اس طرح تجزیے نہیں ہوتے

وزیرِاعظم کو چین کی جانب سے خاص پذیرائی حاصل ہے


[email protected]

PESHAWAR: عنوان کا پہلا مصرع محسن بھوپالی کا معروف شعر ہے۔ خوب ہے، خوب تر ہے،خوب ترین... اس طرح تجزیے نہیں ہوتے۔ میں نے جو آرٹیکل گزشتہ دنوں تحریرکیا اس کی آخری سطورکا نتیجہ اللہ کے فضل سے آگیا ۔ نیوز لیکس پر پاک فوج کے سربراہ نے دشمن پڑوسی ممالک کے منہ پر خاک ڈال دی اورکچھ نادان دوستوں کو بھی مایوس کیا۔اپنے ایک نہایت بہترین فیصلے کے ذریعے سے ،ایک زیرک سربراہ کی حیثیت میں،ایک محبِ وطن سپاہی کی طرح انھوں نے وطن کو ترجیح دی،ملک کی آن بان میں اضافہ کیا اورپوری قوم کو مطمئن کیا یہ احساس دلاکرکہ ملکی افواج کی کمان ذمے دار ہاتھوں میں ہے۔

آئی ایس پی آرکا ٹوئٹ واپس لے لیا گیا، وزیرِاعظم کو تمام اداروں کا بڑا مان لیا گیا۔ بہتر نہیں بہترین نہایت اعلیٰ،ایک ایسی مثال جس نے وطن ِ عزیزکی نئی سمت متعین کردی، بہت مثبت سمت انشاء اللہ اب ہم دنیا سے پیچھے نہیں رہیں گے لاکھ پڑوسی ممالک کسی کے کہنے پر ہمارے خلاف ہوں ، ہم کسی سے کم نہیں ۔اللہ ہماری مدد فرمائے گا ، ہم سرخرو ہوں گے، ہمیں دراصل سمت درکار تھی ۔ بڑی مدت سے ہم چل رہے تھے بلکہ کبھی کبھی دوڑ بھی رہے تھے ،لیکن کس طرف ؟معلوم نہ تھا کوئی ہمیں بس دھکیل دیتا ،یا دھکا دیتا اور ہمارا سفر جاری تھا ۔قارئینِ کرام یہ 2013کے الیکشن تو اب نعمت لگتے ہیں ،اس میں وہ بنیادی تبدیلیاں رونماء ہوئیں جن کے لیے میں سمجھتا تھا کہ ابھی سو برس مزید درکار ہوں گے ۔اسی میں ایک برسرِ اقتدار وزیرِ اعظم کا احتساب ممکن ہوا،کسی آرمی چیف نے ایکسٹنشن نہیں لی ، فرینڈلی اپوزیشن نہیں ہوئی ۔

سوچنا ہوگا شخصیت پرستی نے ہمیں کیا دیا ؟ بہت سے قائد بناکر دیکھ لیے،ان کے بت بھی تعمیرکیے، پوجا پاٹ بھی ہوتی رہی ، زندہ تو زندہ مردوں نے بھی سالوں سال حکومت کی،نتیجہ ڈھاک کے تین پات ... دنیا کی بہت سی جنگوں میں لاکھوں لوگ مارے گئے ، نہ مرے تو ہمارے شہید ! لیکن اب زمانہ بدل گیا لہٰذا یا تو نئے شہید لایے ورنہ خدمت کی سیاست ہی دراصل سیاست ہے ،سچائیِ،ایمانداری ،حب الوطنی ہی وہ بنیادیں ہیں جن پرآپ حکومت کی عمارت تعمیرکرسکتے ہیں۔

