دشت صحافت میں بگولے اور ٹیکنالوجی پہلا حصہ
آزادی صحافت کی لازوال جدوجہد کی کہانی بچوں کی دلچسپ کہانیوں جیسی نہیں ہے
علم صحافت کے معتبر استاد اور فلسفی مارشل میکلوہن نے اپنی کتاب ''انڈر اسٹینڈنگ میڈیا اینڈ دی ایکسٹنشنز آف مین'' میں جہاں انسانی ذہن، ٹیکنالوجی کی اعصابی قبضہ گیری، انفرادیت، قوم پرستی، صحافتی جستجو، ذرائع ابلاغ میں مضمر طاقت اور معاشرتی و تہذیبی تبدیلی کے واضح و غیر مرئی نتائج و اثرات پر جامع گفتگو کی ہے، اب تک اس پر ہزاروں مقالات اور کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔
آزادی صحافت کی لازوال جدوجہد کی کہانی بچوں کی دلچسپ کہانیوں جیسی نہیں ہے، یہ داستان دراز بھی ہے دلگداز بھی، لیکن کہاں وہ دل کہ دیا جائے اس کو طول۔ آج کی فضا پاناما لیکس اور نیوز لیکس سے لتھڑی ہوئی ہے، آپ چاہیں توآمریت اور سنسر شپ کی چشم کشا داستان سینئر صحافی اور صاحب طرز ادیب و شاعر احفاظ الرحمٰن کی کتاب ''آزادیٔ صحافت کی سب سے بڑی جنگ'' میں پڑھ لیں۔
صحافت کا تقابل وہی لوگ کرسکتے ہیں جو میزان صحافت پر مامور ہیں، نیوز ایڈیٹر خبر کا نباض ہے، وہ فیصلہ کرتا کہ کس خبر کو سپر لیڈ اور کسے لیڈ اور کس کو سنگل کالم بناکر ڈمپ کردینا ہے، کئی بار ایسا ہوتا کہ کسی بڑے اخبار کی لیڈ کسی دوسرے رقیب معاصر میں بیک پیج پر ڈبل کالم لگی ہوتی ہے، اگر اسے پالیسی کی مار ماری جانی ہو تو اندر کسی پیج پر لگ جاتی ہے۔ سارے اہل نظر کہتے ہیں کہ آج صحافت مشن نہیں بلکہ جدید ترین مشینوں نے صحافی کو بھی مشین بنا دیا ہے، کئی اردو پیپر کے رپورٹر زبان کی صحت پر وقت گزارنے کو تضیع اوقات سمجھتے ہیں۔
1973ء میں ناچیز کو ناصر بیگ چغتائی کے ساتھ چار صاحبان تدبیر مدیران کی پیشہ ورانہ مصاحبت حاصل رہی، شوکت صدیقی، ابراہیم جلیس، ظہیر کاشمیری اور میر جمیل الرحمن، وہ رپورٹنگ کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے، انھیں جوہر قابل نظر آتا تو اس کی رہنمائی کرتے، شوکت صدیقی نے ایک بڑے میاں محمد حنیف کو پابند کیا کہ وہ ہمیں ادھار پر کتابیں مہیا کریں۔ انھوں نے ہمیں بے شمار فکر انگیز کتابیں دیں۔ ایک بار کورٹ اور کرائم رپورٹر غلام ربانی نے شوکت صاحب کے سامنے افسانے جیسی طویل خبر رکھی تو ان کی زبان پر ربانی کوڈانٹا کہ کیا کچرا لکھ دیا ہے، جس پر ربانی نے کہا کہ سر! سب ایڈیٹر زبان درست کرلیں گے، مگر شوکت صاحب نے انھیں سمجھایا کہ بہترین خبر اچھی زبان اور ذمے دارانہ کاپی کی محتاج ہوتی ہے۔
ہمیں بار بار کہتے کلاسیکی ادب پڑھیں، شعری ذوق پیدا کریں، آج بعض اینکرز نے زبان اردو کی جو لٹیا ڈبوئی ہے اس پر فلک کج رفتار رو رہا ہے۔ بابا امر جلیل نے اردو کی طلسماتی اور کرشماتی تاریخ کا نیا باب کھولا ہے، وہ اردو کے گیسوئے تابدار کو اور بھی تابدار کرتے جارہے ہیں، لشکریوں میں گھمسان کا رن پڑا ہے، بابا لشکری قصہ کو زمین بوس کرچکے۔
جو بات میکلوہن نے کہی تھی اس کا بھی زبان کی ارتقائی طاقت اور لسانیت کے داخلی حسن و جادو سے تعلق بنتا ہے۔ لوگ پوچھتے ہیںکہ اخبار کس خاص خوبی پر بکتا ہے، کچھ میگزین، چند ادارتی صفحات اور کئی قارئین اسپورٹس کوریج کو سبب بتاتے ہیں، مگر اخبار گلدستہ ہے، بکتا اسی لیے ہے کہ قارئین اس میں اپنی پسند کی خوشبو پا لیتے ہیں، اس کا کوئی دو اور دو چار اصول نہیں، کسی ایک شعبہ کی خوبصورتی کسی اخبار کو اونچا نہیں اڑاتی، کئی بار ہم نو واردان کی املا درست کرتے ہیں مگر غلطیاں کرنے پر تلے ہوئے اور ایسے موضوعات پر کالم لکھنے پر بضد جسے اخبار کی پالیسی مناسب نہیں گردانتی۔
یوں صحافت کی آزادی سے متعلق عالمی دن پر ہونے والی جس گفتگو نے مارشل میکلوہن کی یاد دلائی، وہ آزادی صحافت کے دن کا منانا ہے۔ اس موضوع پر سینئر صحافیوں، تجزیہ کاروں، ادیبوں، سیاسی رہنماؤں اور سرکاری ترجمانوں سمیت وزرائے اطلاعات و نشریات سمیت صحافت کے تدریسی شعبہ سے وابستہ قابل احترام شخصیات کی گفتگو بھی ٹی وی چینلز اور پرنٹ میڈیا میں نظروں سے گزری ہے، ماضی کی صحافت جب کہ جدید صحافتی تجربات، سیاسی دباؤ، پریشر گروپس کی مداخلت، حکومتی اور ریاستی جبر کے حربوں کی کتھائیں سنتے ہوئے دل نے چاہا کہ کچھ ایسے تجربات بیان ہونے چاہئیں جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے، کے مصداق قارئین کی نذر کیے جائیں۔
فلم ''بین حر'' کی طرح میں نے میکلوہن کی کتاب کے مختلف ابواب کی تفہیم میں بار بار اظہار کی آزادی کا سماج، طرز حکمرانی، خوئے تخلیق، انسانی نفسیات اور روزمرہ کی زندگی پر پڑنے والے اس بنیادی اثر کا کھوج لگانے کی کوشش کی۔ اس نے چوتھے ستون کی بات کی تھی، اس کتاب کا ابتدا ہی میں ترجمہ کیا جاتا تو بہتر تھا، میری معلومات کے مطابق لاہور فکشن، تاریخ، سماجی و سائنسی علوم، صحافت، ادب اور سوانح حیات سمیت مختلف النوع مشہور کتابوں کی اشاعت و طباعت جب کہ خصوصی طور پر تراجم کے حوالہ سے ایک خاص شہرت رکھتا ہے، میکلوہن کی کتاب کا اردو ترجمہ صحافیوں کے پاس ہونا ضروری ہے۔
اس شخص نے ''گلوبل ولیج'' کا لفظ تراشا، اور ''میڈیم از دی میسج'' کے استعارہ میں وہ کچھ تھیورائز کردیا جو اس کی موت کے کئی سال بعد نمودار ہوا، میڈیم کے حوالہ سے وہ ریڈیو، ٹی وی، موویز، اشتہارات، اخبارات وغیرہ کے بارے میں اپنی تکنیکی رائے رکھتا تھا، اس کا کہنا تھا کہ ذرائع ابلاغ سے جاری ہونے والے مواد پر توجہ مرکوز نہ رکھو، بلکہ میڈیم اصل محور ہے، سماجی اور انسانی عادات و تصورات کی کایا پلٹ ٹیکنالوجی کے ارتقا سے عبارت ہے۔
آج جب آزادی صحافت پر سیمینار رپورٹس، ٹی وی ٹاکس اور بیش قیمت کالم نظروں سے گزرے تو اطمینان ہوا کہ جو بات میکلوہن نے کئی برس قبل کہی تھی آج بھی پاکستانی معاشرے کی روح میں تازہ گلاب اور پرانے زخم کے عجیب امتزاج کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ شخص کہتا تھا کہ ٹیکنالوجی دیومالائی اور فنی طور پر کچھ بھی دکھائے یا بتائے مگر ''آدمی ماں کا مزاج، باپ کے آداب اور عزیز روایات چھوڑتا نہیں''۔
کتنا اچھا لگا جب ایک بظاہر الٹرا ماڈرن بچی نجی گفتگو میں شکایت کرنے لگی کہ ''نیچاں دی اشنائی کولوں فیض کسے نئیں پایا۔'' وہ اکثر فرفر انگلش بولتی سیڑھیوں سے نیچے اترتی دکھائی دیتی تھی، یہ تھی مادری زبان سے الفت، زبان کی تکنیکی جبریت۔ میرا یقین ہے کہ آزادی صحافت پر بات چیت مستقبل کی امنگوں سے الگ نہیں، نہ چوتھا ستوں فرسودگی کا شکار ہے، نہ ہر صحافی از اول تا آخر کرپٹ، لفافہ باز اور حکمرانوں کی چوکھٹ پر سر زیر بار منت درباں کیے ہوئے ہے۔
جی نہیں، منہ پھٹ میڈیا کا علاج جمہوری اور رواداری کی تدریس میں ہے، کہاں ہے وہ تدریس جس کی کوکھ سے سخت جان صحافی جنم لیتا ہے؟ میڈیا میں ماسٹرز کرنے والوں کو خبر تک بنانا نہیں آتی، ایک شستہ مراسلہ لکھنے پر ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں۔ ہمارے موجودہ معاشرے کی اساس افتادگان خاک کے استحصال پر ہے، جو کہتے ہیں درست کہتے ہیں کہ پاکستان اشرافیہ کی نہیں۔ اسی طرح کسی نے آزادی صحافت کسی طلائی طشتری میں قلم کے مزدوروں کو پیش نہیں کی، یہ ان عظیم جرنلسٹس اور شہدائے صحافت کی بے لوث جدوجہد کی لازوال داستان ہے جو ہاتھوں میں قلم رکھتے یا ہاتھ قلم رکھتے تھے۔
ہم صحافت میں اسے اپنا اثاثہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں شوکت صدیقی، خالد علیگ اور احفاظ الرحمٰن جیسے باکردار صحافیوں نے رپورٹنگ، ادارئیے اور فیچر رائٹنگ کے گر سکھائے۔ قلم کے مزدور بی ہائنڈ دی سین رہتے ہیں، لفظوں کی بے حرمتی پر غم زدہ ہیں، ضمیر نیازی اپنا اثاثہ ضمیر صحافت کی صورت دے چکے ہیں۔ صحافت ان سے عبارت نہیں جو لاکھوں کروڑوں کا بینک بیلنس رکھتے ہیں، پیکیج پر زندہ ہیں۔
(جاری ہے)