گوادر ماضی حال اور مستقبل

محمد بن قاسم نے 711 عیسوی میں اس علاقے کو فتح کیا۔



رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا ساحلی شہر گوادر دنیا کے سب سے بڑے بحری راستے پر واقع ہے۔ گوادر شہر کا تذکرہ تاریخ قبل مسیح میں بھی ملتا ہے۔ تاریخ گوادر کے مطابق 325 ق ۔ م میں برصغیر پر سکندر اعظم کی افواج کے بحری سپہ سالار ایڈمرل نیرکوس گوادر کے مقام پر اپنے جہازوں کے ساتھ لنگر انداز ہوا۔ اس نے اپنی یاد داشتوں میں اس علاقے کے اہم شہروں کا تذکرہ گوادر، پشوکان، قلمات اور چاہ بہار کے ناموں سے کیا ہے۔

اہم بحری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کرکے جنرل سیلیو کوس نکاٹور کو یہاں حاکم مقرر کیا جس نے 303 ق۔م تک یہاں حکومت کی۔ برصغیر کے مشہور حکمران چندر گپت نے اس یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین کر اپنی سلطنت میں شامل کرلیا اور 100 سال تک اس علاقے پر حکمرانی کرتا رہا۔ چندر گپت کے بعد کئی سو سال تک یہ علاقہ ایرانی بادشاہوں کے زیر نگین رہا۔

محمد بن قاسم نے 711 عیسوی میں اس علاقے کو فتح کیا۔ 16 ویں صدی عیسوی میں پرتگیزیوں نے گوادر سمیت مکران کے متعدد علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ انھوں نے 1581 میں گوادر اور پسنی جیسے اس وقت کے اہم تجارتی شہروں کو آگ لگادی تھی۔ مغلیہ دور حکومت میں یہ سلطنت مغلیہ کا حصہ بھی رہا۔ گوادر اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ کافی عرصے تک مقامی حکمرانوں جن میں بلیدی، گچلی، ملک اور رند قبائل کے درمیان بھی میدان جنگ بنا رہا۔ 1775 میں سابقہ مسقط اور حالیہ اومان کے حکمرانوں نے گوادر کی بندرگاہ کو وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت کرنے کی غرض سے مستعار لیا۔

میجر گولڈ اسمتھ کی کمان میں 1861 میں برطانوی افواج نے اس علاقے پر قبضہ کرکے اپنا پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا جس کے بعد برٹش انڈیا اسٹیم نیوی گیشن کمپنی کے جہازوں نے گوادر اور پسنی کی بندرگاہوں کو استعمال کرنا شروع کردیا۔ برطانوی عملداری میں ہی گوادر کو کراچی سے منسلک کرتے ہوئے گوادر میں پہلا تار گھر 1863، 1894 میں پہلا پوسٹ آفس، 1903 میں پسنی اور 1904 میں اورماڑہ میں ڈاک خانہ قائم ہوا، 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت یہ علاقہ مسقط کا حصہ تھا۔

4 سالہ طویل مذاکرات کے بعد ستمبر 1958 کو حکومت پاکستان کی جانب سے 3 ملین ڈالر ادا کرنے کے بعد 8 دسمبر 1958 کو 174 سال بعد گوادر اومان کی حکمرانی میں رہنے کے بعد پاکستان کا حصہ قرار پایا جس کے بعد وزیراعظم فیروز خان نون نے گوادر کو اومان سے خرید کر مکران کا حصہ بنادیا۔سکندر اعظم کے دور کے مورخین نے اس اہم بحری خطے میں پانی کی شدید کمی کا تذکرہ کیا ہے۔ پانی کی شدید کمی کے باوجود انتہائی اہم اہمیت کی حامل بحری گذر گاہ ہونے کی وجہ سے گوادر بحری جہازوں، ملاحوں اور تاجروں کے سفر کے دوران ہمیشہ ایک اہم گذر گاہ بنا رہا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پانی کی کمیابی کی وجہ سے گوادر اس خطے کے دوسرے شہروں اور بندرگاہوں کی طرح آباد نہ ہوسکا۔

پاک چائنہ اکنامک کوریڈور منصوبے کے حوالے سے گوادر آج ملکی اور غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے علاوہ دنیا کی حکومتوں کی نظر میں ایک مرتبہ پھر انتہائی اہمیت اختیار کرچکا ہے لیکن گوادر میں صدیوں پرانا پانی کی کمی کا مسئلہ آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ اس حوالے سے پاکستان واٹر پارٹنرشپ جو گلوبل واٹر پاٹنر شپ کا حصہ ہے اور پانی کے مسائل کو ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھانے اور اس کے حل کے لیے قابل عمل تجاویز دینے کا ایک انتہائی اہم فورم ہے، راقم کو گوادر ایریا پارٹنرشپ کی لانچنگ تقریب میں گوادر مدعو کیا گیا۔

گوادر سے تعلق رکھنے والے کمیونٹی کے افراد کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبے کے ثمرات مقامی آبادی تک نہیں پہنچ رہے ہیں اور وہ پانی کی کمی کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ ماہر ماحولیات و آبی ماہر ڈاکٹر پرویز امیر نے پانی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گواد رمیں سب سے پہلے پانی کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ بلوچستان کو ملنے والے پانی کی شرح 10.50 ملین ایکڑ فٹ ہے جس میں سے صرف 2.4 ملین ایکڑ فٹ پانی استعمال کیا جاتا ہے جب کہ بقیہ پانی مختلف طریقوں سے ضایع ہوجاتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ جو پانی ضایع ہورہا ہے اس کو ہر ممکن طریقے سے روکا جائے، اس کے علاوہ گوادر میں پانی کی کمی کے مسئلے کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے بھی حل کیا جاسکتا ہے۔

ڈی سیلینیشن پلانٹ پر 300 ملین ڈالر سے زائد کی لاگت آتی ہے جو انتہائی مہنگا کام ہے۔ اس کے علاوہ ریورس آسموس ٹیکنالوجی بھی موجود ہے لیکن اب ایک اور انتہائی جدید ٹیکنالوجی بھی آچکی ہے جو سولر بیسڈ ہے جسے اردن، مصر اور اسرائیل زرعی استعمال میں بھی لارہے ہیں۔ گوادر میں بھی اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرکے پانی کی کمی کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ جب بلوچستان میں سیلاب آتا ہے تو سارا پانی ضایع ہوجاتا ہے جس کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹے ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے، اس وقت بلوچستان میں 100 ڈیم بنائے جارہے ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ میں پانی لانے کے لیے 5 ارب روپے کے ایک منصوبے کی منظوری دی ہے اس منصوبے کے ذریعے بلوچستان کے پانی کو انڈس سے پمپ کرکے وادی کوئٹہ میں لایا جائے گا، گوادر میں بھی پانی کی کمی کو دور کرنے کے لیے بھی اسی قسم کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا، اگر ہم 3 ہزار کلومیٹر کی موٹر ویز بناسکتے ہیں تو دو یا تین سو کلومیٹر سے پانی بھی لایا جاسکتا ہے۔ اس وقت سی پیک منصوبے کے حوالے سے جو سرمایہ کاری ہورہی وہ 64 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور یہ 102 ارب ڈالر تک پہنچے گی۔

ہمیں چین سے بہت زیادہ امیدیں ہیں اور اب برطانیہ بھی اس میں آرہا ہے لیکن اس ترقی کے ثمرات سب سے پہلے یہاں کی مقامی آبادی کو دینے ہوں گے۔گوادر اور اس کے اطراف میں پانی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ انکرا کور ڈیم ہے جو 24 ملین ڈالر کی لاگت سے 1995 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس ڈیم سے حاصل ہونے والے پانی کی شرح 2.8 ایم جی ڈی ہے جب کہ گوادر کی ضرورت 3.5 ایم ڈی جی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ 2020 میں اوسطاً یہ پانی کی ضرورت 12 ملین گیلن روزانہ ہوجائے گی۔

انکرا ڈیم اپنی مدت کا نصف پورا کرچکا ہے جب کہ تیزی سے بڑھتی مٹی اس کی اوسط عمر کو مزید کم کررہی ہے۔ گوادر کی مقامی آبادی کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا حصول ہے، مقامی لوگوں کے مطابق جو پانی انھیں مل بھی رہا ہے وہ صحیح طریقے سے فلٹر نہ ہونے کی وجہ سے سنگین امراض کا باعث بن رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ پانی کے ٹینکر کی قیمت بعض اوقات 20 سے 26 ہزار روپے تک پہنچ جاتی ہے جو مقامی آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے بہت دور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں