اسٹیبلشمنٹ کا حاکمانہ مائنڈ سیٹ بلوچستان کے مسائل کی وجہ ہے

بلوچستان کبھی برصغیر کا حصہ نہیں رہا انگریز بھی بلوچستان پر حکومت نہیں کرسکے تھے،ایکسپریس فورم میں شرکا کے خیالات۔


بلوچ عوام کی محرومیاں بھی بڑی ہیں۔ وہاں کا عام آدمی آزاد نہیں ہورہا، ایکسپریس فورم میں شرکا کے خیالات۔ فوٹو : فائل

بلوچستان ایک عرصہ سے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ہاں پر ایک طرف اندرونی طورپر شورشیں سر اٹھائے کھڑی ہیں اور دوسری طرف غیرملکی طاقتیں قدرتی وسائل سے مالا مال اس علاقے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

وہ طاقتیں جن کی آنکھ میں ملک پاکستان کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے وہ اس میں کسی بھی صورت امن و سکون ، ترقی و خوشحالی نہیں دیکھنا چاہتیں، ان کی تمام تر کوشش ہے کہ اس صوبے کو انتشار و بدامنی سے دوچارکیا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنے وسائل بھی استعمال کرتی ہیں اور یہاں کی افرادی قوت کو بھی اپنے جال میں پھنساکر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں ۔

ملک کے اہم عہدوں پر تعینات اور حساس مناصب پر فائز رہنما بھی کبھی کھلے بندوں اور کبھی مصلحت میں لپٹے الفاظ میں اس امر کا اظہارکرچکے ہیں کہ اس صوبے کا امن تلپٹ کرنے اور یہاں دہشت گردی کی وارداتوں میں غیر ملکی ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی بلوچستان میں شہریوں کی پُراسرار گمشدگی ، ٹارگٹ کلنگ اور لوٹ مار کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کااظہار کیا ہے ۔ حال ہی میں وہاں شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کو انتہائی بے رحمانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس پر صوبہ بلوچستان ہی نہیں پورے ملک میں شدید احتجاج ہوا ۔

صوبے میں حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی ۔ چنانچہ ہر طرف سے ناکامی کے بعد وفاقی حکومت نے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرنے کافیصلہ کیا ۔حکومت کے اس فیصلے سے صوبے کی صورت حال میں کس حدتک بہتری آنے کا امکان ہے اور یہاں عام آدمی کو کہاں تک تحفظ ملتا ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ملک کے ہر شہری کے ذہن میں پائے جاتے ہیں اور فوری طورپر جواب چاہتے ہیں۔سو ''ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال اور بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ''کے موضوع پر گزشتہ دنوں ایکسپریس فورم کااہتمام کیاگیا جس میں اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماوں نے اظہار خیال کیا۔فورم کی رپورٹ نذر ِ قارئین ہے ۔

ڈاکٹرعبدالحئی بلوچ
(مرکزی رہنما نیشنل پارٹی پاکستان)
ہم نے انگریز سے چھٹکارہ تو حاصل کرلیا مگر تسلسل اسی نظام کا چل رہا ہے، ہم محکوم قوم ہیں جبکہ حکمران ایک خاص طبقہ ہے جو بندوق کے زور پر عالمی نظام کو ہم پر مسلط کررہا ہے۔ تاریخ دیکھیں تو بلوچستان کبھی برصغیر کا حصہ نہیں رہا انگریز بھی بلوچستان پر حکومت نہیں کرسکا تھا بلکہ خان آف قلات کے ساتھ مل کر کچھ حصے کو لیز پر لیا تھا جس کی رقم خان آف قلات کو دی جاتی تھی اس کے باوجود بلوچوں نے اپنی ایک الگ پہچان رکھی۔ پاکستان میں شمولیت کے بعد سے ہی بلوچوں کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ نواب زادہ عبدالکریم نے بغاوت کی تو انہیں قرآن کے نام پر سمجھوتے کا کہہ کر پہاڑوں سے نیچے بلایا گیا اور گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیااس کے بعد 58ء میں فوجی حکومت نے آپریشن کیا ۔

دوسری چڑھائی 62ء میں پھر 1974اور2005ء میں آپریشن سمیت کل ملا کر بلوچستان پر پانچ دفعہ فوجی آپریشنز میں نہتے بلوچوں پر چڑھائی کی گئی، جن میں سینکڑوں بلوچ شہید ہوئے۔ اس کی وجہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جس کی قیادت فوج کرتی ہے اور اس کی وجہ سے ہم اپنے وسائل واختیارات سے محروم ہیں۔ ہم پر بدترین نوآبادیاتی نظام رائج ہے۔ بلوچ قوم اپنے وسائل پر اختیار نہیں رکھتی، بلوچ گیس ، ریکوڈک اور سینڈک کے وسائل چاہتے ہیں۔ سوئی گیس 1952 ء میں بلوچستان میں دریافت ہوئی مگر کوئٹہ کو گیس 1985ء میں دی گئی وہ بھی اس لئے کہ وہاں فوجی چھاؤنی ہے اگر فوجی چھاؤنی نہ ہوتی تو آج بھی وہاں گیس نہ ہوتی۔ بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں کی تعداد میںمسلسل اضافہ کیا گیا۔

لورالائی، سبی، سوئی، ژوب سمیت بہت سی جگہیں جہاں پہلے چھاؤنیاں نہیں تھیں اب بنادی گئی ہیںاور کوسٹل ہائی وے پر بھی چھاؤنی بنانے کا منصوبہ ہے۔ یہ جو پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں سرداری نظام ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے تو صرف تین سردار اکبر بگٹی، عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری کو چھوڑ کر99 فیصد سردار تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہیں۔ گیس کی آمدنی ہمارے پاس نہیں ، سینڈک کی آمدنی ہمارے پاس نہیں ، ریکوڈک میں بھی ہمیں کچھ نہیں دیا گیا تھا ہمیں اپنے وسائل پر دسترس نہیں تو بتائیں کہ ہمارے پاس کونسا رستہ رہ جاتا ہے۔جمالی کے علاقے سے نکلنے والے کوئلے پر بالا دست اسٹیبلشمنٹ کا کنٹرول ہے اور وہ اس سے کاروبار کررہی ہے۔ ملک کے 97فیصد وسائل پر 3فیصد لوگ قابض ہیں جبکہ باقی 97فیصد لوگوں کو 3فیصد پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔

گوادر میں کالونیاں بنانے کے نام پر مڈل کلاس کے اربوں روپے ایک مخصوص طبقہ نے اپنی جیب میں ڈال لیے، جس طرح کراچی میں انڈسٹری لگائی گئی تاکہ وہاں دیگر شہروں سے لوگ لاکر آباد کئے جائیں اسی طرح بلوچ یہ سمجھتے ہیں کہ گوادر میں غیر بلوچوں کو آباد کرکے ان کی آبادی کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہمیں ریڈ انڈین بنایا جارہا ہے۔ہم نے انگریز کے خلاف بھی مزاحمت کرکے قبضہ کرنے سے بچایا تھا یہ بھی انگریز کا مائنڈ سیٹ ہے اس کے خلاف بھی مزاحمت کریں گے۔ بلوچستان میں 80 فیصد بلوچ رہائش پذیر ہیں مگر اب افغان مہاجرین کے ذریعے ہمیں اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مذہبی فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی ہیں، صورتحال بڑی خطرناک ہے ہم بھی مذہبی ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں مگر جنونی نہیں ہیں۔

ہمارے ہزاروں نوجوان لاپتہ ہیں، ان میں سے اکثر پڑھے لکھے ہیں کوئی ڈاکٹر ہے توکوئی انجینئر کوئی صحافی ہے تو کوئی استاد، ہم یہ نہیں کہتے کہ انہیں چھوڑ دیں ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں بتائیں وہ کہاں ہیں ۔ زندہ ہیں یا مار دیئے گئے، ان میں سے اگر کوئی باغی ہے تو اس پر آئین کے مطابق مقدمات چلائے جائیں اور اگر وہ گناہگار ہیں تو انہیں عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلائی جائیں۔ سپریم کورٹ بھی بار بار کہہ چکی ہے کہ لاپتہ افراد کو پیش کیا جائے مگر سپریم کورٹ کی بھی کوئی نہیں سن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت میں اگر کوئی تبدیلی لانی تھی تو ان ہاؤس لائی جاتی اسمبلی توڑنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ بلوچستان میں باقاعدہ فوج یا پیراملٹری فورس استعمال کی جائے۔ اسٹیبلشمنٹ کا مائنڈ سیٹ ہے جو چاہتا ہے ہم محکوم رہیں۔ وہاں ایک لنگڑی لولی حکومت تھی وہ بھی ختم کردی گئی سرزمین بلوچستان ہماری ماں ہے ہم اسے سمجھتے ہیں اور ہم ہمیشہ اپنی زمین کی حفاظت کریں گے۔

لیاقت بلوچ
( سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان)
لانگ مارچ اور وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم کی وجہ سے موجودہ صورتحال میں ملک پہلے سے بھی زیادہ بڑے بحرانوں سے دوچار ہوگیا ہے۔ لانگ مارچ اور احتجاج ہر پارٹی کا حق ہے، عدالتی فیصلہ بھی غیر متوقع نہیں ہے کیونکہ لوگ غیر محفوظ ہیں، وہ کرپشن ، بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ حالیہ دھرنے اور عدالتی حکم کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونا چاہیے۔اب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے پاس مزید اقتدار میں رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں رہا اور اقتدار سے مزید چمٹے رہنے سے خرابی پیدا ہوگی۔ صدر زرداری اور حکومتی اتحاد تسلیم کرلے کہ معاملہ اب انکے ہاتھ سے نکل چکا ہے اس لیے انہیں چاہیے کہ فوری طور پر انتخابات کا اعلان کردیں۔عبوری حکومت بھی قومی ہونی چاہیے۔کراچی کے عوام کو بھی آزادانہ انتخاب کا موقع ملنا چاہیے۔

اگر جماعتیں لوگوں کے جمہوری حق کو اصل ٹارگٹ رکھیں گی تو یہ بحران بھی ٹل جائیگا۔ قومی قیادت اگر ویژن کے ساتھ فیصلے کرے تو پائیدار جمہوریت ملک کو مل سکتی ہے اور خطرات بھی ٹل سکتے ہیں۔ بلوچستان میں حکومت ناکام تھی ۔ وزیراعلیٰ بے حس آدمی تھا جس میں کوئی انسانی اقدار نہیں تھیں جبکہ وفاقی حکومت نے بھی گورنر راج نافذ کرنے میں دیرکی۔ مسنگ پرسنز کا معاملہ بھی بڑا خراب ہوچکا ہے۔ پنجابی، سیٹلرز، پشتون، بلوچ قیادت، اہل تشیع سبھی وہاں ٹارگٹ پر ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی وہاں کوئی رٹ قائم نہیں ہوسکی۔وہاں اب بھی فوج اور پیراملٹری فورسز کا کنٹرول ہے جبکہ موجودہ سول حکومت کرپشن اور اپنی نااہلی کی وجہ سے لوگوں میں اہمیت حاصل نہیں کرسکی۔ بلوچستان میں فوجی آپریشن نے عوام کے اعتماد کو ختم کردیا ہے۔

عوام کے معاشی اور سیاسی حقوق کا تحفظ کیا جائے جس کا وہاں بحران ہے ، وہاں عوامی اعتماد بحال کیا جائے اور بلوچ عوام کے سیاسی حقوق تسلیم کئے جائیں۔ ایک ایسا قومی جرگہ بنے جس میں غیر جانبدار شخصیات ہوں جو حکومت، فوج اور ناراض بلوچوں کے مابین پل کا کام کریں۔ صدر مملکت نے بلوچوں سے معافی بھی مانگی، این ایف سی ایوارڈ میں بھی تین صوبوں نے قربانی دے کر بلوچستان کو اہمیت دی اسکے باوجود وہاں امن قائم نہیں ہوسکا۔ وہاں کے وسائل پر وہاں کے عوام کا حق تسلیم کیاجائے۔ لاپتہ افراد کی مکمل بازیابی ہونی چاہیے، جو افراد پہاڑوں پر چلے گئے یا دیگر ممالک کو چلے گئے اورجن کے بارے میں وزیرداخلہ رحمن ملک نشاندہی کرتے ہیں کہ انہیں دہشت گردوں اور دشمن ملک کی حمایت حاصل ہے انہیں اعتماد میں لایا جائے اور واپس بلوایا جائے۔

مینگل کا سپریم کورٹ میں پیش ہونا اور اپنی بات سامنے رکھنا اچھی بات ہے جبکہ بلوچ رہنما جو پنجاب آکر مسائل بتاتے ہیں وہ بھی بڑا اچھا ہے۔وہاں کے عوام کو یقین دلایاجائے کہ نواب اکبر بگٹی کے قاتلوں کا ٹرائل کرکے انہیں گرفتارکیا جائے گا اور قرارواقعی سزا دی جائیگی خواہ وہ جنرل پرویز مشرف ہی کیوں نہ ہو۔ ایک قومی جرگہ بنے جس میں غیر جانبدار شخصیات ہوں جو حکومت، فوج اور ناراض بلوچوں کے مابین پل کا کام کرے ۔ گوادر کی ترقی کے حوالے سے وہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بڑا کام کیا لیکن گوادر شہر آج بھی اسی طرح گنداہے ، نالیاں غلاظت سے بھری ہوئی ہیں اور شہر کی حالت بڑی خراب ہے۔

گوادر کے عوام کے اعتماد کو بحال کرکے انہیں یقین دلایا جائے کہ ان کی سیاسی ومعاشی حیثیت خراب نہیں ہوگی' ورنہ گورنر راج کے آنے سے کیا بہتری آئیگی، گورنر تو وہی پرانا ہی ہے ، فوج ، ایف سی اور دیگر قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیاں بھی وہی ہیں۔ عارضی حل کی بجائے بلوچستان کا مستقل حل نکالاجائے۔ جماعت اسلامی پاکستان اس حوالے سے بلوچستان میں بڑا مثبت کردار ادا کررہی ہے اور ہمارا تمام سیاسی جماعتوں سے رابطہ ہے۔

احسان وائیں
( سیکرٹری جنرل عوامی نیشنل پارٹی)
پچھلے دنوں پنجاب یونیورسٹی میں بلوچستان کے حوالے سے کانفرنس ہوئی جس میں پلیجو اور مینگل کی پارٹیوں سمیت تمام پارٹیوں کے لوگ شریک ہوئے جس نے ثابت کیا کہ بلوچستان کی اہم لیڈر شپ تحفطات کے باوجود قومی سیاست میں شامل ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے ہمیں سوچنا پڑے گا کہ 1947ء سے اب تک بلوچستان مسئلہ کیوں رہا اوروہاں دیگر صوبوں اور خاص کر پنجاب کو گالی کیوں پڑتی ہے' اس کی وجہ یہ ہے کی فوجی ڈکٹیٹرز، بیوروکریٹس اور فیوڈلز حکومت میں رہے اور انہوں نے سوچا کہ پنجاب اور اسلام آباد میں بیٹھ کر وہ پورے ملک پر حکومت کرسکتے ہیں۔

بلوچستان میں کوئلہ، گیس اور تیل کے بیش بہا وسائل ہیں مگر آج تک ان کو نکالا نہیںگیا جب روس نے انہیںنکالنے کی بات کی تو امریکہ نے روک دیا۔ یہ بھی حکومتی نااہلی ہے، آج تک ہم نے بلوچستان کے عوام کو ایسے رکھا جیسے غیر ملکی عوام ہوں ۔ نہ صرف ڈکٹیٹروں نے بلوچستان میں آپریشن کئے بلکہ ایک منتخب سیاسی حکمران نے شاہ ایران کے کہنے پر بلوچستان میں فوجی آپریشن کروایابلکہ یہاں تک کہ ایرانی فضائیہ نے حملے بھی کئے' اس کے بعد کے ڈکٹیٹروں نے وہاں آپریشن بھی کئے اور حالات مزید خراب کئے مگر اس کے باوجود وہاں کسی نے علیٰحدگی کی بات نہیں کی بلکہ صرف آپریشن کے خلاف بات کی۔ عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری سمیت دیگر بڑے لیڈر قوم اور وفاق کی سیاست کرنا چاہتے تھے مگر انہیں صوبائی لیڈر بنادیا گیا۔

عطاء اﷲ مینگل پاکستان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ایک سیاسی حکمران نے بنگلہ دیش کو پاکستان سے علیٰحدہ کردیا تاہم اگر بلوچستان کے ساتھ ایسا کیا گیا تو میں بلوچستان کا نام پاکستان رکھ دوں گا۔ اتنے ظلم اور زیادتی کے باوجود وہاں کی قیادت نے کبھی علیٰحدگی کی بات نہیں کی بلکہ وہ صرف حقوق کی بات کرتے ہیں اگر وہاں کے لوگوں کو کہا جائے کہ ہم تمہیں امداد دیں گے تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے بلکہ وہ اپنے وسائل پر اپنا حق مانگتے ہیں۔ضرورت اس چیز کی ہے کہ وہاں مسخرے لیڈر نہ بنائے جائیں جنہوں نے پچھلے 5سال میں بلوچ عوام کے ساتھ مذاق کیا بلکہ وہاں کی حقیقی لیڈر شپ کو الیکشن کے ذریعے آگے آنے دیا جائے مگر وہاں اس کے الٹ ہوا، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ق) کا وہاں کیا کام؟ مگر اس وقت سب سے زیادہ سیٹیں انہی کی ہیں۔



وہاں لیڈروں کو پہاڑوں سے اتار کر پھانسیاں دی گئیں۔ اس وقت وہاں کے نوجوان اپنے لیڈروں کے بھی خلاف ہورہے ہیں کہ آپ وفاق کی بات کرتے ہیں۔ فوج کے استعمال یا اسلام آباد میں بیٹھ کر معافیاں مانگنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس وقت میں پنجاب میں بلوچستان کے حوالے سے تبدیلی دیکھ رہا ہوں'اس وقت پنجابی بلوچستان کیلئے تڑپ رہا ہے کہ کہیں یہ چلا نہ جائے۔ قومی سیاستدان کبھی علاقہ تقسیم نہیں کرتا بلکہ جوڑتا ہے۔ ہزارہ آرگنائزیشن کو کریڈٹ جاتا ہے کہ ساڑھے چار سال میں ان کے 4سو سے زائد لوگ شہید ہوئے مگر پھر بھی وہ 84لاشیں لے کر پرامن طور پر بیٹھے رہے جس کے نتیجے میں تبدیلی آئی یہ قابل تعریف ہے مگر گورنر تو پہلے سے حکومت میںہے اور اب وہ کہتا ہے فوج ہمارے مسائل حل کرے تو ان کو بتادیں کہ فوج مسائل حل نہیں کرسکتی انہیں سیاسی طور پر ہی حل کیا جاسکتا ہے۔

رمضان چوہدری
( رکن پاکستان بار کونسل )
وکلاء بلوچستان کے مسئلے پر کانفرنس بلا چکے ہیں جس میں تمام قومی، علاقائی اور لسانی جماعتوں کو ایک چھت کے نیچے بٹھا یاگیا ۔ کانفرنس میں بلوچستان کے حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز شامل تھے۔ وہ جماعتیں جو دوسری پارٹی کے ساتھ مل کر نہیں بیٹھ سکتی تھیں' وکلاء نے اس کانفرنس میںانہیں مل بیٹھ کر معاملات پر بحث کرنے کا موقع دیا۔ اس کانفرنس میں ڈیکلیریشن جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ بلوچستان میں آزادنہ انتخابات کرائے جائیں اور بلوچوں کو گارنٹی دی جائے کہ ان پر عملدرآمد بھی ہوگا۔ اوریہ بھی کہا گیا بلوچوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

ان کا اعتماد بحال کیا جائے کہ ان کی بات سنی جائے گی۔ کانفرنس میں ایک قرار داد بھی پیش کی گئی جس میں بلوچستان میں دھماکوں اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کی مذمت کی گئی۔ اس کے بعد ہم اسلام آباد اور کوئٹہ میں بھی کانفرنس کریں گے۔ بطور وکیل میرا خیال ہے کہ بلوچستان میں گورنر راج کیلئے آئین کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے اگر وہاں اس کی ضرورت بھی تھی تو پارلیمنٹ کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا، اسمبلی میں قرار داد پیش کی جاتی اور وہاں جو فیصلہ ہوتا اس پر عمل کیا جاتا۔

یا سمین رحمن
( رہنما پیپلزپارٹی اور رکن قومی اسمبلی)
موجودہ حکومت بلوچستان کے مسلئے کے حل پر بہت دھیان دے رہی ہے اور اس کیلئے تاریخی اقدامات کئے ہیں۔ بلوچستان کے مسئلے کو اس حد تک پہنچانے میں سب قصوروار ہیں مگر تاریخی طور پر دیکھیں تو پاکستان میں کچھ علاقے بہت ترقی یافتہ ہیں جبکہ کچھ نہیں' وہاں ابھی محرومیاں ہیں۔ تاہم اگر جمہوریت چلتی تو وہ علاقے بھی ترقی کرسکتے تھے جس سے ان کی محرومیاں ختم ہوسکتی تھیں۔ اس وقت خوش آئند بات یہ کہ نواب اختر مینگل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ فیڈریشن اور آئین پاکستان کو مانتے ہیں۔

نواب اکبر بگٹی کا قتل بلوچ عوام کیلئے بہت بڑا دھچکا تھا اس کے بعد حالات بہت خراب ہوئے، اب بلوچستان میں بہتری کا ایک ہی طریقہ ہے وہاں کے عوام کو حقوق دے کر سرداری نظام کا خاتمہ کیا جائے اور عوام کو مین سٹریم میں لایا جائے۔بلوچستان میں فیوڈل اور سرداری نظام کو ختم کرنا ہوگا' جب تک وہاں انسانی حقوق کی بات نہیں کریں گے وہاں حالات نہیں بدلیں گے۔ عوام کو زیادہ دیر دیوار کے ساتھ نہیں لگایا جاسکتا۔ موجودہ حکومت نے بلوچستان کو بہت بڑا پیکج دیا مگر اس کے اثرات عوام میں کہیں نظر نہیں آئے۔ وہاں کے نمائندوں نے عوام کیلئے کچھ نہیں کیا۔

وہاں کے لوگوں کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ وہ ایسے لوگوں کوووٹ دیں جو ان کی ترقی کیلئے کام کریں۔ وہاں کے سردار نہیں چاہتے کہ لوگ ترقی کریں۔ حکومت نے این ایف سی ایوارڈ دیا اور حکومت یقین رکھتی ہے کہ وسائل بلوچ عوام کو دینے چاہئیں جو ان کا حق ہے اور موجودہ حکومت بھی یقین رکھتی ہے کہ عوام کو ان کے وسائل دینے چاہیئں اور اس کیلئے اقدامات بھی کررہی ہے۔

خان سلطان محمود خان
( سینئر نائب صدر فنکشنل لیگ)
قائداعظمؒ سب سے زیادہ اہمیت بلوچستان کو دیتے تھے۔ بلوچوں کے اگر دس، بیس ، تیس مطالبات ہیں تو مانیں لیکن وہاں کے سرداروں کو پاور میں نہ آنے دیں۔ اگر ملک بھر میں لینڈ ریفارمز پر بھارت کی طرح عمل کرلیا جاتا تو بلوچستان میں بھی آج کوئی سردار نہ ہوتا اور غریب لوگ اسکے غلام نہ ہوتے۔ ان سرداروں نے بلوچستان کو آگے نہیں بڑھنے دیا، وہاں کوئی سڑک نہیں بننے دی جبکہ یہ مطالبہ یہی کرتے ہیں کہ وہاں سرداری نظام بحال کیا جائے۔ میں کہتا ہوں وہاں سرداری نظام بحال نہ کیا جائے باقی سب مطالبات مان لئے جائیں۔

جمالی، بگٹی، مینگل اور موسیٰ خان وغیرہ اقتدار میں آئے لیکن کسی نے بھی اپنے گاوں میں ہائی سکول تک نہیں بنوایا۔ ہم بلوچوں کے تمام مطالبات مانتے ہیں لیکن ایسے مطالبات جن میں سرداروں کے بجائے غریب بلوچوں کو فائدہ ہو کیونکہ یہ ملک غریب عوام کیلئے بنایا گیا تھا۔ بلوچستان کی کوئی سیاسی جماعت یہ نہیں کہتی کہ پنجابیوں، بلوچوں ، سندھیوں کو مارو بلکہ وہاں صرف غیر ملکی مداخلت ہے جسے ہمارا ایٹم بم ہضم نہیں ہورہا۔ تمام بلوچی محب وطن ہیں ۔ طاہرالقادری نے جو باتیں کیں وہ آئین میں موجود ہیں۔



مظاہرہ کرنیوالے اور فیصلے دینے والے بھی ہم سے کم محب وطن نہیں ہیں لیکن میرے نزدیک ایسے فیصلے جن کے اثرات غلط ہوں وہ نہیں ہونے چاہیں۔ ریکوڈک کا سونا بلوچستان پر لگایا جائے ، سوئی گیس بھی پہلے بلوچستان کے شہروں کو ملنی چاہیے تھی جبکہ دیگر ذخائر پر بھی بلوچستان کے حق کو تسلیم کیا جائے۔ ہم سب کو پنجابی، پٹھان اور بلوچی وغیرہ کی بجائے پاکستانی کہلانا چاہیے ۔ قیام پاکستان کے وقت سب سے زیادہ قربانیاں پنجاب سے دی گئیں، جنگوں میں بھی پنجاب سے شہید ہوئے' اسی طرح کشمیر کی جنگ میں بھی پنجاب سے ہی زیادہ شہادتیں ہوئیں۔

سید ناصر شیرازی
( سیکرٹری سیاسی امور مجلس وحدت المسلمین)
بلوچستان میں جو بھی تبدیلی آئی وہ ہزارہ کمیونٹی سے اظہار یکجہتی کیلئے ملک بھر میں دھرنوں کی وجہ سے آئی۔ بلوچستان رقبے اور جغرافیائی اعتبار سے بڑا اہم ہے، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی گیم میں بلوچستان کو بھی نقصان بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دراصل یہ بین الاقوامی سطح پر امریکی گیم چل رہی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے ۔ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے بڑا اہم ہے ، امریکہ پاکستان میں کہیں ڈائریکٹ کارروائی کرتا ہے لیکن جہاں وہ کچھ نہ کرسکے کہیں وہ اپنے عرب اتحادیوں کو بھی شکار گاہوں کے نام پر جگہ الاٹ کرواکرکرتا ہے۔ سوئی گیس بلوچستان میں پچاس کی دہائی میں دریافت ہوئی جبکہ کوئٹہ شہر میں اسی کی دہائی میں پہنچائی گئی وہ بھی شاید کینٹ کی وجہ سے ہوا۔ لوگ وہاں استحصال کا شکار ہیں۔ بلوچ لیڈر بھی غریبوں کا استحصال کرتے چلے آرہے ہیں۔

بلوچ عوام کی محرومیاں بھی بڑی ہیں۔ وہاں کا عام آدمی آزاد نہیں ہورہا ، وہ وڈیرے کا غلام ہے اور غلام ہی رہیگا۔ آج بھی وہاں مین سٹریم ایلیمنٹ نہیں ہے ۔جب تک سیاسی حقوق لوگوں کو ہم نہیں دینگے جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے لیکن اسکی ٹائمنگ ٹھیک نہیں ۔ چیف جسٹس از خود نوٹس ضرور لیں لیکن وہ عادلانہ ہونے چاہئیں۔کسی ایم پی اے کے امیدوار کے ایک تھپڑ کا تو نوٹس لے لیا جاتا ہے لیکن تین دن تک سڑک پر پڑی لاشیں اور ہزاروں لوگ چیف جسٹس کو نظر کیوں نہیں آئے۔اعلیٰ عدالت کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔

حکومت بھی عملی اقدامات کرے جن سے لوگوں کو پتہ چلے کہ واقعی کچھ کیا گیا ہے۔ فوج، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور دیگر اداروں کو وہاں سے واپس بلالینا چاہیے، بلوچستان کے وسائل کو آج تک استعمال نہیں کیاگیا ، کوئلے ، سونے ،دھاتوں اور دیگر قدرتی وسائل کافائدہ بلوچ عوام کو ملنا چاہیے تبھی وہاں امن وامان قائم ہوسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں