احمد فراز کی شاعری کا یہ رنگ بھی دیکھو

جنھیں تقریب میں مقالے پڑھنے تھے اور احمد فراز کو خراج تحسین پیش کرنا تھا وہ سب طرح دے گئے۔


Intezar Hussain January 20, 2013
[email protected]

لاہور: پچھلا ہفتہ اسلام آباد پر بھاری گزرا۔ پہلا حملہ جاڑے کا' اور جاڑا اکیلا تھوڑا ہی آتا ہے۔ کہرے کے لشکر کو ساتھ لے کر آتا ہے۔ مسافروں پر جو گزری مت پوچھو۔ پی آئی اے کا حال پہلے ہی پتلا ہے۔ کہرے نے اس کا حال اتنا پتلا کیا کہ کتنے مسافروں کا سفر کھوٹا ہوگیا۔ شرفاء نے ریلوے کے ابتر حال کو دیکھ کر پی آئی اے پر بھروسہ کیا تھا مگر وقت پڑنے پر پی آئی اے نے بھی انگوٹھا دکھا دیا۔

مصیبت جب آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی۔ اسلام آباد پر دوسرا حملہ تیار کھڑا تھا۔ مولانا طاہر القادری کا لانگ مارچ بھی تو کیل کانٹے سے لیس مستعد کھڑا تھا۔ اکیڈمی آف لیٹرز کو دیکھو۔ کیسے پرآشوب ایام میں اپنی کانفرنس کا ڈول ڈالا۔ ادھر سے لانگ مارچ سے پہلے ہی ملک کے کونے کونے سے ادیبوں کے قافلے قطار اندر قطار آنے شروع ہوگئے۔

خیر اکیڈمی شکر کرے بلکہ شکرانے کی نماز پڑھے کہ لانگ مارچ سے پہلے پہلے اس کا میلہ نمٹ گیا۔ مگر جو ایک دوسری اہم ادبی تقریب ہونے کو تھی وہ لانگ مارچ کی زد میں آگئی۔ احمد فراز ٹرسٹ نے مرحوم شاعر کا بیاسیواں یوم پیدائش منانے کی غرض سے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا اور تاریخ کونسی رکھی تھی' 17 جنوری۔ اے سادہ دلو' کچھ تو سوچا ہوتا۔ ادھر لانگ مارچ کی پلٹن اسلام آباد پر یلغار کے لیے تیار کھڑی ہے' ادھر تم تقریب کا اہتمام کر رہے ہو۔ احمد فراز ٹرسٹ کی ہمت اپنی جگہ مگر ''ڈان'' کا راوی یہ خبر لایا کہ جنھیں اس تقریب میں تقریریں کرنی تھیں، مقالے پڑھنے تھے اور احمد فراز کو خراج تحسین پیش کرنا تھا وہ ایک ایک کرکے سب طرح دے گئے۔ عذر وہی کہ کہاں کی رباعی کہاں کی غزل۔ علامہ موصوف کے لانگ مارچ کی گھٹا تلی کھڑی ہے۔ اس سے بچ نکلے پھر سوچیں گے۔

خیر یہ آزمائش تو اسلام آباد والوں کے لیے تھی۔ اگر وہ تھوڑے تحمل سے کام لیتے تو دیکھتے کہ 17 جنوری کو تو مطلع صاف ہے۔

ادھر لاہور میں نیز دوسرے شہروں میں اس تقریب کا بدل مہیا ہے۔ بدل نہیں بلکہ نعم البدل۔ فتح محمد ملک نے یہی کچھ بھانپ کر تو یہ اہتمام کیا تھا کہ احمد فراز پر جو انھوں نے کتاب لکھی ہے وہ 17 جنوری سے پہلے بازار میں آجائے۔ سو وہ اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے...'احمد فراز کی شاعری، نغمہ دلدار یا شعلۂ بیدار'۔

فتح محمد ملک کا دم ہمارے زمانے میں غنیمت ہے۔ یہ شکایت اب سے پہلے علامہ اقبال نے کی تھی کہ؎

زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا

اس وقت سے ہمارے زمانے تک آتے آتے زاہد تنگ نظر مزید تنگ نظر ہوگیا ہے۔ وہ اب ایک طرز کے کفر پر قانع نہیں ہے۔ کفر کے کچھ نئے برانڈ اس نے دریافت کر لیے ہیں۔ ایک برانڈ وہ ہے جو سیکولرازم کی شکل میں دریافت کیا گیا ہے۔ اب اسے لاکھ سمجھاؤ کہ اس اصطلاح کا ترجمہ لادینیت غلط ہے۔ مگر وہ یہ کیسے مانے۔ کفر کے فتوے کا ایک زریں موقع ہاتھ سے نکل جائے گا۔

اس کا توڑ فتح محمد ملک کے پاس ہے۔ اس لیے ہم نے کہا کہ ہماری اردو تنقید کے میدان میں اس وقت ان کا دم غنیمت ہے۔ ان کے پاس نسخہ یہ ہے کہ اس زد میں آنے والے شاعر کے یہاں سے اتنا اسلامی شعور برآمد کرکے دکھاؤ کہ معترض اپنا سا منہ لے کر رہ جائے۔ اب انھوں نے احمد فراز کی شاعری کو اس زاویے سے پرکھا ہے۔ کیسا کیسا عقیدت میں ڈوبا ہوا شعر ان کے یہاں سے نکالا ہے؎

کریم ہے تو مری لغزشوں کو پیار سے دیکھ

رحیم ہے تو سزا و جزا کی حد سے نکل

مرے لیے تو ہے سو بخششوں کی اک بخشش

قلم جو افسر و طبل و علم سے ہے افضل

اسی نے مجھ سے کہا اسم اہل صدق امر

اسی نے مجھ سے کہا سچ کا فیصلہ ہے اٹل

اسی نے مجھ سے کہا بیعت یزید نہ کر

اسی نے مجھ سے کہا مسلک حسینؓ پہ چل

عقیدت کا ایک اور رنگ؎

پیمبر

مجھے حوصلہ دے

کہ میں ظلم کی قوتوں سے

اکیلا لڑا ہوں

کہ میں اس جہاں کے جہنم کدے میں

اکیلا کھڑا ہوں

اگر کسی کینہ پرور کو احمد فراز کی حب الوطنی پر شک ہے تو اس کے توڑ میں بھی فتح محمد ملک نے فراز کی شاعری سے بہت مسالہ برآمد کیا ہے۔ جنگ ستمبر سے لے کر کشمیر کے مسئلہ تک ہر قومی مسئلہ پر انھوں نے فراز کے یہاں سے شعر برآمد کرکے قارئین کے سامنے رکھے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ ''قومی زوال کے اسباب پر تخلیقی غور و فکر کے دوران فراز کو بانیان پاکستان اورخصوصاً علامہ اقبال کے افکار و تصورات رہ رہ کر یاد آتے ہیں اور وہ تحریک پاکستان کے فکری اور نظریاتی محرکات سے انحراف کے المیہ کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہیں۔''

احمد فراز کی شاعری کے کچھ اور پہلو بھی ہیں مثلاً ان کی ایک نظریے سے وابستگی اور اس واسطے سے وہ ایک نظریاتی شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ پھر وہ شاعر انقلاب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعر شباب کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ پھر شاعر پر بحث کرتے وقت اس کے شعر کو فنی پہلو سے جانچا پرکھا جاتا ہے مگر یہ سارا کام فتح محمد ملک نے دوسرے نقادوں کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ان کی تنقید اصل میں مقصدی تنقید ہوتی ہے۔ وہ مقصد ان کے لیے اتنا اہم ہوتا ہے اور اس کے بارے میں وہ اتنا پرجوش ہوتے ہیں کہ شاعری کے باقی پہلو ان کی تنقید میں پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ یکسوئی کے ساتھ اس ایک مقصد کو ٹٹولتے چلے جاتے ہیں اور نہایت کامیابی کے ساتھ اسے برآمد کرکے ہمارے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ تو یہ پوری کتاب ایک مقصد کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے اور فراز کی شاعری کا وہ رنگ جو ان کے مداحوں کو بالعموم نظر نہیں آتا اس رنگ کو انھوں نے وہاں سے اس طرح برآمد کیا ہے کہ فراز کی شاعری کا غالب رنگ یہی نظر آتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں