عوامی دولت کے مالک نہیں امین
اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ان کی جیب سے نکلنے والے حق حلال کے پیسے کس طرح اور کہاں پہنچ کر یوں استعمال ہوتے ہیں
ISLAMABAD:
یوں تو عوامی نقطۂ نظر سے ہر خبر اہم ہوتی ہے اور اس کے اثرات عوام پر مرتب بھی ہوتے ہیں، لیکن بعض خبریں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے اثرات ملک اور عوام پر انتہائی مضر طور پر مرتب ہوتے ہیں، مگر عوام کا دھیان اس طرف نہیں جاتا یا عوامی شعور اتنا نہیں ہوتا کہ اس کی گہرائی تک پہنچ سکے۔ مثلاً حال ہی کی ایک اہم ترین خبر کے مطابق سپریم کورٹ میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم کے بارے میں اصغر خان کیس میں سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درّانی نے موقف ظاہر کیا کہ مجموعی رقم 140 ملین تھی۔
جس میں سے 70 ملین آئی ایس آئی کے اکائونٹ میں جمع کرائے گئے تھے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے تحریری جواب میں انھوں نے بتایا کہ 14 کروڑ روپے مختلف سیاسی جماعتوں میں تقسیم کرنے کے لیے مختص کیے گئے، جن میں سے 7 کروڑ روپے انھوں نے خود تقسیم کیے جب کہ باقی 7 کروڑ روپے آئی ایس آئی کے خصوصی فنڈ میں جمع کرائے گئے۔
مذکورہ بالا خبر کا ایک ظاہری پہلو میڈیا میں نمایاں ہے، یعنی یہ کہ سیاست دانوں کو رقوم فراہم کی گئیں۔ گویا سیاسی منظرنامے کو بدلنے اور حکومت مخصوص افراد کے ہاتھوں میں پہنچانے کے لیے یہ کھیل کھیلا گیا۔ خبر کا یہی پہلو اہمیت کے اعتبار سے میڈیا پر بھی چھایا ہوا نظر آتا ہے حالانکہ اس خبر کا دوسرا اہم پہلو اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ رقم کس کی تھی؟ اور یہ رقم کہاں سے آئی؟ بظاہر سیدھی سی بات ہے کہ یہ رقم یقیناً پاکستان کی ہی تھی۔
لیکن درحقیقت یہ پاکستانی عوام کی تھی۔ وہ پاکستانی عوام جس میں ایک ارب پتی تاجر سے لے کر ایک چپل گانٹھنے والا موچی اور سبزی فروش بھی شامل ہے جس کے خون پسینے کی کمائی کی یہ رقم ہے جو ریاست نے ٹیکس کے نام پر اس سے وصول کی۔ اگر راقم کی یہ بات درست ہے (اور یقیناً ہے) تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے پیسے کی اس طرح بندربانٹ کی اجازت کس نے دی؟
پاکستانی عوام اس قدر سادہ لوح ہیں کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ ان کی جیب سے نکلنے والے حق حلال کے پیسے کس طرح اور کہاں پہنچ کر یوں استعمال ہوتے ہیں۔ ایک سبزی فروش ہی کیا ایک فقیر بھی جب ضروریاتِ زندگی کی کوئی شے خریدتا ہے تو اسے 15 فیصد زاید رقم ٹیکس کی صورت میں ادا کرنی ہوتی ہے، ایک سرسری سا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پاکستانی شہری خواہ زکوٰۃ ادا کرنے والا صاحبِ حیثیت ہو یا زکوٰۃ وصول کرنے والا انتہائی خستہ حال ہو۔
اسے اپنی ماہانہ آمدنی میں سے 15 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہی پڑتا ہے، کیونکہ روزمرّہ کی اشیا خریدنے پر اسے 15 فیصد تو ٹیکس بہرصورت ادا کرنا ہی ہے، جب کہ جو صاحب حیثیت اور غریب سرکاری ملازم مختلف مد میں ٹیکس ادا کرتے ہیں وہ الگ ہے۔
کیا اِس ملک کا ایک مزدور، بھیک مانگنے والا فقیر، زکوٰۃ وصول کرنے والا غریب ترین شخص یہ تصور کرسکتا ہے کہ اس کے محنت سے حاصل کیے گئے پیسے ایک طویل سفر کرکے کسی پجارو میں سفر کرنے والے، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں طعام و قیام کرنے والے سیاسی رہنما کو مالی امداد کے طور پر ''عزّت دار طریقے'' سے پیش کیے جاتے ہیں اور یہ لیڈر اس غریب عوام کے پیسے سے ہی اپنا بینک بیلنس بھی بناتے ہیں اور عوام کو خوش کن نعرے سنانے کے لیے جلسے جلوسوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ کیا پاکستانی عوام کو ان سب باتوں کا شعور ہے؟ کیا ہمارے ذرایع ابلاغ اس قسم کے عوامی شعور کو بیدار کرنے میں کوئی کردار ادا کررہے ہیں؟
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی، تھوڑا سا اور غور کریں کہ پاکستان کے ان محنت کشوں، زکوٰۃ کے مستحق افراد اور بھیک مانگنے والوں جیسے غریب لوگوں کی ذاتی رقم کہاں کہاں استعمال ہورہی ہے؟ کہیں کوئی حج اور عمرہ سرکاری خرچ پر کررہا ہے، کہیں کوئی وزارت یا عہدہ بلاضرورت تخلیق کرکے من پسند افراد کو دیا جارہا ہے، جس کی تنخواہ ہی نہیں تمام اخراجات کی ادائیگی میں بھی انھی غریب پاکستانیوں کی محنت کی کمائی شامل ہے۔
عوام کے پیسے کو اس طرح لٹانے کا عمل صرف سرکاری افراد ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ وہ عوامی نمایندے بھی کررہے ہیں کہ جن کو خود ہماری عوام نے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا ہے۔ عوام میں یہ شعور بھی نہیں کہ وہ اپنے منتخب نمایندوں سے جا کر سوال کریں کہ انھوں نے اپنے حلقۂ انتخاب کے عوام کے لیے کیا کچھ کیا؟ کتنے ترقیاتی کام ہوئے؟ کتنے فنڈ حکومت کی جانب سے انھیں ملے اور وہ فنڈ کس طرح اور کہاں کہاں خرچ ہوئے؟
اگر عوام میں یہ شعور ہو اور اتنی جرأت ہو کہ وہ اپنے منتخب نمایندوں سے ان کی کارکردگی پہ سوال کرسکیں اور یہ سمجھ سکیں کہ منتخب نمایندوں کے پاس فنڈز عوام کی امانت ہے اور عوامی نمایندے ان کے خادم ہیں، ایک ایسے خادم جو عوام کی ہی دولت کو ایک منظم طریقے سے عوام ہی کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کرنے کے ذمے دار بھی ہیں تو پھر یہ خبریں اخبار کی زینت نہ بنیں کہ کراچی جیسے شہر میں 2 لاکھ افراد روزانہ خیراتی دسترخوان سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔
کتنے شرم کا مقام ہے کہ جس ملک کے سب سے بڑے کاروباری شہر میں (جہاں ملک کا سب سے زیادہ روزگار دستیاب ہو) وہاں 2 لاکھ افراد روزانہ خیراتی کھانا کھانے پر مجبور ہوں اور حکمران ہی نہیں منتخب نمایندے بھی شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے زندگی بسر کررہے ہیں، وہ بھی ان ہی غربا کے مال پر۔ پاکستانی عوام کا 98 فیصد طبقہ گزشتہ 64 برسوں سے ہر سطح پر استحصال کا شکار ہوتا آرہا ہے اور یہ استحصال محض دو فیصد کے ہاتھوں یرغمال بنے رہنے کی صورت میں ہورہا ہے۔ اس دو فیصد طبقے کے پاس تمام تر اختیارات کا سمٹ جانا اور ارتکاز زر کا چند ہاتھوں تک محدود ہوجانا باقی اٹھانوے فیصد میں مایوسی و اشتعال کا سبب بن رہا ہے۔
برس ہا برس پر پھیلی خاندانی سیاست، جاگیردارانہ نظام اور اقربا پروری نے اس ملک میں انتشار و کرپشن کو حد درجہ پھیلنے میں مہمیز عطا کی ہے۔ عوام اچھے مستقبل کی امید لیے ہمیشہ سیاسی اداکاروں کے پرفریب نعروں کا شکار ہوتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ ان ہی لوگوں کو اپنی نمائندگی سونپ دیتے ہیں جو استحصالی طبقے کا حصہ ہیں۔ عوامی نمایندے درحقیقت عوامی امانت کے امین ہوتے ہیں لیکن یہ اس وقت ہی امین کا کردار ادا کریں گے، جب عوام کو بھی اپنی اس امانت کا شعور ہو جو اس کے منتخب کردہ نمایندے ہڑپ کرجاتے ہیں یا اس کا بے دریغ غلط استعمال کرجاتے ہیں۔ منتخب نمایندوں اور سرکار کو یہ باور کرانے کے لیے کہ وہ عوامی دولت کے امین ہیں، مالک نہیں۔
اس بات کا شعور خود پہلے عوام کو حاصل کرنا ہوگا اور ساتھ ہی اپنے منتخب نمائندوں سے احتساب نہیں تو کم ازکم سوال کرنے کی جرأت پیدا کرنا ہوگی۔ اس ہمت اور شعور کو اجاگر کرنے میں ذرایع ابلاغ، میں اور آپ مل کر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، آئیں پہل کریں۔