کیا ’جائیداد‘ کے لیے اولاد ایسا بھی کرسکتی ہے

محلے داروں نے نواز کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی اُس کے دروازے پر دستک دے چکی تھی۔


جیل سے واپسی پر نواز مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ اُس کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی نہیں تھی۔ مجبوراً اُس نے ٹرک ڈرائیور کی نوکری کرلی اور آج وہ ٹرک پر مٹی اور اینٹیں ڈھوتا ہے۔

چوہدری نواز سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور شاید آخری بھی۔ وہ اُس دن کے بعد مجھے نہیں ملا اور نہ میں نے اُسے ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اُس کی کہانی مرتے دم تک میری دماغ کی رگوں میں گھومتی رہے گی اور مجھے ماں کی محبت اور اُس کے وجود کی اہمیت کا احساس دلاتی رہے گی۔ اب میں چوہدری نواز کی کہانی کی طرف آتا ہوں۔

26 اپریل 2009ء کی شام ماں کٹہرے میں کھڑی تھی اور چوہدری نواز اُسے اس کے گناہ بتا رہا تھا۔ امتیاز نے آج پھر گھر میں عدالت لگالی تھی اور خود کو منصف اور ماں کو ملزم نامزد کردیا تھا۔ ماں پر نواز کو خاندانی جائیداد نہ دینے کا الزام تھا۔ نواز نے پہلے ماں کو ظالم، جھوٹی، مکار، خود غرض، لالچی اور قابل نفرت ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔ اُسے بازو سے گھسیٹ کر کمرے سے باہر لایا اور دھکا دے کر گھر سے باہرنکال دیا۔ ماں سڑک پر اوندھے منہ گرگئی تھی۔ اُس کا ڈوپٹہ سر سے اتر چکا تھا۔ قمیض پھٹ چکی تھی اور عینک راہ گیروں کے پیروں تلے کچلی جا چکی تھی۔ نواز یہ منظر دیکھ رہا تھا لیکن اُسے اپنی جنت کی بے حرمتی کا ذرا بھی ملال نہیں تھا۔ وہ آج بدبختی اور بدنصیبی کی معراج کو چھو رہا تھا۔ محلے داروں نے نواز کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن بدقسمتی اُس کے دروازے پر دستک دے چکی تھی۔ اُس نے ماں کو گھر پر رکھنے سے انکار کردیا اور شرط عائد کی کہہ پہلے یہ آبائی زرعی زمین میرے نام کرے پھر وہ اُس گھر میں آسکتی ہے۔

نواز اِس سے پہلے پندرہ سو ایکڑ زمین اِسی طرح ماں پر ظلم کرکے اپنے نام کروا چکا تھا۔ یہ آخری زمین کا ٹکڑا اُس کی ماں کا آخری سہارا تھا، اور اِسی کی آمدن سے ماں روکھا سوکھا گزر اوقات کر رہی تھی۔ چناچہ ماں نے زمین کا آخری ٹکرا بیٹے کو نہ دینے اور اپنی بیٹی کے گھر رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ بیٹی غریب تھی، لیکن ماں کی عزت اور توقیر سے واقف تھی۔ اُس نے دن رات ماں کی خدمت کی اور چند ماہ میں اُس کے گھر کے حالات بدل گئے۔ اُس کے شوہر کی ترقی ہوگئی اور اُنہیں کمپنی کی طرف سے نیا گھر بھی مل گیا۔ بیٹی بہت خوش تھی لیکن ماں ابھی تک بیٹے کی جدائی کا غم نہیں بھولی تھی۔ اتنے ظلم سہنے کے بعد بھی وہ آج اپنے بیٹے کے پاس جانا چاہتی تھی، اس کی ترقی کی دُعایں کرتی اور ہر آنے جانے والے سے اپنے بیٹے کی خیریت دریافت کئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ لیکن بیٹا ماں کو ساتھ رکھنے کو تیار نہیں تھا۔

وقت گزرتا گیا اور ماں اچانک بیمار ہوگئی۔ بیٹے کو اطلاع دی گئی لیکن بیٹے نے ماں سے ملنے سے انکار کردیا۔ ماں مرنے سے پہلے بیٹے کو دیکھنا چاہتی تھی لیکن اُس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی اور یوں وہ بیٹے کو دیکھے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوگئی۔ بہن نے فون پر نواز کو اطلاع دی کہ ہماری ماں مرگئی ہے۔ عصر کی نماز کے بعد جنازہ ہے تم آجاؤ۔ اپنی ماں کو آخری مرتبہ دیکھ لو۔ نواز نے جواب دیا کس کی ماں اور کیسی ماں۔ میری ماں تو اُسی دن مرگئی تھی جب اُس نے مجھے جائیداد دینے سے انکار کیا تھا۔ جو آج مری ہے وہ تمہاری ماں ہے میری نہیں۔ چناچہ جس بیٹے کی پیدائش کے لیے ماں نے گاوں کے ہر دربار میں منتیں مانی تھیں چڑھاوے چڑھائے تھے، پورے گاوں میں موتی چور کے لڈو بانٹے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جسے ماں اپنے بڑھاپے کا واحد سہارا سمجھتی تھی آج وہ بیٹا زمین کے ایک ٹکڑے کی وجہ سے ماں کے جنازے کو کندھا دینا تو دور وہ مری ہوئی ماں کی شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔

چناچہ ماں کو عصر کی نماز کے بعد دفنا دیا گیا۔ لیکن ماں کے دنیا سے جاتے ہی نحوست کی دیوی نے نواز کے گھر کا راستہ دیکھ لیا۔ نوازنے گاڑیوں کا کاروبار شروع کیا تو پارٹنر ساری رقم لے کر دبئی فرار ہوگیا۔ پراپرٹی میں پیسے لگائے تو وہ پلاٹ پہلے سے تین جگہ بک چکا تھا۔ رینٹ اے کار کا کاروبار شروع کیا تو گاڑی خودکش حملے میں استعمال ہونے کے الزام میں دہشت گردی کے پرچے میں جیل چلا گیا۔ جیل سے رہائی کیلئے کوئی آسرا نہیں تھا۔ گھر بیچا وکیلوں اور ججوں کو پیسہ کھلایا اور تین ماہ بعد جیل سے رہا ہوگیا۔ اِس دوران اُس کی بیوی نے اُس کے چاروں بچوں کو یتیم خانے داخل کروا دیا اور عدالت میں خلاء کی درخواست دے کر طلاق لے لی۔

جیل سے واپسی پر نواز مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ اُس کے پاس کھانے کے لئے دو وقت کی روٹی نہیں تھی۔ مجبوراً اُس نے ٹرک ڈرائیور کی نوکری کرلی اور آج وہ ٹرک پر مٹی اور اینٹیں ڈھوتا ہے اور اپنی اِس حالت کا ذمہ دار ماں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو ٹھراتا ہے۔ چوہدری نواز کی کہانی ختم ہوچکی تھی۔ وہ ماں کی قبر کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ شام ڈھل رہی تھی۔ موذن آذان دے رہا تھا۔ پرندے موذن کی آواز کے اتار اور چڑھاو کے ساتھ پرواز کر رہے تھے لیکن ماں کی نافرمانی کے پچھتاوے کا غم نواز کے دماغ کی نسوں کوچیرتا ہوا اُس کی آنکھوں میں اُتر رہا تھا اور آنسووں کی جھری بن کر اُس کے چہرے پر بہہ رہا تھا۔ وہ ہچکیوں کے ساتھ رو رہا تھا اور لڑکھتی آواز کے ساتھ کہہ رہا تھا کہ ماں کی نافرمانی کا نتیجہ دنیا میں ذلت ناکامیوں اور پچھتاوے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔

مجھے جب جب چوہدری نواز کی کہانی یاد آتی ہے میری روح کانپ اٹھتی ہے، میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور میری آنکھیں شدت غم سے بھر آتی ہیں۔ میں اپنی ماں کے قدموں میں جاکر بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے اُس وقت ماں کی صحبت دنیا کی تمام نعمتوں سے افضل محسوس ہوتی ہے اور مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ میں اِس احساس کی قیمت ساری زندگی ماں کی خدمت کرکے بھی ادا نہیں کرسکتا۔ میری دعا ہے کہ میں جب تک زندہ رہوں اپنی ماں کے قدموں کے سائے میں رہوں، میری ذات سے انہیں کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ وہ ہمیشہ مجھ سے راضی رہیں۔ میں اُن کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون بن سکوں، انہیں جب بھی میری ضرورت پڑے میں اُن کی خدمت میں حاضر ہوسکوں اور اُن کی دعائیں ہمیشہ میری حفاظت کرتی رہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