مقابلہ حسن کرکٹ بھارت اور پاکستان

سن 2000ء تک یہ مارکیٹ بڑی مستحکم ہوگئی اور ساتھ ہی بھارتی میڈیا کے مستقل پھیلاؤ نے اس کا کام آسان بنادیا۔


سید معظم حئی June 23, 2017
[email protected]

1991ء میں کانگریس آئی کے نرسمہا راؤ نے بھارت کے نویں وزیراعظم کے طور پہ حلف اٹھایا۔ یہ وہ دن تھے جب بھارت معاشی طور پر یہ ایک بدترین دور سے گزر رہا تھا، معیشت تباہ اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔ پاکستان میں ایسے حالات میں نئی حکومتیں یا تو پچھلی حکومتوں کو کوسنے اور مزید لوٹ مار میں اپنی مدت پوری کرتی ہیں یا پھر ملک پہ مزید قرضے لاد کر میگاکمیشن والے میگا پروجیکٹ شروع کرکے اسے اقتصادی ترقی کا نام دیتی ہیں۔

تاہم نرسمہا راؤ نے شور شرابے یا سطحی ڈراموں کے بجائے ملک گیر اصلاحات کا آغاز کیا، ایک انتہائی زیرک ماہرمعیشت ڈاکٹر من موہن سنگھ کو وزیرخزانہ مقررکیا اور یوں بھارت کے معاشی سپر پاور بننے کا آغاز ہوا۔ راجیو گاندھی حکومت کی سوشلسٹ پالیسیاں یکسر تبدیل کردی گئیں، بیوروکریسی کے سرخ فیتے اوردوسری رکاوٹوں کو دورکیا اور بھارتی معیشت کو پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کے لیے کھول دیا۔

چین کے بعد آبادی کے لحاظ سے دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ کے دروازے کھلنے پہ پوری دنیا سے سرمایہ کاروں اور سرمایہ کاری کا بھارت میں سیلاب آگیا۔ ایک جانب غیر ملکی سرمایہ کاری کے نتیجے میں روزگارکے وسیع مواقعے پیدا ہونے لگے اور حکومت کی ٹیکسوں اور دوسرے محصولات سے آمدنی مسلسل بڑھنے لگی تو دوسری طرف سرمایہ کار دوست حکومتی پالیسیوں اور سستے لیبرکے نتیجے میں دنیا بھر کی کمپنیوں نے بھارت میں صنعتیں لگا کر یہاں سے برآمدات شروع کردیں نتیجتاً بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر کہاں سے کہاں جا پہنچے۔ ایک اقلیتی حکومت کا وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی نرسمہا راؤ نے ملک کی قسمت بدلنے والا اتنا بڑا معاشی انقلاب برپا کردیا۔

ان کی پالیسیوں کو ان کے بعد آنے والے وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور ڈاکٹر من موہن سنگھ نے بھی پوری شد ومد سے جاری رکھا۔ ہم پاکستانیوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اپنے ملک کو دنیا کی ٹاپ ٹین معیشتوں میں سے ایک بنانے والے نرسمہاراؤ، اٹل بہاری واجپائی، ڈاکٹر من موہن سنگھ نہ تو خود کروڑ پتی، ارب پتی، کھرب پتی بنے نہ ہی ان کے بچے۔ ان لوگوں کی دبئی، لندن، نیویارک وغیرہ میں نہ تو جائیدادیں بنیں نہ کاروبار لگے۔

1990ء کی دہائی کے وسط سے ہی بھارت میں ایک ایسی مڈل کلاس ابھرنا شروع ہوگئی جس کا حجم تقریباً امریکا کی کل آبادی جتنا تھا۔ بھارتی مڈل کلاس گوکہ آمدنی میں امریکی مڈل کلاس سے پیچھے تھی تاہم اس کا سائز مسلسل بڑھ رہا تھا اور یہ وہ کروڑوں بھارتی تھے جو اپنا روایتی سادہ رہن سہن ایک جدید اور فیشن ایبل لائف اسٹائل سے بدلنا چاہتے تھے اور ان کے پاس پیسہ بھی تھا چنانچہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے انھیں زیادہ سے زیادہ Consumer Spending کی طرف مائل کرنے کے لیے طرح طرح کی مارکیٹنگ اسٹریٹجیز شروع کیں مثلاً آپ بھارتی خواتین کی مثال لیجیے۔

عام طور پہ گہری رنگت والی اور مہنگے میک اپ سامان سے دور بھارتی خواتین خود کوکچھ اتنا زیادہ حسین نہیں سمجھتی تھیں لہٰذا ایک باقاعدہ اسٹریٹیجی سے یہ سوچ بدلی گئی۔ 1951ء سے جاری مس ورلڈ کے مقابلہ حسن میں صرف ایک بار 1966ء میں ایک بھارتی خاتون نے مس ورلڈ کا ٹائٹل جیتا تھا، تاہم اب اچانک بھارتی خواتین نے لگاتار 1994,95,99ء اور سن 2000ء کے مس ورلڈ ٹائٹل جیت لیے۔ اسی طرح 1952ء سے جاری مس یونیورس مقابلہ حسن میں بھی بھارتی خواتین نے پہلی بار 1994ء اور پھر سن 2000ء میں یہ ٹائٹل جیت لیے۔

بھارتی خواتین کے اس طرح اچانک لگاتار مس ورلڈ اور مس یونیورس کے مقابلے جیتنے سے عام بھارتی خواتین کی نفسیات پہ وسیع اور مثبت اثر پڑا، ان کے اندر خوبصورت بننے کا اعتماد پیدا ہوا۔ نتیجتاً خواتین کے میک اپ، ڈریسز اور دوسری فیشن پروڈکٹس اور سروسز کی اربوں ڈالر سالانہ کی مارکیٹ وجود میں آگئی۔ سن 2000ء تک یہ مارکیٹ بڑی مستحکم ہوگئی اور ساتھ ہی بھارتی میڈیا کے مستقل پھیلاؤ نے اس کا کام آسان بنادیا۔

اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ سن 2000ء کے بعد پھر کسی بھارتی خاتون نے نہ تو کوئی مس ورلڈ مقابلہ جیتا نہ مس یونیورس کا۔ابھرتی ہوئی بھارتی معیشت کو ابھرتی ہوئی بھارتی کرکٹ چاہیے تھی کیونکہ بھارتی لوگ کرکٹ کے دیوانے تھے۔کرکٹ میں مسلسل کامیابیوں سے صرف بھارتی براڈکاسٹنگ اور ایڈورٹائزنگ کو ہی نہیں بلکہ دوسرے لاتعداد معاشی وکاروباری شعبوں میں فائدہ ہوتا۔ مثلاً جب بھارتی کھلاڑی کامیاب ہوتے تو مشہور اورہردلعزیز ہو جاتے اور ان گنت مصنوعات اور اداروں کی ایڈورٹائزنگ میں آکر توثیق کرتے جس سے ان کی سیل اورکاروبار تیزی سے بڑھتا جس سے بھارتی حکومت کے لیے محصولات میں اور بھارتی عوام کے لیے روزگارکے مواقعوں میں اضافہ ہوتا یعنی بھارتی معیشت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی تاہم بدقسمتی سے بھارتی ٹیم ہمیشہ سے ایک اوسط درجے کی ٹیم رہی تھی، وہ بیٹنگ میں ہمیشہ اچھے اور بولنگ خصوصاً فاسٹ بولنگ میں ہمیشہ کمزور رہے تھے۔

چنانچہ 1990ء کی دہائی کے وسط سے ہی بین الاقوامی کرکٹ میں بیٹسمینوں کے فائدے کے لیے نت نئے قوانین بنائے گئے چنانچہ ون ڈے میچز جہاں ٹیمیں زیادہ سے زیادہ سوا دو ڈھائی سو رن بناتی تھیں وہاں اب تین تین سو رن بننا عام سی بات ہوگیا اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر میں بھی بیٹنگ وکٹیں تیار کی جانے لگیں۔

ادھر یکے بعد دیگرے بھارت میں بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بھارتی کرکٹ کی طاقتور برانڈنگ کے لیے ضروری تھا کہ اس کے روایتی حریف پاکستان کو اس کے سامنے کمزور اور حقیر ثابت کیا جائے چنانچہ 1990ء کی دہائی کے وسط کے بعد سے جیسے پاکستانی ٹیم پہ بھارت سے جیتنے پہ مکمل پابندی لگ گئی۔ کرکٹ میں سٹے بازی پاکستان کے کرپٹ حکمراں طبقے کے لیے ایک اہم Incentive ثابت ہوئی۔

اس سلسلے میں پاکستان کئی بار مشتبہ طریقوں سے بھارت کے خلاف میچ ہارا مثلاً 1999ء کے ورلڈ کپ کے دوران پاکستان جس طرح اپنے میچ ہارا اس پہ ملک میں بڑا شور مچا چنانچہ اس وقت کی حکومت کی وزارت اسپورٹس اور کلچر نے 16 اگست 1999ء کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک عدالتی کمیشن سے ورلڈ کپ 1999ء میں پاکستان کی مشکوک کارکردگی کی تحقیقات کرنے کی درخواست کی جو محض 48 گھنٹوں کے اندر اندر 18 اگست 1999ء کو کوئی وجہ بتائے بغیر واپس لے لی گئی۔

پاکستان میں چاہے ذوالفقارعلی بھٹو ہوں، ضیا الحق، بینظیر بھٹو، نواز شریف، آصف زرداری یا پرویز مشرف کبھی بھی کسی بڑے اسکینڈل کی تحقیقات نہیں ہونے دی جاتیں کہ یہ سلسلہ جو چل پڑا تو کہیں اوپر تک نہ پہنچ جائے۔ یہ 1999ء کا وہی ورلڈ کپ تھا کہ جس میں 31 مئی 1999ء کو بنگلہ دیش کے خلاف پاکستان کی 62 رن سے حیران کن ہار پر پاکستان اور خود اپنے لیے عزت نفس کے بنیادی احساس سے عاری کارپردازوں نے کہا تھا کہ ہم اپنے بھائیوں کو ٹیسٹ کرکٹ اسٹیٹس دلانے کے لیے ہارے ہم نے 1971ء کا بدلہ لے لیا''۔

بنگلادیش کو پھر ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا درجہ بہرحال مل گیا اور اس نے 10 نومبر 2000ء کو ڈھاکہ میں اپنا پہلا ٹیسٹ میچ کھیلا، ظاہر ہے کہ بھارت کے ساتھ۔ بھارت نے اس دوران میں 1983ء کے بعد 2011ء میں دوسری بار کرکٹ ورلڈ کپ جیتا۔ 2002ء اور 2013ء کی چیمپئنز ٹرافی جیتی، 2007ء میں ٹی 20 کا پہلا ورلڈ کپ بھی فائنل میں پاکستان کو 5 رنز سے ہرا کر جیتا، اس جیت نے 2008ء سے آئی پی ایل کا آغاز کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم اب بھارت کی معیشت تیزی سے بڑھنے اور پھیلنے کے دور کے بعد اب دوسری بڑی معیشتوں کی طرح عام انداز میں کام کر رہی ہے چنانچہ جیسے بھارت 2000ء کے بعد مس ورلڈ اور مس یونیورس کا کوئی مقابلہ نہیں جیت سکا اسی طرح شاید اب بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹس میں اس کی فتوحات تھم جائیں یا کم ہوجائیں، آپ کو یہ سن کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اب بین الاقوامی کرکٹ میں بولرز کو فائدہ پہنچانیوالے اور بیٹسمینوں کی آزادی محدود کرنیوالے قوانین بنائے جا رہے ہیں۔

ادھر پاکستان میں اب سی پیک کے ذریعے دنیا بھر سے کاروبار اور پیسہ آنے کی امید ہے چنانچہ شاید اسی لیے اب پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کھل کر کھیلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ تو ایک تھیوری ہوئی۔ دوسری تھیوری یہ ہے کہ پانامہ اسکینڈل تحقیقات میں گرفتار حکومت کو چیمپئنز ٹرافی میں فتوحات کے ذریعے اپنا امیج بہتر بنانا تھا لہٰذا پاکستانی ٹیم کو کھل کر کھیلنے حتیٰ کہ بھارت کو بھی ہرانے کی اجازت مل گئی۔ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں تھیوریاں غلط ہوں۔ پاکستان کے کرکٹ شایقین البتہ فکرمند ہیں کہ کہیں بھارت کی ناراضی اور خفت کے ڈر سے پاکستانی ٹیم کے بھارت کے خلاف جیتنے پہ پھرکہیں پابندی نہ لگ جائے۔ نجانے لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں