کھانا کھانے کے لیے کچھ لوگ زندہ ہیں آخری حصہ
کھانے میں بھی نشہ ہے جس کی وجہ سے ہم سست اورکاہل ہوجاتے ہیں
آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب کسی سیاسی تنظیم کی طرف سے کوئی پروگرام ہوتا ہے اور اس میں کھانے کا بندوبست بھی ہوتا ہے تو لوگ اتنے بے صبرے ہوجاتے ہیں کہ ابھی پروگرام چل ہی رہا ہوتا ہے تو شرکا کھانے کی طرف بھاگتے ہیں اور دیگیں الٹ دیتے ہیں، ڈش میں بھری ہوئی بریانی زمین پر گرجاتی ہے۔
لوگ آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں ایک دوسرے سے کھانا چھیننے میں لگ جاتے ہیں اورکھانا اس طرح کھاتے ہیں جیسے پہلے کبھی نہیں کھایا ہو۔ یہ ساری صورتحال ٹی وی پر دیکھ کر حیرانی اور پریشانی ہوتی ہے کہ کیا ہم لوگ صرف کھانے کے لیے زندہ ہیں۔ سرکاری تقریبات میں بھی یہی صورتحال ہوتی ہے مگر سب سے سرفہرست بدنظمی کرنیوالے پولیس، افسران کے ڈرائیور ہوتے ہیں۔
ایک تقریب میں جب کھانا ٹیبل پے لگایا گیا تو ایک صاحب نے ڈونگے کے پورے سالن کو اپنی پلیٹ میں ڈال دیا اور باقی لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ بھٹو کے زمانے میں جب شیخ زید وومن اسپتال لاڑکانہ کا افتتاح ہوا تو اس کے بعد وہاں پرکھانے کا بندوبست بھی تھا۔ جیسے ہی ڈونگے میں رکھی ہوئی پوری مرغی لوگوں کے آگے رکھی تو اچانک آمنے سامنے والے دونوں بندوں نے مرغی کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا جس کے نتیجے میں مرغی کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اس کی چھینٹوں نے برابر بیٹھے ہوئے افراد کے کپڑوں کو داغ دار کردیا۔
یہ عالم دیکھ کر ان دونوں حضرات نے مرغی کے ٹکڑے واپس ڈونگے میں رکھ دیے اور بڑے شرمندہ ہوئے۔ میرے ایک بڑے اچھے دوست ہیں جو سمجھانے کے بعد بھی نہیں مانتے اور جب ان کے سامنے کھانا آتا ہے تو وہ پورا کھانا بغیر چبائے پیٹ میں ڈالتا ہے اور ہمیشہ اپنے کپڑے خراب کردیتا ہے۔ اس کا وزن دن بہ دن بڑھتا گیا اور آخری انجام تک وہ چلنے پھرنے کے لیے ترستا تھا۔
اس سے بڑھ کر اور بات کیا ہوگی کہ میں جب اپنے کئی دوستوں کے ساتھ فل کڑھائی کی دعوت میں جاتا ہوں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ جیسے ہی کڑھائی پہنچتی ہے دوست اس گرم مرغی یا پھر گوشت کی بوٹی کو ایک دم منہ میں ڈال کر گرم روٹی کے ساتھ پیٹ کی طرف دھکیل دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ٹھنڈی بوتل کے گھونٹ پی رہے ہوتے ہیں جب کہ میں ایک بوٹی اٹھا کر اسے ٹھنڈا کرنے میں لگا رہتا ہوں جس کی وجہ سے مجھ سے پہلے باقی دوست پوری کڑھائی چٹ کردیتے ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ انھیں سمجھایا ہے کہ گرم کھانے سے دانت کمزور ہوجاتے ہیں اورگلا اور پیٹ میں مسائل پیدا ہوتے ہیں اور پھر گرم کھانے کے اوپر ٹھنڈی بوتل پینا ایسا ہے جیسے زہر پینا ہے۔
میں اپنے بچوں کو جب سمجھاتا ہوں تو وہ بھی کہتے ہیں کہ آپ دیکھیں پوری دنیا سب کچھ اسی طرح کھا رہی ہے جس میں ڈاکٹرز اور ان کی فیملی بھی شامل ہے، اگر غلط ہے تو پھر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ صرف میں نے چند لوگوں کو دیکھا ہے جو اعتدال کے ساتھ کھاتے ہیں اور زیادہ تر گرل پر پکے ہوئے گوشت کی ایک بوٹی، مسالہ سے پاک کھانا جس کے چند نوالے، فریش جوس کا ایک گلاس لیتے ہیں۔
یہ لوگ جن میں سیاستدان، بڑے پائے کے افسر، ادیب، مفکر، مدبر اور سائنسدان شامل ہیں۔ میں سیاسی پروگراموں میں یا پھر سرکاری تقریبات میں ان حضرات کے ساتھ کھاتا ہوں جہاں پر کوئی کھانے کے اور ہنگامہ، جلدبازی یا پھر چھینا جھپٹی نہیں ہوتی۔
میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ زیادہ کھانا کھاتے ہیں وہ اپنی زندگی کو مختصر کر رہے ہیں کیونکہ زیادہ اور مرغن مسالہ دار کھانا کھانے سے ہاضمے کا نظام خراب ہوتا ہے اور انسان کے اندر جو کھانے کو ہضم کرنے والے عوارض ہوتے ہیں وہ کمزور پڑ جاتے ہیں جن سے موٹاپا بھی ہوتا ہے کیونکہ جو ہم کھانا کھاتے ہیں اس سے جسم میں چربی پیدا ہوتی ہے جسے ہم جب تک جلائیں گے نہیں تب تک اس میں سے انرجی نہیں بنے گی۔ جس کے لیے ہمیں صبح اور شام کو واک کرنی ہوگی، مگر ہم لوگ صبح سے رات تک گھر، دفتر اور گاڑیوں میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو پھر ہم اپنے آپ کو شوگر، بلڈ پریشر، السر، اورکئی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
کھانے میں بھی نشہ ہے جس کی وجہ سے ہم سست اورکاہل ہوجاتے ہیں، زیادہ کھانا کھانے والا کم عقل مند ہوتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ پہلوان یا پھر زیادہ طاقت رکھنے والے لوگ ادیب، مفکر، محقق اور مدبر نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ دبلے پتلے ہوتے ہیں اور صرف زندہ رہنے کے لیے کچھ کھانا کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی سوچ اور ذہن زیادہ ایکٹیو ہوتا ہے۔
یہ لوگ ایک تو گوشت خور نہیں ہوتے اور زیادہ تر سبزیاں، سلاد یا پھر ڈبل روٹی، پاپے یا بسکٹ کھاتے ہیں ان کی فگر بہت اچھی ہوتی ہے۔ زیادہ کھانا کھانیوالے اکثر آپ کو دفتر،گھر اور بس میں اونگتے نظر آئیں گے۔ جب ان کا وزن زیادہ بڑھ جاتا ہے اور کولیسٹرول بڑھ جاتا ہے پھر وہ بڑے لوگ گھروں میں ورزش کرنے کی مشینیں لے آتے ہیں مگر وقت نہ ہونے کی وجہ سے وہ گھر میں ہی پڑی رہتی ہیں۔ پارک میں واک کرنے جاتے ہیں مگر وہ واک نہیں کرتے جس سے ان کے جسم کی چربی نہیں گلتی اور پھر ڈاکٹروں کے چکروں میں ادویات کھاتے کھاتے کئی اور سائیڈ ایفکٹس والی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
اگر کوئی زیادہ کھانے کا شوقین ہے تو اسے مزدور ہونا چاہیے، سائیکل چلانی چاہیے، پیدل چلنا چاہیے اور یہ ممکن نہیں ہے۔ مزدوروں کو آپ دیکھیں ان کا پیٹ بڑھا ہوا نہیں ہوتا اور وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ جانوروں میں آپ شیر کو لے لیں جس کے پاس طاقت تو ہوتی ہے مگر اس کی عمر کم ہوتی ہے اور عمر بڑھنے کے بعد وہ ہانپتا ہے اور کئی بیماریوں میں گھر جاتا ہے اور جلدی مر جاتا ہے۔ شیر اور دوسرے گوشت خور جانوروں کے مقابلے میں گھاس کھانے والے جانوروں میں ہاتھی کو دیکھیں جس کی کتنی لمبی عمر ہوتی ہے اور اس میں طاقت بھی ہے۔
خدارا کم کھائیں، واک کریں اور مسالہ دار اور مرغن کھانوں سے اپنے آپ کو دور رکھیں اور لمبی عمر اور اچھا ذہن پائیں ورنہ پھر شہر میں جتنے گوشت کے ہوٹلز ہیں ان سے زیادہ اسپتال ہیں، میڈیکل اسٹورز ہیں اور ہماری آدھی سے زیادہ آمدنی ڈاکٹروں اور ادویات میں خرچ ہوجاتی ہے اور سکون بھی چھن جاتا ہے۔ ہمیں طاقت نہیں عقل کی ضرورت ہے جس سے ہم اپنے خرچے بھی کم کرسکتے ہیں اور کھانے کا زیاں بھی روک سکتے ہیں۔