پاناما لیک کے اچھے بُرے اور ناگوار پہلو
حکمران جماعت اس کیس سے اتنی پریشان ہے کہ اس نے اس حقیقت کے بیچ کھنچی ہوئی لکیر کو مدھم کر دیا ہے
پاناما لیک کے اچھے، بُرے اور ناگوار پہلوؤں نے گزشتہ کئی ماہ سے قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
ٹیلی ویژن کے پنڈت ہر شام اس موضوع پر گرما گرم بحث کرتے ہیں اور ہمیں بتاتے ہیں کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ اس ملک میں اچھی باتیں کم ہی سننے کو ملتی ہیں اور اگر کوئی اچھی بات ہوتی بھی ہے تو وہ لوگ، جنھیں جمہوری انتظام کے عمل کے ارتقاء کو نظر میں رکھنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، عام طور سے اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کی ساری توجہ ٹیلیویژن ریٹنگز پر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو بہت کم اہمیت دی جاتی ہے کہ پاکستان ایک ترقی پذیر معیشت اور فروغ پذیر جمہوری ملک ہے۔ملک کے سیاسی نظام نے33 سال تک فوجی مداخلت کا نقصان اٹھایا ہے جس سے جمہوری کلچر، جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں،کی افزائش کو سست ہو گئی۔ اگرچہ پچھلے نو سال کے دوران اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست حکومت پر قبضہ نہیں کیا تاہم خفیہ حربے استعمال کرتے ہوئے سیاسی حکومت کو کمزور رکھا۔
اس پورے عمل کی پہلی اچھی بات یہ ہے کہ حکمران اپنی مالی بے ضابطگیوں اور الزامات کی وجہ سے احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ اس حوالے سے دوسری اچھی بات یہ ہے کہ جمہوری اداروں میں زیادہ گنجائش کے لیے زور آزمائی ہو رہی ہے، تمام جمہوری اداروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ عدلیہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ آزاد عدلیہ سے کہیں بڑھ کر آزاد ہے۔ کاش کہ وہ اُس وقت بھی اِس آزادی کو استعمال کرتی جب اسٹیبلشمنٹ نے ایک نہیں --- تین بار اقتدار پر غیر آئینی طریقے سے قبضہ کیا۔
سول و ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ،سرمایہ دارانہ معاشرے کے ترقی یافتہ ادارے ہیں۔ملک میں اصل جمہوریت کی غیر موجودگی میں ان کے پاس آئینی اور آئین سے ماوراء دونوں قسم کے اختیارات ہوتے ہیں۔
دوسری طرف سیاسی جماعتیں اب بھی نیم جاگیردارانہ کردار کی حامل ہیں۔جہاں تک کرپشن کے معاملے کا تعلق ہے تو یہ تمام ادارے یکساں بد عنوان ہیں۔
یہ بات بھی سچ ہے کہ اگر دوسرے ایسے ملکوں کے ساتھ جو معاشی اور سیاسی ترقی کے ہمارے جیسے مرحلے پر ہیں، کرپشن کی سطح کا مقابلہ کیا جائے تو ہم برابر کے کرپٹ ہیں۔ چنانچہ اچھی بات یہ ہے کہ پہلی بار ایک بر سر اقتدار وزیر اعظم پرعدلیہ کی جانب سے فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان، افتخار چوہدری کی طرف سے بھی اُس وقت کے صدر آصف زرداری کو قابو کرنے کی کوشش کی گئی تھی مگر اس راستے میں یوسف رضا گیلانی دیوار بن گئے اور اپنے عہدے کی قربانی دے دی۔ یہ سب کچھ بہت عجیب سا لگتا ہے مگر اچھی پیشرفت یہ ہے کہ احتساب کا عمل، اگرچہ کہ وہ صرف سیاسی طبقے کے خلاف ہے، مگر آگے بڑھ رہا ہے۔ میرے خیال میں اس عمل کا بُرا پہلو یہ ہے کہ مقدمے کی سماعت کے دوران جج صاحبان بعض اوقات تحریری یا زبانی طور پر سنسنی پیدا کرنیوالے ریمارکس دیتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ جج صاحبان اپنے فیصلوں کے ذریعے بولیں اور ہیجان پیدا کرنیوالے ایسے ریمارکس سے گریز کریںجو انھیں خبروں کی شہ سرخیوں میں تو لاسکتے ہیں مگر ان کے قابل احترام منصب سے مطابقت نہیں رکھتے۔اب یہ صورت حال نا پسندیدہ رخ اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ حکمران جماعت عدالتی عمل کے بارے میں جارحانہ رویہ اختیار کر رہی ہے۔انھیں جے آئی ٹی کی تشکیل کے بارے میں اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کا حق ہے مگر اس کے ارکان کو دھمکیاں دینے کا کوئی حق نہیں، جیسا کہ نہال ہاشمی نے ڈھکے چھپے الفاظ میں دیں۔
یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ ایک محترم جج مشتعل ہو گئے اور حکومت کو مافیا سے تعبیر کر دیا۔
کسی بھی مہذب معاشرے میں تفتیشی افسر ملزم کے ساتھ باعزت طریقے سے پیش آتا ہے اور اس پر نفسیاتی دباؤ نہیں ڈالتا،جیسا کہ حسین نواز کی باہر آنے والی تصویر سے ظاہر ہوتا ہے۔مگر اس معاملے کو کوئی رائے قائم کرنے کے لیے عوام پر چھوڑنے کی بجائے،جس سے ان کے لیے کوئی ہمدردی پیدا ہو سکتی تھی،انھوں نے غصے میں آ کر کہا کہ اس طرح سے خالی کمرے میں بٹھاکر ان کی بے عزتی کی گئی۔
حکمران جماعت اس کیس سے اتنی پریشان ہے کہ اس نے اس حقیقت کے بیچ کھنچی ہوئی لکیر کو مدھم کر دیا ہے کہ پاناما کیس حکومت کے خلاف نہیں بلکہ وزیر اعظم کے خاندان کے خلاف ہے۔اس کا دفاع شریف خاندان یا ان کے ترجمان کی طرف سے کیا جانا چاہیے۔مگر اس کی بجائے ملزم کے دفاع کے لیے تمام حکومتی وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔اس سے حکمران جماعت کی بالغ نظری کا فقدان ظاہر ہوتا ہے،انھیں شریف فیملی کیس اور حکومتی ادارے کے درمیان ایک مناسب فاصلہ رکھ کر یہ کام کرنا چاہیے تھا۔ٍ
شریف خاندان بحرانی ابلاغ سے پیشہ ورانہ انداز میں نمٹنے میں بھی ناکام رہا۔کرائسز کمیونیکیشن کے بنیادی اصولوں کو ذہن میں نہیںرکھا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں درست تاثر پیدا کرنے اور اپنے کیس کا دفاع کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کیس کو کرائسز کمیونیکیشن مینجمنٹ کی بد ترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
لوگ اس بارے میں بھی غیر یقینی کا شکار ہیں کہ اگلے عام انتخابات سے قبل اس کیس کا حتمی فیصلہ ہو جائے گا۔ فیصلے کا پیرا91 کہتا ہے کہ اسپیشل بینچ جے آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد اسے احتساب عدالت کے حوالے کر سکے گا، یہ بات منطقی نظر آتی ہے۔ یہ کسی بھی کرپشن کیس کا صحیح راستہ ہو سکتا ہے۔سپریم کورٹ حتمی عدالت ِ اپیل ہے، اس لیے شریف خاندان کو زیریں عدالت میں مقدمے کے اپنے حق سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔ مگر ایک ابہام بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ حتمی فیصلہ کے پیرا5 میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد سپریم کورٹ کے اسپیشل بینچ کی طرف سے ٹرائل کے لیے کیس چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس بھیجا جائے گا۔ میرے وکیل دوستوں کا خیال ہے کہ وزیر اعظم کے خاندان کی قسمت کا فیصلہ احتساب عدالت نہیں بلکہ سپریم کورٹ کا اسپیشل بینچ کرے گا۔