دو بھارتی ناریاں
اسلام عورت کو آزادی دینے اور کسی کو بھی آوارگی کرنے کی ممانعت کی روشنی میں قانون سازی کرتا ہے۔
دو بھارتی ناریاں کیا کہہ رہی ہیں؟ انھوں نے دھماکہ خیز بیانات دیے ہیں، دونوں خواتین کی باتیں ایک ہی دن کے اخبارات کی زینت بنی ہیں۔ ایک حکمران پارٹی کی لیڈر ہیں تو دوسری ایک مشہور اداکارہ۔ سونیا گاندھی کا بیان پہلے صفحے کی رونق بنا اور فلمی صفحے پر بھارتی ہیروئن کرینہ کپور نے ویسی ہی بات کہی۔ دونوں کی گفتگو کا مرکز وہ 23 سالہ طالبہ ہے جسے زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس خون نے بھارتی معاشرے کے دھبے دنیا پر ظاہر کر دیے۔
ہندوستان کی صف اول کی سیاستدان اور نمبر ون قرار پانے والی اداکارہ نے بھارتی فلموں کو اپنے معاشرے کی گراوٹ کا سبب قرار دیا۔ بھارتی لڑکی کے قتل پر ہم نے تین جنوری کو ''آزادی اور آوارگی'' کے نام سے کالم لکھا تھا۔ آج ہم دو بھارتی ناریوں کے بیانات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ عورت کا رویہ معاشرے میں کیسا ہونا چاہیے؟ مرد صنف نازک سے کس قسم کا سلوک کرے؟ خواتین کی بے حرمتی کرنے والے کو مریض قرار دے کر اس پر رحم کیا جائے؟ بے شرم مرد کو عبرت کا نشان بنا دیا جائے؟ آج کا کالم صنف نازک کو ان نازک سوالوں کے جواب دے گا۔ ہماری گفتگو کا مرکز وہ گفتگو ہو گی جو دو مشہور ہندوستانی ناریوں نے اپنے وطن کی گنگا جمنی ناریوں کے بارے میں کی ہے۔ فلمیں معاشروں میں کس طرح بگاڑ پیدا کرتی ہیں؟ جب دونوں کا الزام انڈین سینما پر ہے تو اس کا تجزیہ بھی لازمی ہے۔
سونیا گاندھی کو بھارتی فلموں سے شکایت ہے، ہالی وڈ کے نام کی نقل کے بعد اب کام کی نقل کرتا بالی وڈ ان کے الزامات کی زد پر ہے۔ اسی ممبئی نگری کی فلمی ثقافت کے ذریعے پاکستانیوں کے ذہنوں کو فتح کرنے کا دعویٰ کرنے والی سونیا اب دفاعی پوزیشن پر آ گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں خود کو محفوظ اور آزاد سمجھیں۔ طالبات سے زیادتیوں کو انھوں نے ناقابل برداشت قرار دیا۔ ہنرمندی، ٹیکنالوجی، زہد شکن گلیمر اور روپے کی فراوانی لیے بھارتی فلمیں ہر ہندوستانی کے لیے دلچسپی کا باعث ہیں۔ ہفتے بھر میں سو سو کروڑ کا بزنس کرنے والی فلموں کی عریانی، فحاشی اور بے حیائی گوروں کو مات دینے چلی ہے۔ پیار محبت کو نوجوانوں کا حق قرار دینے اور شادی سے قبل تعلقات کی حوصلہ افزائی برصغیر کی فلموں کا موضوع رہا ہے۔
اس طرح کہ اخلاقیات کا درس دینے والوں کو ظالم سماج اور ولن قرار دیا جاتا تھا۔ یہ پچاس اور ساٹھ کے عشروں کی فلموں کا دور تھا۔ پھر فلمی ہیروئن کو کم، باریک اور چست لباس میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہالی وڈ سے بمبئی اور پھر لاہور کی فلم نگری نے بھی یہی رنگ اختیار کیا۔ بن بیاہی ماڈل کی فلموں کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جاتی، کالج کے طلبا و طالبات کو پکنک پر جاتے دکھایا جانا، پیار و محبت، فلمی گانوں سے ہوتی ہوئی اور ظالم سماج کو برا بھلا کہتی فلمیں ہیرو، ہیروئن کی شادی پر ختم ہوتیں۔ نوجوانوں کو خیالی دنیا میں پہنچاتی برصغیر کی یہ فلمیں ایک نازک مقام پر آ گئی ہیں۔ اب بھارتی معاشرہ سوچنے لگا ہے کہ اس گھوڑے کو کس طرح لگام ڈالی جائے جسے انھوں نے خود ڈھیل دی تھی۔ ایسے میں مسز سیف کا بیان آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔کرینہ کپور نے برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کو چونکا دینے والی بات کہی ہے۔
اس بیان پر ہمارے ملک کے ترقی پسند حضرات اور حقوق نسواں کی علمبردار خواتین کو ضرور غور کرنا چاہیے۔ مغرب کی اندھا دھند نقل کرتے بھارتی معاشرے نے نقصانات کا تھوڑا سا اندازہ لگایا ہے۔ پاکستانی معاشرے کو اسی سمت دھکیلنے والے دانشوروں اور آزاد خیال بیگمات کو کرینہ کے بیان کی گہرائی تک جانا چاہیے۔ بھارتی فلمی ہیروئن کہتی ہیں کہ ''وہ جذبات بھڑکانے والے آئٹم کسی فلم میں نہیں کریں گی۔'' اس سے قبل دو بھارتی اداکارائیں بھی فحش رقص کرنے سے تائب ہو چکی ہیں۔ اداکارائیں ایسے ناچ گانوں سے انکار کر رہی ہیں جس سے فلم دیکھنے والوں کے جذبات میں تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور پھر معاشرے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان اداکاراؤں کے فیصلے میں دہلی کا وہ اندوہناک واقعہ ہے جس میں میڈیکل کالج کی طالبہ کو زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد بالی وڈ کی فلم انڈسٹری شدید تنقید کی زد میں آ گئی۔ الزام ہے کہ ایسی فلمیں معاشرے میں تشدد و جنسی جرائم کا سبب ہیں۔ کرینہ کپور نے اعلان کیا ہے کہ ''وہ آیندہ بے ہودہ رقصوں سے پرہیز کریں گی'' یہ ہے وہ بیان جو آزادی، بے راہ روی، آوارگی، عریانی و فحاشی کا پرچار کرنے والوں کو شرمندہ کر دیتا ہے، کسی سطح پر بند نہ باندھنے کے طرفداروں کو یورپ کے بعد اب بھارتی معاشرے کے بگاڑ کے بعد اپنی رائے کی مضبوطی پر غور کرنا چاہیے۔ پردے کے احکامات اور اسلامی سزاؤں پر تنقید کرنے والوں کو بھارتی معاشرے کی خرابیوں کا کوئی حل تجویز کرنا چاہیے۔ حل... جی ہاں! حل اگر کسی کے پاس ہے؟ آئیے ہم پہلے بیماری سمجھتے ہیں اور پھر شفا کے لیے نسخہ کیمیا کی جانب بڑھیں گے۔بھارتی اور مغربی معاشرے بدکاری اور ریپ (Rape) کو الگ الگ شمار کرتے ہیں۔
وہ رضامندی کو رعایت دیتے ہیں اور جبر کو ناگوار سمجھتے ہیں۔ یہی ان کے معاشروں کی بیماری کی وجہ ہے۔ اسلام دونوں کو ایک قرار دیتا ہے۔ باہمی رضامندی سے کیے گئے غلط کاموں کو آزاد معاشرے کم تر گناہ سمجھتے ہیں۔ وہ صرف شادی شدہ مرد و عورت کی ایک دوسرے سے بے وفائی کو برا سمجھتے ہیں۔ وہ زنا کو بدتر سمجھنے کے بجائے کسی انسان کو دھوکا دینے کو برا گردانتے ہیں۔ دین فطرت دونوں جرائم کو سنگین قرار دیتا ہے۔ جب اسلام زنا اور بدکاری کو گناہ قرار دیتا ہے تو پہلے اسے روکنے کے لیے احتیاطی تدابیر بیان کرتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کی الگ الگ دنیا، اگر واسطہ پیش آ ہی جائے تو وقار و حیا کے ساتھ، مرد کی نگاہیں نیچی اور عورت کا حجاب۔ یوں اسلام پہلے جرم نہ ہونے کی تدبیر اختیار کرتا ہے۔ پھر جلد از جلد شادی، طلاق یافتہ و بیوہ کو نکاح ثانی کا حق، جہیز کم سے کم اور خاندانی نظام کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
اس کے بعد چند فتنوں کو ختم کرنے کی راہ دکھاتا ہے۔ نظر، زبان، آواز اور خوشبو کے فتنے۔ لباس، جذبہ نمائش حسن پر ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ باطن کی اصطلاح کرتا ہے۔ عریانی و فحاشی کو ناپسندیدہ قرار دینے کے بعد بھنورے نما مردوں کی چمڑی ادھیڑ دینے کی قانون سازی کرتا ہے۔ مولانا مودودی کی شاہکار کتاب ''پردہ'' کا ان چند سطروں میں احاطہ نہیں ہو سکتا۔ یورپ، امریکا اور بھارت کے معاشرے پہلے جراثیم کا اسپرے کرتے ہیں اور جب مرض بڑھ جاتا ہے بلکہ حد سے بڑھ جاتا ہے تو علاج کے لیے ہاتھ پاؤں مارتے ہیں۔
اسلام عورت کو آزادی دینے اور کسی کو بھی آوارگی کرنے کی ممانعت کی روشنی میں قانون سازی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ترقی پسند دانشوروں کا منہ مغربی پروپیگنڈے، لبرل ازم اور روسی کمیونزم نے کڑوا کر دیا ہے۔ اب میٹھے ذائقے کی کوئی چیز انھیں پسند نہ آئے تو کوئی کیا کرے؟انڈین فلموں سے بات کی ابتدا ہوئی تھی جنہوں نے ہندوستانی معاشرے کو دیمک زدہ کر دیا ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والی ہر بھارتی ناری اپنے ہم وطن بھیڑیئے سے خوفزدہ ہے۔ اس انسان کو درندہ ان کی فلموں نے بنایا ہے۔ ایران کی طرح کی عمدہ اور شائستہ فلمیں بنا کر شاہکار فلموں کا خطاب پایا جا سکتا ہے۔ سونیا اور کرینہ اس ترکیب سے ناواقف ہیں، اسلام کا سا معاشرہ اور ایران کی سی فلمیں۔ ایک سیاست دان اور ایک اداکارہ کی بے چینی اور بے قراری کا یہی حل ہے اگر سمجھیں دو بھارتی ناریاں۔