شیروں کا شکار بھی اپنے عروج پر ہے۔ منشیات اور ہتھیاروں کی غیرقانونی تجارت کرنے والے نیٹ ورکس کی طرز پر چلنے والا یہ غیرقانونی کام اب کھربوں ڈالر کی صنعت بن چکی ہے۔ ان کا دائرہ کار صرف ہاتھی، شیر، گینڈے تک ہی محدود نہیں، یہ جرائم پیشہ گروہ سمندری کچھوئوں سے قیمتی درختوں تک کو اپنی دولت میں اضافے کے لیے بے دردی سے ختم کر رہے ہیں۔

یہی جرائم پیشہ عناصر جہاں ایک طرف افریقا میں شیر اور گینڈے کو بے رحمانہ طریقے سے ہلاک کر رہے ہیں تو دوسری جانب ان کی توجہ کا مرکز میانمار میں پائے جانے والے ایشیائی ہاتھی ہیں۔ گذشتہ ماہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے شایع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق میانمار میں کھال، دانت اور دیگر جسمانی اعضا کے لیے ایشیائی ہاتھیوں کو ہلاک کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے اور پچھلے چھے ماہ میں اس کی شرح دُگنی بڑھ چکی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں جنگلی ایشیائی ہاتھی کی آبادی دو ہزار سے بھی کم ہے وہاں اس بڑھتے ہوئے رجحان نے ہاتھیوں کی اس نسل کے ختم ہونے کے خطرات میں اضافہ کردیا ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف ایشیا کی سنیئر پروگرام آفیسر نیلنگا جیا سنگھ کے مطابق دنیا بھر میں اس نسل کے 50 ہزار سے بھی کم ہاتھی بچے ہیں اور میانمار میں ان کی تعداد دو ہزار سے بھی کم ہے۔ کچھ دہائیوں سے جنگلات کی کٹائی، انسانی تصادم، اور شکار کی وجہ سے سے اس خطے میں ایشیائی ہاتھیوں کی نسل کو پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ یاد رہے کہ ایشیائی ہاتھیوں میں صرف نر ہاتھی کے ہی دانت ہوتے ہیں اور میانمار میں صرف ایک فی صد ہاتھیوں کے ہی دانت ہیں تاہم ہاتھی دانت کے علاوہ دوسرے اعضاء کے لیے ان کا قتل عام خطرے کی گھنٹی ہے۔ جس پر فوراً ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں