2017 کا یوم مئی
ہمیں وقت کے تقاضے کے مطابق دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہوگی۔
25 اپریل 2017 کو پریس کلب کراچی میں ہاری کسان مزدور تنظیموں کے نمایندے جمع تھے۔ یکم مئی کے حوالے سے گفتگو ہورہی تھی کہ اس یادگار دن کو کیسے منایا جائے۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں ہاری کسان مزدور تنظیموں کو یکجا دیکھ کر دل بہت خوش ہورہا تھا۔ پھر یکم مئی کے پروگرام کو حتمی شکل دے دی گئی۔
میٹنگ کے دوران پائلر کے کرامت علی صاحب نے بتایاکہ کراچی کے ایک کارخانے دار نے اپنے ملازم مرد عورتوں کو مارا پیٹا اور انھیں مرغا بنایا۔ اس خبر پر بھی دل بڑا تڑپا۔ جیساکہ اس سے پہلے کی خبروں پر تڑپتا رہ گیا تھا۔
میٹنگ کے اختتام پر میں نے مزدور رہنما شیخ مجید، لیاقت ساہی اور منظور رضی سے کہا ''جس دن یوم مئی پر پچاس ہزار مزدور، کسان ہاری فشر ہارک یا کسی بھی جگہ جمع ہوگئے فیکٹری مالکان وڈیرے مظلوموں پر ظلم کرنا چھوڑ دیں گے''۔
یہ ہمارے اپنے اعمال ہیں جن کی ہمیں سزا مل رہی ہے۔ ایک سال پہلے لاہور گیا تھا وہاں تقریب میں ایک خاتون کو تقریر کرتے سنا، میرے ساتھ بیٹھے شاعر نے بتایا ''یہ مزدوروں کی تنظیم کی سربراہ ہے اور اس کی پجیرو گاڑی باہر کھڑی ہے'' یہ سن کر دل بڑا کڑھا۔ لاہور میں بھی ترقی پسندوں کے دو دھڑے ہیں، ادھر کراچی میں بھی یہی حال ہے۔ ان کرموں پر کون چلے گا بولو ساتھ تمہارے'' یوم مئی کا نعرہ تو یہ ہے کہ ''دنیا بھر کے مزدوروں ایک ہوجاؤ'' ذرا غور کریں ہم کیا کررہے ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم متحد نہیں رہے ہم انتشار کا شکار ہوگئے تو مار تو ہمیں پڑے گی۔ کراچی کے فیکٹری مالک کی فلم بھی ٹی وی پر دکھائی گئی وہ ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے ملازم مرد و عورتوں کو تھپڑ مار رہا ہے۔ انھیں برا بھلا کہہ رہا ہے جب کہ ملازم مرغا بھی بنے ہوئے ہیں۔
گاؤں دیہاتوں کے جاگیردار وڈیروں کے ظلم کی داستانیں تو سنتے ہی رہتے ہیں مگر اب بڑے شہروں تک بھی یہ سلسلہ آن پہنچا ہے۔ آج بھی یوم مئی منانے کے حوالے سے جو خبریں سنائی دے رہی ہیں ان میں انتشار ہی انتشار ہے۔ مزدوروں کی ریلیاں مختلف سیاسی جماعتوں کے تحت نکلیں گی۔ مختلف مزدور تنظیموں کی ریلیاں بھی نکلیں گی۔ اور پھر شہر کراچی میں بیسیوں جگہ چھوٹی چھوٹی مجلسیں ہوں گی۔ (میں انھیں جلسے نہیں کہوں گا) کیا ہی اچھا ہو کہ شہر بھر سے مزدور تنظیمیں اپنی اپنی ریلیاں لے کر نکلیں اور سب کا رخ مزار قائد کی طرف ہو۔
