لوڈ شیڈنگ کا عذاب

ملکی تاریخ میں پہلی بار درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ اور بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار تک بڑھ گیا


شاہد سردار May 21, 2017

ملکی تاریخ میں پہلی بار درجہ حرارت میں اس قدر اضافہ اور بجلی کا شارٹ فال 7 ہزار تک بڑھ گیا اور اکثر شہری علاقوں میں 8 سے 12 گھنٹے اور دیہات میں 16 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ عوام کا مقدر بنا دی گئی ہے، جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، دوسری مشکلات کے علاوہ بیشتر علاقوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا بھی ہے۔ بیشتر علاقوں میں لوگ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

ایک طرف یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف وفاقی وزیر پانی و بجلی نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بجلی کی اضافی لوڈ شیڈنگ کے فی الحال جاری رہنے کا مژدہ سنا دیا ہے اور مئی کے وسط تک ساڑھے چار ہزار میگاواٹ اضافی بجلی دستیاب ہونے کا جو اعلان کیا گیا تھا وہ محض اعلان ہی ثابت ہوا۔

12 سو میگاواٹ کے پلانٹس جو معمولی مرمت کے لیے بند کیے گئے تھے دو ماہ ہو چلے وہ بحال نہ ہوسکے، کچھ دوسرے اقدامات سے بھی بجلی کی پیداوار میں اضافے کی نوید سنائی گئی تھی جس سے لوڈ شیڈنگ میں بتدریج کمی ہوتی۔ پانی کے علاوہ ہوا، سورج، گیس اور کوئلے سے بھی بجلی پیدا کرنے کا اعلان حکومتی سطح پر ہوتا رہا لیکن ایسا کچھ بھی ممکن نہ ہوسکا۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی مدت اقتدار پوری کرنے سے پہلے ملک کو لوڈ شیڈنگ سے نجات دلا دے گی۔ اس دعوے کی تکمیل کے امکان بھی کہیں نظر نہیں آرہے یوں عملاً یہ سب طویل المیعاد منصوبے ہیں جن میں سے بعض منصوبے ناقص حکمت عملی یا غیر شفافیت کے باعث مطلوبہ نتائج نہ دے سکے، نندی پور پاور پروجیکٹ اس کی بدترین مثال ہے۔ نیلم، جہلم منصوبے پر بھی سالہا سال سے کام جاری ہے لیکن کچھ بھی نہ ہوسکا، اس صورتحال میں یہ دعویٰ کہ 2018ء میں ہم بجلی ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے، اللہ کرے دیوانے کا خواب ثابت نہ ہو۔

یہ حقیقت ہے کہ ملک میں بجلی کا بحران بہت پرانا ہے جسے ماضی کی مضبوط حکومتیں بھی حل نہیں کرسکیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی اور زرعی صنعتی اور تجارتی مقاصد کے لیے بجلی کے استعمال میں مسلسل اضافے کے تناسب سے پیداوار نہیں بڑھی۔ ہر حکومت نے اقتدار سنبھالنے پر لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کیے مگر عملی دشواریوں یا غفلت کی وجہ سے انھیں پورا نہیں کرسکی۔ اسی طرح کا وعدہ موجودہ حکومت نے بھی کیا تھا اس کی مدت اقتدار پوری ہونے میں تقریباً ایک سال کا عرصہ رہ گیا ہے مگر یہ وعدہ ابھی تک تشنہ تشکیل ہے یوں ملک طویل عرصے سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہے۔

7 ہزار بجلی کا شاٹ فال جب کہ لائن لاسز اور بجلی چوری کے باعث یہ شاٹ فال 6000 میگاواٹ سے زیادہ پر پہنچ جاتا ہے۔ جس کے باعث عوام کو شدید گرمی میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھگتنا پڑتی ہے، جب کہ بجلی کے اداروں کی طرف سے تجارتی بنیادوں پر مختلف منصوبوں کی خاطر لیے گئے قرضوں کی ادائیگی کے لیے 0.43 روپے فی یونٹ صارفین سے وصول کیے جا رہے ہیں، جب کہ 2013ء سے تین مختلف اقسام کے بھاری ٹیکس بھی بجلی کے بلوں میں اب تک شامل چلے آرہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب بجلی صارفین سالانہ 15 سے 20 ارب روپے قرضوں کی ادائیگی کی مد میں ادا کر رہے ہیں ان پر مزید ٹیکس کا بوجھ کسی طور جائز نہیں۔

حکومت پہلے ہی سے بجلی کے ہر صارف سے ایک روپیہ 53 پیسے فی یونٹ سرچارج کی مد میں وصول کر رہی ہے اور 17 فیصد سیلز ٹیکس بھی عوام 2013ء سے ادا کر رہے ہیں اس کے علاوہ انکم ٹیکس یا سیلز ٹیکس گوشوارہ نمبر نہ رکھنے والے کمرشل صارفین سے ایک فیصد کی شرح سے مزید ٹیکس بھی وصول کیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں حکومتی قرضے اتارنے کے لیے عوام کی جیبوں سے پیسے نکلوانے کی بھلا کون سی تُک بنتی ہے؟

جس حکومت کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ کس مہینے ملک بھر میں کتنی بجلی درکار ہوگی، وہ لوڈ شیڈنگ پر کیسے قابو پانے کی منصوبہ بندی کرسکتی ہے حالانکہ یہ عام آدمی بھی جانتا ہے کہ جنوری، فروری اور مارچ کے مہینے میں ڈیموں میں پانی کی کمی ہوتی ہے۔ حکومت کی طرف سے ہمیشہ بجلی چوری کا ذمے دار عوام کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وفاقی اور صوبائی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے خود بجلی کے بل ادا نہیں کرتے، اس کی حد درجہ چوری کرتے ہیں اور یہ سارا بل یا بوجھ عوام کے بلوں میں شامل کردیا جاتا ہے۔

طرفہ تماشا کراچی جیسے ملک کے سب سے بڑے صنعتی و تجارتی شہر میں 1 سے 300 یونٹس کے بلوں میں ظالمانہ اضافہ، اوور بلنگ اور لائن لاسز کے نام پر اربوں روپے بٹور لینا اور میٹر رینٹ پر 11 ارب روپے، ڈبل بینک چارجز پر 13 ارب روپے، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز پر 62 ارب روپے، ملازمین کے نام پر 35 ارب روپے (15 پیسے فی یونٹ کے حساب سے ، اس کے علاوہ تانبے کی تار بیچ کر اربوں روپے کر لیے گئے)۔

کراچی میں پہلے کے ای ایس سی کو حکومت 5 ارب سالانہ سبسڈی دیتی تھی جس کی وجہ سے اس ادارے کو پرائیوٹائز کیا گیا لیکن اب ''کے الیکٹرک'' کو 75 ارب روپے سالانہ کی سبسڈی دی جا رہی ہے جو کرپشن کی بدترین مثال ہی کہی جائے گی۔ ملکی منظرنامے پر نگاہ رکھنے والے ہر اہل نظر کی یہ رائے ہے کہ لوڈ شیڈنگ ختم کرنا حکمرانوں کی ترجیح میں شامل ہی نہیں۔ یہ سب محض شعبدہ بازی ہے اور لوڈ شیڈنگ پر ہی سیاست کی جا رہی ہے، اگر حکمراں ملک سے مخلص ہوتے تو کالا باغ ڈیم بنانے اور پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کو ترجیح دیتے، ہمارے ملک میں کوئلے کے ذخائر موجود ہیں مگر 70 سال ہوگئے ہم ان کو استعمال میں نہیں لاسکے۔

وطن عزیز دنیاوی ہر آسائش اور سہولتوں سے لیس ہے، اس کی زمین پر اناج سے لے کر پٹرول، تیل، گیس، سونا، قیمتی پتھر سبھی کچھ موجود ہے لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ برسہا برس سے بجلی کی قلت کا شکار چلے آرہے ہیں۔ حکمرانوں، ارباب اختیار کے زمینی دعوے اور حقائق کچھ کا کچھ ثابت کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ افکار اور نظریات لباس کی مانند نہیں ہوتے جنھیں ہر موسم کی تبدیلی پر اتار پھینکا جائے، ان میں ارتقا ضرور ہوتا ہے لیکن تغیر نہیں ہوتا کہ دن رات بن جائے اور رات دن میں تبدیل ہوجائے۔ یہ بھی بجا کہ دنیا بھر کا اندھیرا مل کر بھی روشنی کی ایک چھوٹی سی کرن کا راستہ نہیں روک سکتا لیکن افسوس ہم اہل وطنوں کو ایسی کوئی کرن دور دور تک دکھائی نہیں پڑ رہی۔

ایسے حکمرانوں کی حکمرانی یا حکومتوں کا کیا جواز دنیا کے تختے پر جو اپنی رعایا یا اپنی عوام کو پانی، بجلی اور انصاف تک مہیا نہ کرسکے؟ ہمارے ارباب اختیار کو اب بھی اپنے دل کو نرم اور اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھر لینے چاہئیں کہ وقت ان کے پاس اللہ کی امانت ہے۔ جس کا ایک لمحہ بھی ضایع کرنا مجرمانہ خیانت ہے۔ ویسے بھی کوئی دور ''اپنے براہیم کی تلاش میں'' نہیں ہوتا بلکہ وہ لمحہ بت شکنی سے بہت پہلے اسے جنم دے لیا کرتا ہے۔

رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، غضب کی گرمی انتہاؤں کو چھورہی ہے، اربوں روپے سالانہ ہڑپنے کے باوجود بجلی کے ادارے بدترین لوڈ شیڈنگ کس اصول یا قاعدے کے تحت کر رہے ہیں؟کم ازکم ہمارے ارباب اختیار یہ تو پوچھنے کا حق رکھتے ہیں، لیکن کیا ہے کہ اصول، قاعدے، قانون اور اس کا اطلاق یہ سب کا سب ہمارے ہاں جاگتی آنکھوں کے خواب کے سوا اورکچھ نہیں۔ حکومت بجلی پیدا نہ کرے لیکن بدترین لوڈ شیڈنگ میں کمی ہی کرادے تاکہ قیامت خیز گرمی اور رمضان المبارک میں لوڈ شیڈنگ کے باعث بلبلاتے عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں