سمندر تیز طوفانی ہوا ٹوٹی ہوئی کشتی
ایک رہنما کی حیثیت بلاشبہ قوم کے لیے باپ جیسی ہوتی ہے
پاناما لیکس پر فیصلے کے بعد ملک میں جاری شور شرابے میں ہنوز کوئی کمی نہیں بلکہ صورتحال دن بہ دن ابتری کی جانب رواں دواں۔ عمران خان ہوں یا جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ قائداعظم سب حکومت کی اپوزیشن کررہے ہیں۔
معاملہ ایک گرینڈ الائنس کی طرف بھی جاتا نظر آرہا ہے، جو آنے والے دنوں میں میاں صاحب سے استعفے کا مطالبہ کرے گا۔ گویا مستقبل قریب دھند اور گردو غبار سے اٹا دکھائی دیتا ہے، کیونکہ اس مقصد کے لیے اپوزیشن لامحالہ جلوس جلسے، ریلیاں منعقد کرے گی۔ حکومت کو ہر طرح سے زچ کیا جائے گا کہ کسی طرح میاں نواز شریف استعفیٰ دے دیں لیکن بظاہر یہ ایک خوابِ پریشان سے زیادہ کچھ نہیں اور ویسے بھی یہ تو وہ اقتدار ہی ہے جس میں ایک گیا، دوسرا براجمان ہوا۔ وہ پاکستان کہاں ہے جو نیا بننے جارہا تھا؟ وہ معاشرہ جس میں فوری انصاف کے دعوے تھے، آزاد پولیس، آزاد ادارے، فی الحال تو بس اتنا محسوس ہوا کہ ایک حکومت گئی، ایک آ گئی۔
جہاں تک موجودہ حکومت کی کرپشن کا ذکر ہے تو ایسے فرشتے آپ کے ہمراہ بھی نہیں، بلکہ آپ کے گردوپیش تو سابقہ حکومتوں کے وزراء کھڑے ہیں۔ اگر آپ کو بھی یہی سب کچھ کرنا ہے تو پہلے سے پسے ہوئے، کچلے ہوئے عوام کے ساتھ یہ کھیل مت کھیلیے۔ وہ 70 برسوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔ مزید دھوکے انھیں جڑ سے ختم کردیں گے۔ آپ کہہ دیں کہ آپ کے پاس نیا کچھ نہیں، کم از کم اعتبار تو نہیں ٹوٹے گا، جیسے اپنے تمام اقتدار میں میاں صاحبان کہتے رہے، مسلسل ان کا اصرار رہا جو چاہے تلاشی لے لے، ان کا دامن صاف ہے۔ انھوں نے ملک کے ایک ایک پیسے کی حفاظت کی۔ لوگ اعتبار کرتے چلے گئے، کیا کرتے کن ذرایع سے تصدیق کرتے؟ مان لیا۔ لیکن نکلا کیا؟ کبھی قطری خط، کبھی جھوٹے بیانات، کبھی کچھ، کبھی کچھ!۔ پھر پاناما لیکس اور عدالتی فیصلہ۔ نقصان کس کا ہوا، سب سے زیادہ بھروسے کا، یقین کا، قومی یکجہتی کا۔
ایک رہنما کی حیثیت بلاشبہ قوم کے لیے باپ جیسی ہوتی ہے، وہ اسے چنتے ہیں اپنے مکمل اعتبار کے ساتھ، وہ سوچتے ہیں کہ وہ رہنما ان کا مسیحا ہے، جو ان کا، ان کی آنے والی نسلوں کا محافظ ہے۔ دیکھئے کسی بھی ملک کے عوام اپنے ووٹ کے ذر یعے سے رہنما کی نشست پر صرف اسے بٹھاتے ہیں، جو باقی سب سے جداگانہ خصوصیات کا مالک ہو۔ اب اگر ان کا انتخاب درست ثابت نہ ہو اور بار بار نہ ہو تو پھر یہ بھی تاریخ ہے کہ وہاں بدترین خونریزی دیکھنے میں آئی، پھر ڈاکو راج قائم ہوا، بدترین دہشتگردی نے وہاں ڈیرا ڈال لیا، انسان تو انسان پرندے بھی وہاںسے ہجرت کرگئے۔ غالباً ہمارے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کیِا کیا جائے؟ کون مسیحا ہو؟ رہنما کسے مانیں؟ کس طرف جائیں، کہاں نکلیں کہ ہم رسوا نہ ہوں۔
متبادل کیا ہے؟ آج تو کم ازکم کوئی نہیں۔ ویسے دیکھنے میں تو درجنوں ہیں، جسے دیکھو لیڈر بنا پھرتا ہے۔ لیکن حقیقی معنوں میں آج ملک ایک حقیقی رہنما سے قطعاً محروم ہے، بلکہ کہنا چاہیے کال پڑا ہوا ہے۔ اور عوام کی حالت ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ ہم تعصبات کی قبروں میں دفن ہوکر اپنے رہنماؤں سے اس بھلائی کی امید کر رہے ہیں جس پر ہم خود پورے نہیں اترتے، بلکہ وہ تو دراصل ہماری اسی کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، ہم چناؤ کے وقت کبھی نہیں سوچتے کہ ہمارے انتخاب کی کسوٹی پر پورا کون اترتا ہے؟ ایک ایماندارانہ انتخاب کیونکر ممکن نہیں؟ یہ طے کرنے والی بات ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ ہماری قوم، قبیلہ، صوبہ، فرقہ، عقیدہ، ذات، برادری یا مستقبل؟ بھلائی، بہتری اور دین، قرآن، اﷲ کے احکامات، نبیﷺ کی سنت مبارکہ، آخر تو ہمیں زندگی کو ترتیب وار کرنا ہوگا۔ کب تک آخر، آخر کب تک یہ شوروغوغا رہے گا؟ لوٹ لیا، کھسوٹ لیا، مار دیا، چور تھے، ڈاکو تھے، مہنگائی نے مارا، لوڈشیڈنگ نے پھٹکارا۔ وہ ارب پتی، یہ کھرب پتی، وہ کپتان یہ مہمان۔
حکمران نہیں، یہ ہم ہیں، احساس سے عاری قوم۔ صرف آج میں جینے والے بے حس لوگ، جو ہر الیکشن میں پیٹ بھر کر نعرے لگاتے ہیں، جی بھر کر ریلیاں نکالتے ہیں، وڈیرے کا بھت کھاتے ہیں، اور علی الصبح قطاروں میں لگ کر اسے ووٹ دیتے ہیں جو ہماری قوم، ذات برادری کا ہو، خواہ اس کا کردار کچھ بھی ہو، خواہ وہی آنے والے دنوں میں ہمارا، قوم کا مجرم ثابت ہو، لیکن بس وہ ذات برادری کا ہو کافی ہے۔ اور پھر اگلے 5 برسوں کا تکلیف دہ انتظار۔ نجانے یہ سلسلہ کب تک چلے گا، کب ہمیں خود سے رہائی ملے گی؟ بہرحال یہ آگ ہی آگ ہے، جاننا چاہیے جو چراغ روشنی دیتا ہے، اسی میں آتش بھی ہے۔
آیندہ الیکشن کئی ایک حوالوں سے ملک و قوم کی سمت متعین کرنے جارہا ہے، اب وہ ترقی ہو یا تنزلی، لیکن فیصلہ کن حیثیت کا تعین ضرور ہوجائے گا، یہیں پر بڑی احتیاط کی ضرورت ہوگی۔ یہیں پر ہمیں کسی بھی قسم کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک نہایت غیر جانبدارانہ فیصلہ کرنا ہے، اپنے لیے، اپنی آیندہ نسلوں کی فلاح، بہبود و ترقی کے لیے، اپنے ملک کی بقا کے لیے۔ ہم ضرور اپنے نمایندے چنیں گے اور سرِدست تو انھی میں سے منتخب کرنے ہوں گے لیکن یہاں احتساب کی احتیاط ضروری ہے۔ اپنے نمایندگان کو یہ جتانا ضروری ہے کہ ہم ان کا چارہ نہیں، جسے وہ ہر بار نگل جاتے ہیں۔
میں ابھی عمران کی تقریر سن کر فارغ ہی ہوا ہوں، اسلام آباد کے جلسے میں جو کچھ انھوں نے فرمایا، بالخوص نواز شریف و اہلِ خانہ اور حکومت کے بارے میں، وہ حقائق پر کس قدر مبنی ہے اور الزامات پر کتنا؟ اس کا فیصلہ تو عدالتیں ہی کرسکتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی ٹیم میں کون افراد ہیں؟ ان کا ماضی کیا ہے؟ صرف یہ دلیل کافی نہیں کہ عمران خان کا دامن صاف ہے، لہٰذا وہ بھی دودھ کے دھلے ہوگئے۔ آج ان کی تقریر میں پھر ان کھلاڑیوں کو پھٹیچر اور ریلو کٹا کہا گیا، جو ان حالات میں ملک میں کھیلنے آئے جب کوئی یہاں آنے کے لیے تیار نہ تھا۔
علاوہ ازیں وہ بہرحال مہمان تو تھے ہی، اسلام میں مہمانوں کی عزت و تواضع کے لیے کیا احکامات ہیں، کیا خان صاحب ان سے نابلد ہیں؟ کسی بھی معیار کے کھلاڑی کے لیے کیا اس طرح کے الفاظ مناسب ہیں؟ یہ سب سن کر کیا آیندہ کوئی پاکستان کھیلنے کے لیے آئے گا؟ کیوں نا مان لیا جائے جس انسان کا اخلاق ہی بہتر نہیں وہ کیونکر بہتر رہنما ہوسکتا ہے؟ اسی لیے میں نے اپنی تحریر کی ابتدا میں ہی انھیں ایک اچھا متبادل ماننے سے انکار کیا تھا۔
ابھی اس تحریر کے دوران ہی نواز شریف کا جلسہ دیکھنے کا اتفاق ہوا، اوکاڑہ میں انھوں نے بھی ایک دھواں دار تقریر کی، متوقع طور پر تقریر کا لب لباب عمران خان کی جملہ برائیاں، اپنے ترقی کے بلند بانگ دعوے، آیندہ الیکشن میں عوام الناس سے ووٹ دینے کی ہمدردانہ درخواست سمیت کچھ پرانی باتوں کا اعادہ، نیا نہیں تھا بلکہ سارا جلسہ ہی عمران خان کے اسلام آباد کے جلسے کا reaction نظر آتا تھا۔ میں بار بار عوام سے مخاطب ہوکر ایک ہی بات دہرا رہا ہوں کہ فی الحال نئے، پرانے، درمیانے، کسی سیاستدان کے پاس آپ کے لیے کچھ بھی ایسا نہیں جو تکالیف اور دکھ درد کا مداوا بنے۔ آپ ریلیوں، جلسوں میں نعرے لگانے، ناچنے گانے سے پہلے بس اتنا ضرور سوچ لیجیے گا، بقول شاعر،
سمندر تیز، طوفانی ہوا، ٹوٹی ہوئی کشتی
یہی اسباب کیا کم تھے کہ اس پر ناخدا تم ہو