وزیرِاعظم کو چین کی جانب سے خاص پذیرائی حاصل ہے، بڑی آؤ بھگت ہورہی ہے لیکن کچھ نئی تبدیلیاں چائنہ راہداری میں بھارت کی نئی چالوں سمیت اس امرکا تقاضہ کر رہی ہیں کہ وزیرِاعظم وہاں اپنی مصروفیات کا رخ نئے سرے سے متعین کریں ،چائنیز حکومت سے بھرپور تبادلہ خیال ہو مستقبل کے حوالے سے، آج محنت ہم کررہے ہیں تمام خطرات مول لے رہے ہیں کل ایسا نہ ہوکہ اس منصوبے کا نام بھارت کی شمولیت کی شرط پر پاک چین راہداری سے بدل کرکچھ اوررکھ دیا جائے اور ہم پھر تنہا رہ جائیں یا دوسرے لفظوں میں استعمال ہوجائیں جیسا کے ماضی میں ہوتے رہے۔ افغان جنگ اس کی ایک مثال ہے ۔اگرچہ امیدکم ہے لیکن احتیاط مانع رہنی چاہیے،کیونکہ اس حوالے سے ماضی تابناک نہیں۔اچھی بات یہ بھی ہے کہ چاروں وزرائے اعلیٰ، وزیرِاعظم کے ساتھ ہیں گویا وفاق مکمل ہوتا ہے ۔

قارئین کرام ! ذرا ملکی سیاست کو موضوع بناتے ہیں، میری سمجھ میں اب تک نہ آسکا اور میں اس مسئلے کو اپنے متعدد آرٹیکلز میں اجاگرکرچکا کہ عمران خان جو غالبًا حکومت کی واحد اپوزیشن ہیں نے حکومت کوکئی ایک مقامات پر tough time دیا لیکن جو بنیادی مسئلہ تھا جس کا وہ بھی شکار ہوئے اور دیگر جماعتیں بھی ،وہ ہے دھاندلی زدہ الیکشن ،جس کے باعث ملک میں کبھی حقیقی جمہوریت نا آسکی ،اس پر خان صاحب نے گزرے ہوئے چار سالوں میں بہت ہی کم دھیان دیا ۔زیادہ تر وہ کورٹ کچہری میں الجھے رہے حکومتی کرپشن کی گرفت میں انھوں نے کافی وقت گزارا ، جو ٹھیک تھا لیکن اس سے زیادہ اہم تھا کہ وہ ایک ایسے الیکشن کا انعقاد ممکن بناجاتے جس میں کوئی جماعت یا ادارہ اپنی من چاہی حکومت نہ بنا سکے اور وہ تھا bio metric مشینوں کے ذریعے سے ووٹ کی کاسٹنگ ،جس کے باعث الیکشن کسی حد تک صاف ستھرا ہوگا ،جیسا انڈیا اور دنیا بھر میں ہوتا ہے ۔

قوم انتظارکرتی رہی کہ خان صاحب اس انتہائی اہم مسئلے پرکوئی لائحہ عمل کب بنائیں گے؟ لیکن انھیں بہت مصروف دیکھ کر سب خاموش ہوگئے اور حالت یہ ہے کہ چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز کی تعیناتی ہوگئی جس پر بھی عمران خان یا تو خاموش رہے یا انھوں نے کوئی قابلِ ذکر قدم نہیں اٹھایا ۔اب زیادہ ترامکانات کسی حادثے کے ہونے کے ہیں ،الیکشن 2018کا ممکنہ نتیجہ کیا ہوگا کچھ کچھ دکھائی دے رہا ہے ۔مجھے بڑی حیرت ہے کہ خان صاحب نے یہ کیا کِیا؟ لگتا ہے ان کے صلاح کار چیزوں کی ترجیحات کا درست تعین کرنے میں کوئی قابلِ ذکر مہارت نہیں رکھتے ، وہ بس جذباتی انداز میں کام کرنے کے عادی ہیں ،جس میں دھرنے ہوں، ریلیاں ہوں، حکومت گرانے کے دعوے ہوں لیکن اب بھی وقت ہاتھ سے نکلا نہیں ہے،بالکل ممکن ہے کہ فوراً ایکشن لیا جائے،election reforms پر باقاعدہ ایک تحریک چلائی جائے do or die کی بنیاد پر، قوم کو اعتماد میں لیا جائے ،انھیں اکسایا جائے کہ وہ جسے ووٹ دیتے ہیں وہ کبھی اسے نہیں پڑتا بلکہ ان کے پولنگ اسٹیشن میں جانے سے پہلے ہی کاسٹ ہوجاتا ہے، ووٹ ان کا بنیادی حق ہے ،ان کی حقیقی طاقت جسے بآسانی کوئی چرالیتا ہے ۔مجھے بھرپور یقین ہے اس تحریک میں پوری قوم خان کے ساتھ کھڑی ہوگی کیونکہ یہ ان ہی کی جنگ ہے، ان ہی کے حقوق کا تحفظ آپ کررہے ہوں گے۔

میں اس بحث سے کچھ ہٹ کر ویسے بھی اپنے وقت کی ہر اپوزیشن کو یہی مشورہ دوں گا کہ وہ صرف ایسی تحریک کی قیادت فرمائیں جو عوام سے تعلق رکھتی ہو ،اس سے ایک ان کی تحریک کامیاب ہو گی دوسرے انھیں عوامی پذیرائی حاصل ہوگی ،سوئم عوام کے حقیقی مسائل حل ہونے شروع ہوجائیں گے ۔چہارم آپ کو بھی آگاہی ہوگی کہ عوام نا تو طویل دھرنے چاہتی ہے نہ کفن پوش قیادت ،انھیں کیا پتہ پانامہ لیکس کیا ہے ،نیوز لیکس کیا ؟ کئی کئی دن کے بھوکے مزدرکو صرف ایک بات کا علم ہے ایک حقیقت اس پر منکشف ہے وہ ہے غربت غربت اورغربت ۔اگرکوئی ان کی غربت افلاس کا مداوا کرے تو وہ اسے سنیں گے باقی تو آپ کچھ بھی کرتے رہیں کچھ بھی کہتے رہیں انھیں کوئی غرض نہیں ۔

پاک سرزمین پارٹی نے کراچی میں عوام کے ملین مارچ کا اعلان کیا تھا ،جس کی منزل وزیرِاعلیٰ ہاؤس تھا ، مطالبہ کراچی سمیت اندرونِ سندھ کے اردو بولنے والوں کے غصب شدہ حقوق کی بحالی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم ، مارچ بہرحال ملین دکھائی نہیں دیا ،چند ہزار لوگ جمع ہوسکے ، لیکن جوش وخروش ضرور تھا ،جسے ریڈ لائٹ ایریا کے قریب روک دیا گیا ، مصطفیٰ کمال اورساتھیوں کوگرفتارکرلیا گیا ، سندھ حکومت کی جانب سے مقدمات بنانے کا عندیہ لیکن مسئلے کا حل تو یہ نہیں، حل تو یہی ہے کہ آپ اردو بولنے والوں کو ان کا حق دیں اور دینا ہوگا ۔کب تک آپ ظلم واستبداد پر مبنی اس سلسلے کو جاری رکھیں گے؟ ایک بڑے طبقے کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھیں گے۔اگر چاہتے ہیں کہ سندھ میں رہنے والے سب خود کو سندھی کہلوائیں تو دل کو بڑا کرنا ہوگا ۔

جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں کہ موجودہ جمہوری حکومت اورماشل لاء میں کوئی فرق نہیں۔ مجھے ان کے بیان پرکوئی حیرانی نہیں کیونکہ یہی صاحبان تھے جن کا بیحد اصرار تھا کہ افغان وارہماری جنگ ہے،اسلامی جہاد ہے ہم پر فرض ہے ۔لہٰذا آج جوکچھ وہ فرما رہے ہیں اپنی دانست میں خودکو درست سمجھتے ہوں گے، لیکن اب نا کوئی انھیں سنتا ہے نا سمجھتا ہے ،گویا رات گئی بات گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں