کبھی آبپاشی کا نظام بھی کمال کا تھا
میں جب 10 سال کا تھا تو مجھے اپنے شہر اور باقی چیزوں کے ....
پاکستان بننے سے پہلے علاقے کے لوگ گاؤں میں رہنا پسند کرتے تھے، کیونکہ اس وقت زراعت کی نہ صرف اہمیت تھی بلکہ لوگوں کی خوشحالی کی ضمانت بھی تھی اور شہر میں رہنے والے بزنس مین انتظار کرتے تھے کہ گاؤں سے فصل آئے گی اور لوگ خریداری کریں گے اور پورا سال کوئی نہ کوئی فصل تیار ہوجاتی تھی، جس میں چاول، گندم، پھل وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ اس خوشحالی کا سبب نہری پانی کی فراوانی ہوتی تھی۔ میں نے جب لاڑکانہ کی ترقی کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا کہ دریائے سندھ سے لاڑکانہ کی طرف پانی کا بہاؤ آتا تھا، جسے بعد میں گھاڑ واہ کی شکل دے دی گئی۔ جب زمین آباد ہونے لگی تو تجارت کرنے والے دور دور سے اس طرف آنے لگے جس کی وجہ سے دوسرے لوگ دوسرے علاقوں سے یہاں آباد ہونے لگے اور لاڑکانہ دن بہ دن اتنی ترقی کر گیا کہ امیر علاقہ بن گیا۔
میں جب 10 سال کا تھا تو مجھے اپنے شہر اور باقی چیزوں کے بارے میں سمجھ آنے لگی۔ میرے والد جو آبپاشی محکمے میں تھے، جس کے تبادلے مختلف علاقوں میں ہوتے رہتے تھے اور وہ ہمیں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اس وقت دریائے سندھ کی بڑی موج تھی اور اکثر سیلاب آتے تھے اور کچے کا علاقہ جسے سونے کی زمین کہا جاتا تھا، سیلاب سے بڑی فصلیں اُگا کر وہاں کے لوگوں کو امیر اور خوشحال کردیتا تھا۔ ہم لوگ 1962ء میں مستقل لاڑکانہ شہر میں آباد ہوگئے۔ وہاں پر رائس کینال گزرتا تھا جس میں گھاڑ واہ کا پانی مل کر پھر وہاں سے دوسری جانب کئی علاقوں کو آباد کرتا تھا۔
رائس کینال میں جب آبپاشی کا پانی مئی کے مہینے میں پہنچ جاتا تو ہم لوگ خوشیاں مناتے تھے اور پانی کی مستی کو دیکھنے کے لیے لاہوری محلہ کی طرف کینال کے پل پر آکر پانی کی اچھل کود دیکھتے تھے۔ پانی اتنا صاف اور شفاف تھا کہ لوگ اس میں نہاتے تھے، جب کہ وہاں نہانا منع تھا، کیونکہ کئی بچے وہاں ڈوب چکے تھے۔ رائس کینال سے نکلتی ہوئی پنج ہلی اور گھاڑواہ میں بچے نہاتے تھے۔ گھر سے بہانا بناکر وہاں نہانے کے لیے ٹائر کے ٹیوب کرائے پر لے کر جاتے تھے۔ بڑے بچے اور مرد وہاں پر پکنک منایا کرتے اور اپنے ساتھ موسم کے فروٹ جس میں آم ضرور ہوتا تھا، پوری پیٹی لے کر آتے۔ اس کے علاوہ گھر سے بنایا ہوا کھانا بھی لایا جاتا تھا کیونکہ اس وقت ہوٹل بھی کم تھے اور عام آدمی ہوٹل کا کھانا پسند نہیں کرتا تھا۔ یہ سلسلہ پوری گرمیوں تک جاری رہتا تھا۔
میں گرمی کی چھٹیوں میں اپنے والد کے پاس وہاں جاتا تھا جہاں پر ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ ان کے پاس آبپاشی محکمہ کی طرف سے بنائے ہوئے بنگلے ملتے تھے، جس میں بجلی، پانی، باورچی، نوکر ہوتے تھے۔ بنگلے بڑے ہوادار ہوتے تھے جس کی چھتیں بڑی اونچی ہوا کرتی تھیں اور پہلے جھلی (جو آگے پیچھے کرنے سے ہوا ملتی تھی) بعد میں بجلی آنے سے لمبی راڈ والے پنکھے ہوا کرتے تھے۔ اگر وہ نہ بھی ہوتے تو جگہ بڑی ٹھنڈی اس لیے تھی کہ اس میں ہوا کی کراسنگ کا نظام رکھا ہوا تھا اور پھر چھت میں روشن دان بنے ہوئے تھے۔ یہ بنگلے اکثر ایسی جگہ بنے ہوئے تھے جہاں پر چاروں طرف درخت ہی درخت تھے، جس میں آم کے درخت زیادہ ہوتے تھے۔ آم کی کیریاں توڑ کر اسے مٹکے میں ڈال کر پکایا جاتا تھا۔ بنگلے میں دیسی مرغیاں پالی جاتی تھیں اور جب بھی کوئی افسر وزٹ پر آتے تو انھیں ذبح کرکے پکایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ وہاں سے گزرتے ہوئے پانی سے تازہ مچھلی پکڑ کر تیار کی جاتی تھی، جس کا ٹیسٹ آج تک نہیں بھولا۔
آبپاشی کا افسر بڑا پاور فل ہوتا تھا اور علاقے کے بڑے بڑے لوگ اس کی مہمان نوازی کرنے میں فخر سمجھتے تھے، کیونکہ اس وقت افسران کی بڑی عزت تھی اور قانون کافی حد تک مضبوط ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہائی وے کے روڈ کم ہوتے تھے اور سکھر اور دادو جانے کے لیے کٹنالس کے ہاتھ استعمال کیے جاتے تھے جو بڑے مضبوط اور پکے ہوتے تھے، کیونکہ اس پر صبح و شام پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا تھا پھر اس پر دھان (Baddy) کی سوکھی گھاس بچھائی جاتی تھی۔ اس ہاتھ کے ساتھ کئی قسم کے مضبوط درخت تھوڑے تھوڑے فاصلے سے لگے ہوئے ہوتے تھے جس پر نمبر لکھے ہوئے تھے۔ کسی کی کیا مجال ہے کہ وہ ان درختوں کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھے۔
ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لیے اس ہاتھ کو استعمال کرنے کے لیے پاس بنتا تھا، جس کی قیمت ہوتی تھی اور اگر کوئی خلاف ورزی کرتا تو اس کے خلاف کارروائی ہوتی تھی، جو جرمانے سے لے کر قید تک ہوتا تھا اور آبپاشی کے ایس ڈی او (Sub Division Officer) جس کے پاس مجسٹریٹ کے پاور ہوتے تھے، اس افسر کے پاس Willys کی جیپ ہوتی تھی اور اوورسیئر کے پاس سائیکل اور اس سے پہلے انھیں گھوڑے ملے ہوئے تھے، جس پر وہ اپنے علاقے میں گشت پر جاتے تھے۔ سائیکل کو ایک ملازم چلاتا تھا جس پر پیچھے کیریئر پر اوورسیئر بیٹھتا تھا اور وہ ملازم 40 سے 50 میل تک سائیکل چلاتا تھا جس کی جسامت بڑی مضبوط ہوتی تھی۔ اوورسیئر جب گھوڑے پر آتا تھا تو اسے گھوڑے کے کھانے کا الاؤنس الگ دیا جاتا تھا۔ ڈیوٹی کے دوران افسر ایک خاکی رنگ کی ڈریس پہنتے تھے جس میں نیچے نیکر اور سر پر بڑا خاکی رنگ کا ہیٹ ہوتا تھا، جس کے بیچ میں کاک ڈلا ہوا ہوتا تھا، جس کی وجہ سے گرمی میں پہننے والے کے سر تک نہیں پہنچ پاتی۔
آبپاشی کے پانی کی منصفانہ Distribution بڑی مشکل نہیں ہوتی تھی، کیونکہ رشوت عام نہیں تھی اور زیادہ سے زیادہ زمیندار اگر افسران کو کچھ دیتے تو اس میں چاول اور گندم کی بوریاں ہوتی تھیں یا پھر بکری وغیرہ۔ افسران بھی ڈیوٹی کے بڑے پابند ہوتے تھے کیونکہ اگر کسی زمیندار نے کوئی ماڈیول (Module) کو توڑا اور پانی چراکر اپنی زمین میں ڈالا تو اس افسران کے لیے بڑا مسئلہ ہوجاتا تھا، مگر کبھی کبھی یہ خلاف ورزی ہوجاتی تھی۔ پانی کی حفاظت کرنے کے لیے افسران ساری رات دریائے سندھ اور کینالز کے ہاتھ پر جاگ کر گزارتے۔ وہ اپنے ساتھ بندوق بھی رکھتے تھے جن کا لائسنس انھیں خاص طور پر دیا جاتا تھا۔ گرمیوں کے موسم میں افسران کی چھٹیاں بند ہوتی تھیں اور وہ صرف 15 دن میں کبھی صبح کو آکر شام تک لوٹ جاتے تھے اور سیلاب کے زمانے میں عید کے موقع پر بھی چھپ کر ایک رات کے لیے آتے بچوں کو کپڑے دلواتے، بال بنواتے، جوتے دلواتے اور عید کی نماز پڑھ کر اپنی ڈیوٹی پر نکل جاتے۔ ڈیوٹی کرنے کا یہ عالم تھا کہ انجینئر اور اس سے بڑے افسران اچانک دورہ کرتے تھے۔
اس وقت آبپاشی کا پانی دیکھنے میں میلا نظر آتا تھا لیکن اس میں بڑی طاقت ہوتی تھی، کیونکہ جہاں سے وہ دریائے سندھ میں گرتا تھا وہاں سے لے کر یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنے ساتھ کئی اقسام کی Minerals ساتھ لاتا تھا، جو مچھلی کی خوراک بھی تھی اور زمین کو طاقت مہیا کرتا تھا۔ اس وقت اس لیے کوئی Fertilizer استعمال نہیں ہوتا تھا۔ اکثر گاؤں اور شہروں میں کنویں ہوتے تھے جنھیں بعد میں بند کرکے ان کی جگہ ہاتھ سے چلانے والے Hand Pump لگائے گئے۔ اب نہ وہ پانی ہے، نہ وہ درخت، نہ ہی وہ نظام اور ہر طرف ہر علاقہ ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی ویرانے میں رہتے ہیں، کہیں بھی وہ ہریالی نظر نہیں آتی، نہروں میں گٹر کا پانی بہہ رہا ہے، کھیتوں کے اوپر گھر بنائے گئے ہیں۔