عید کا پیغام

حدیث نبویؐ ہے کہ مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے تو آئیے اس صدقے کو اپنا طرز حیات بنائیں


Amjad Islam Amjad June 26, 2017
[email protected]

عید کا لفظی مطلب تو ''خوشی'' ہی بنتا ہے مگر دیکھا جائے تو اجتماعی حوالے سے اس ''خوشی'' کا مفہوم ایک ایسی سانجھی کیفیت ہے جس میں سب ایک دوسرے کو خوشی دیں اور پھر مل کر خوش ہوں لیکن یہ عمل اس وقت اس وقت تک مکمل اور نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا جب تک معاشرے میں غیر مشروط انصاف کو بنیاد نہ بنایا جائے۔ ہر انسان کے بنیادی حقوق کو محفوظ کیے بغیر کوئی معاشرہ ''محفوظ'' کہلانے کا حقدار نہیں ہوسکتا۔

عیدالفطر مذہبی حوالے سے تو مسلمانوں کو رمضان میں کی کئی خصوصی عبادات کے انعام کے طور پر عطا کی گئی ہے لیکن یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کا اصل حسن اس کی اجتماعیت میں ہے۔ یہ ایک ایسی بے مثال اور منفرد اجتماعیت ہے جو ایک گھر سے شروع ہوکر محلے، علاقے، گاؤں، قصبے، شہر، ملک، عالم اسلام اور پھر تمام اہل زمین کے گرد حصار سا بناتی چلی جاتی ہے۔ علم کی طرح خوشی بھی جس قدر تقسیم کرو اسی قدر اس کی مجموعی مقدار میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت وطن عزیز مختلف النوع مسائل کا شمار ہے بقول دلاور فگار ''حالات حاضرہ کو کئی سال ہوگئے''

میاں نواز شریف اور عمران خان سمیت دیگر سیاسی آویزشیں اپنی جگہ لیکن ان کے جملہ شور شرابے سے قطع نظر امر واقعہ یہی ہے کہ سب کو ہر حال میں پاکستان کی ترقی اور بہتری کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور اس ضمن میں یہ دیکھے بغیر ہر اچھی سوچ اور کام کی تحسین کرنا چاہیے کہ اس کا کرنے والا کون ہے۔

بدقسمتی سے آج تک ہمارے سیاستدان، ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کو نہ تو ٹھیک طرح سے سمجھ پائے ہیں اور نہ ہی عملی طور پر انہوں نے اس سیاسی تربیت کا مظاہرہ کیا ہے جس کی وجہ سے خونخوار قسم کی انتخابی فضا کے باوجود نتائج کا اعلان ہوتے ہی ہارنے والا نہ صرف اپنی شکست تسلیم کرتا ہے بلکہ اپنے مخالف جیتنے والے کو مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ ہر اس کام میں مکمل تعاون کا یقین بھی دلاتا ہے جس کا تعلق ریاست کی ترقی اور بہبود سے ہو۔ جب کہ ہمارے یہاں ریاست کی بہتری کے بے شمار کاموں پر صرف اس لیے پیشرفت روک دی جاتی ہے کہ ان کا آغاز گزشتہ حکومت نے کیا تھا اور یوں کہیں اس کا کریڈٹ ان کے کھاتے میں نہ چلا جائے۔

یہاں میرا اشارہ صرف موجودہ حکومت کی طرف نہیں۔ ستر کی دہائی سے اب تک کم و بیش ہر حکومت کا یہی وتیرہ رہا ہے۔ مزید بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہارنے یا حکومت نہ بناسکنے والی سیاسی جماعتوں کا عمومی رویہ بھی کچھ اس قسم کا ہے۔ مانا کہ حکمران جماعت اپنے دور کے تعمیری اور اچھے کاموں کو آیندہ انتخابات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے لیکن کیا اس وجہ سے ان کو ان تمام کاموں سے روک دینا جائز ہے جن کا عملی فائدہ بالآخر ملک کے عوام کو ہی پہنچتا ہے۔

موٹروے، اورنج لائن، میٹرو یا دیہی آبادی کی بہتری کے منصوبے اپنے آخری تجزیے میں عوام ہی کے کام آتے ہیں۔ اسی طرح جنرل مشرف، پیپلزپارٹی یا چوہدری پرویز الٰہی کی صوبائی حکومت کے دوران اگر کوئی اچھا کام ہوا ہے تو اب وہ ان کے بجائے ملک و قوم ہی کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ سو ہم سب کو اس طرح کی ہٹ دھرمی سے گریز کرنا چاہیے جس کا نتیجہ یا تو تمسخر کی صورت میں نکلتا ہے یا آنسوؤں کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔

سیاسی بدنظمی معاشی بے انصافی تعلیم و تربیت کی کمی اور مذہبی تفرقہ پرستی اور شدت پسندی نے پہلے ہی ہمارے دلوں اور خوابوں میں موجود خوشیوں کو برباد کرکے رکھ دیا تھا، اس پر بے اصولی پر مبنی ذاتی مفادات کی اندھی دوڑ میں مبتلا اس معاشرے کو جدید ٹیکنالوجی کا منفی استعمال لے ڈوبا ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق اٹھارہ کروڑ کی آبادی کے اس وطن عزیز میں دس کروڑ موبائل فون زیر استعمال ہیں جو غالباً شرح فیصد کے اعتبار سے تمام پسماندہ اور ترقی پذیر معاشروں میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس پر مستزاد سوشل میڈیا کا بے محابا اور غیرذمے دارانہ استعمال ہے جس نے سچ اور جھوٹ کے فرق کو بے معنی کردیا ہے۔ چند فی صد منچلے ہنسی مذاق اور شغل کے نام پر مسلسل ایسی خود ساختہ اطلاعات مصدقہ خبروں کے انداز میں پھیلاتے رہتے ہیں جن سے معاشرے کے بگاڑ اور منفی رویوں کو تباہ کن حد تک فروغ ملتا ہے۔

یہی لوگ غیرملکی اور ملک دشمن ایجنسیوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کو بغیر سوچے سمجھے ہوا دیتے رہیں اور یوں نادانستگی ہی میں سہی ملک اور عوام دشمن کارروائیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بوجوہ کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہے لیکن ان کا دائرہ عام طور پر حکومتوں کے باہمی معاملات تک محدود رہتا تھا۔

اب دونوں طرف سے اس میڈیا پر نفرت اور تضحیک کا ایسا بازار گرم کردیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے امن پسند اور غیر متعصب عوام بھی (جو میرے خیال میں 90% سے بھی کچھ زیادہ ہیں) ان قصداً یا غیر ذمے دارانہ انداز میں پھیلائی گئی جعلی خبروں سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اصل بات سامنے آنے سے پہلے ہی فوری ردعمل کا اظہار طرح طرح کی قباحتوں کو جنم دے رہا ہے اور یوں معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے جارہے ہیں اور وہ گنتی کی خوشیاں بھی ہاتھوں سے نکلی جارہی ہیں جن سے ہماری عید اور ان کی دیوالی روشن اور خوشبودار ہو جایا کرتی تھیں۔

دونوں ملکوں کی حکومتوں، میڈیا اور عوام تینوں کو مل کر اس رویے کے خلاف عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ابھی آج صبح ہی فیس بک پر کسی انڈین ٹی وی چینل کی ایک خبر دیکھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ممبئی کی فلاح مسجد میں چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی جیت کی خوشی میں لوگ خوشی اور نعرہ بازی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ بعد میں تحقیق پر معلوم ہوا کہ یہ خبر سراسر جھوٹی تھی اور یہ منظر اصل میں پاکستان میں کسی جگہ کا تھا۔

اب ظاہر ہے کہ پاکستان کی اس جیت کا کوئی بھی منظر کسی عام، جذباتی اور محب وطن بھارتی کے لیے اتنا ہی ناپسندیدہ اور تکلیف دہ ہوگا جتنا کسی پاکستانی فین کے لیے اپنی ٹیم کی ہار پر بھارتی عوام کی سرخوشی کا منظر ہوسکتا ہے۔ اور یہ لمحاتی ردعمل ایک اعتبار سے بھی آتا ہے لیکن اگر بھارت کی فتح پر خوشی منانے والوں کو بھارتی شہری اور بالخصوص مسلمان تماشائی بتایا اور دکھایا جائے تو اس سے سوائے مزید نفرت اور فساد کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔

یہاں مجھے چند دن قبل عید کے حوالے سے ریکارڈ کیا جانے والا برادرم جاوید چوہدری کا ایک پروگرام یاد آرہا ہے جس کا موضوع بھی خوشی، اس کی نوعیت اور معاشرے میں اس کی مسلسل کمی کے اسباب کی تلاش تھی۔ اس گفتگو میں میرے علاوہ ڈاکٹر صداقت علی اور وصی شاہ بھی شامل تھے اور اس کا ماحصل بھی یہی تھا کہ ہم لوگوں نے روزمرہ زندگی کی چھوٹی خوشیوں کو آپس میں شیئر کرنا اور ان سے اجتماعی اور انفرادی دونوں طرح سے محظوظ ہونا چھوڑ دیا ہے۔

پہلے ہم ماں کے ہاتھ کی پکی ہوئی روٹی ایک میز پر بیٹھ کر بانٹ کر کھایا کرتے تھے۔ اب ہر کسی کا دھیان اپنے اپنے موبائل میں ہوتا ہے۔ ہم ہزاروں میل دور بیٹھے اجنبی لوگوں سے تو رابطے میں ہوتے ہیں مگر ہمیں اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے اپنوں کی موجودگی کا احساس تک نہیں ہوتا۔

سو آئیے عید کے پیغام کی اصل روح کو سمجھیں اور جانیں کہ عید اصل میں ایک دوسرے کی خوشیوں میں خوش ہونے اور ان خوشیوں کو بانٹنے کا نام ہے۔ زندگی کے اصل اور حقیقی مسائل اس کا لازمی حصہ ہیں۔ انھیں خود ساختہ اندیشوں اور غلط فہمیوں سے بڑھانے کے بجائے خوشدلی اور باہمی محبت سے کم کرنے کی کوشش کرنا ہی بہترین راستہ ہے، علامہ اقبال نے کہا تھا ؎

فطرت افراد سے اغماض تو کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

حدیث نبویؐ ہے کہ مسکراہٹ بھی ایک صدقہ ہے تو آئیے اس صدقے کو اپنا طرز حیات بنائیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں خوش ہونا اور دوسروں کی ان غلطیوں کو معاف کرنا سیکھیں جو ہم اپنے لیے قابل معافی سمجھتے ہیں۔ درست ہے کہ اگر گزشتہ کل نہیں رہا تو یہ ''آج'' بھی نہیں رہے گا مگر یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ آنے والے کل میں ہمارا گزشتہ کل اور آج دونوں ہی شامل ہوں گے۔ ایک خوشی دوسری خوشی کو راستہ دیتی ہے تو کیوں نہ اس عید کے دن سے ہی اس نیک اور خوبصورت کام کا آغاز کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