جہاں یک جان ہوکر ہزاروں سرخ پرچم اٹھاکر (اپنے اپنے پارٹی پرچم بھی چلیں گے) شکاگو کے مزدوروں کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا، کیا برا وقت آگیا ہے کہ اب ہزاروں مزدوروں کا ایک جگہ جمع ہونا خواب سا بن گیا ہے تو کیا یہ خواب حقیقت بن سکتا ہے۔ میں نے مزدور تنظیموں کی میٹنگ میں بات کرتے ہوئے جالب کے یہ دو اشعار بھی پڑھے تھے۔ وقت کے مطابق یہ شعر بڑی رہنمائی کررہے ہیں:
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعوں اسی سے جائے گا
جیو ہماری طرح سے مرو ہماری طرح
نظام زرتو اسی سادگی سے جائے گا
جو برا وقت عوام پر آن پڑا ہے اس سے برا اور کیا ہوگا۔ دشمن تو دشمن ہوتا ہے اس نے تو دشمنی ہی کرنی ہے مگر افسوس کہ ''دوست'' بھی کچھ کم نہیں کررہے، مزدور کسان ہاری آخر کدھر جائیں وہ انھی دوست نما رہنماؤں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور یہ ''دوست نما'' پتا نہیں کدھر جارہے ہیں باتیں اب کھل کر ہونا چاہئیں آنکھیں بند کرکے اور مصلحتوں کا شکار ہوکر کام نہیں چلے گا اس ملک کو لوٹ کر کھا جانے والے سیاست دان بھی کھل کھلاکر بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بول رہے ہیں یوم مئی کے اصلی رکھوالوں کو بھی کھل کر سامنے آنا پڑے گا۔ مزدوروں، ہاری کسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور ہم ریلیوں اور جلسوں کی شکل میں فشر مین، مزدوروں، ہاری کسانوں کے انتشار پر دشمن بہت خوش ہے اور مطمئن ہے۔
ہمیں وقت کے تقاضے کے مطابق دوست اور دشمن کی پہچان کرنا ہوگی۔ 2017 کا یوم مئی فیصلہ کن ہوگا۔ یہ والا یوم مئی بہت کچھ سمجھاکر جائے گا۔ ادھر لٹیرے ایک دوسرے کے راز کھول رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑنے کی باتیں کررہے ہیں۔ یہ پیٹ پھاڑنے والی بات پہلے ہی کی گئی تھی مگر پیٹ سلامت رہا۔ یہ لٹیروں کے پیٹ سلامت ہی رہیںگے اور ان لٹیروں کا ساتھ نبھانے والے بھی اپنی چاپلوسیانہ حرکتیں نہیں چھوڑیںگے۔
یوم مئی سخت گرمی میں آتا ہے صرف ایک دن کے لیے مزدور دوستوں اور مزدوروں کو ضرور سڑکوں پر نکلنا ہوگا۔ 2017 کا یوم مئی فیصلے کی گھڑی ہے۔ مزدورو! ہاریو!کسانو! شکاگو کے شہیدوں کے ساتھ ایک ہوجاؤ۔ اسی میں نجات ہے اس میں امان ہے ورنہ! یہ جو ستر سال سے ظالموں کا ٹولا لوٹ مار کررہا ہے یہ یونہی ظلم و ستم کرتارہے گا۔ مگر ان ظالموں، لٹیروں کا ایک دن خاتمہ ضرور ہوگا یوم مئی پر حبیب جالب کی نظم نذرِ قارئین ہے۔
یوم مئی
صدا آرہی ہے میرے دل سے پیہم
کہ ہوگا ہر اک دشمنِ جاں کا سر خم
نہیں ہے نظامِ ہلاکت میں کچھ دم
ضرورت ہے انسان کی امنِ عالم
فضاؤں میں لہرائے گا سرخ پرچم
صدا آرہی ہے، صدا آرہی ہے
نہ ذلت کے ہاتھوں میں بچے پلیں گے
نہ ہاتھ اپنے قسمت کے ہاتھوں ملیں گے
مساوات کے دیپ گھر گھر جلیں گے
سب اہل وطن، سر اٹھا کر چلیں گے
نہ ہوگی کبھی زندگی وقف ماتم
فضاؤں میں لہرائے گا سرخ پرچم
صدا آرہی ہے، صدا آرہی ہے