پنشنرز انصاف کے منتظر

لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا نزلہ صرف مذکرہ انشورنس کمپنی کے پنشنرز پر ہی کیوں گرے


سردار قریشی April 25, 2017

دنیا بھر میں معاشرے کے کمزور طبقات کا تحفظ، ان کی فلاح و بہبود، سہولیات کی فراہمی، دیکھ بھال اور ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا حکومتوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے، جب کہ ہمارے ہاں یہ چیزیں نہ صرف حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتیں بلکہ اکثر انھیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

روز افزوں مہنگائی، ضروریات زندگی کی عدم فراہمی اور سانس کی چلتی ڈور برقرار رکھنے کے لیے معاشرے کے ان کمزور طبقات کو جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اس کی حقیقت کچھ وہی جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک انشورنس کمپنی کے غریب پینشنرز ایک طویل عرصے سے ہر سال دیے جانے والے دس فیصد اضافے سے محروم ہیں جب کہ سرکاری شعبے ہی کے اس جیسے دوسرے اداروں میں حسب سابق یہ پریکٹس جاری ہے جس سے ان اداروں کے پنشنرز کو زندگی سے رشتہ جوڑے رکھنے میں قدرے مدد ملتی ہے اور وہ جیسے تیسے عرصہ حیات پورا کر رہے ہیں۔ پھر انشورنس کمپنی کے پنشنرز کے ساتھ یہ زیادتی کیوں روا رکھی جا رہی ہے، یہ دس ملین روپے مالیت کا وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہمارے وزیر خزانہ، اسحاق ڈار بجٹ بناتے وقت اس میں غریب پنشنرز کے دس فیصد سالانہ اضافے کی رقم مختص کرنا بھول گئے ہوں۔ اگرچہ ایسا ہونا کچھ ایسا بعید از قیاس بھی نہیں کہ ڈار صاحب کو ملک بھر کے مالیاتی معاملات ہی نہیں دیکھنے ہوتے، دنیا کے مختلف ملکوں خصوصاً متحدہ عرب امارات میں پھیلے ہوئے اپنے کاروباری معاملات پر بھی نظر رکھنا ہوتی ہے اور اس قدر کام کی زیادتی میں کہیں بھول چوک ہوجانا سمجھ میں آتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا نزلہ صرف مذکرہ انشورنس کمپنی کے پنشنرز پر ہی کیوں گرے۔ اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے ان بیچاروں نے وفاقی محتسب کا دروازہ بھی کھٹکھٹا کے دیکھ لیا مگر اب تک سوائے انتظار کرنے کے ان کے پلے کچھ نہیں پڑا۔ یوں لگتا ہے اس ملک میں ایسا کوئی نہیں جس کو مذکورہ غریب پنشنرز کی حالت زار کا ذرہ برابر بھی احساس یا خیال ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نا انصافی اور عدم توجہی کا شکار ہونے والے معاشرے کے کمزور طبقات سے متعلق افراد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور نا انصافیوں کا رونا روتے روتے دنیا ہی چھوڑ جاتے ہیں مگر انھیں انصاف ملنا نہیں ہوتا سو نہیں ملتا۔

اس پہ مستزاد یہ کہ ہمارے قوانین اتنے کمزور اور بے بس ہیں کہ غریب پنشنرز جیسے معاشرے کے کمزور طبقات سے تعلق رکھنے اور ناانصافیوں کا شکار ہونے والے متاثرین کو بھی ان پر ترس آتا ہے۔ اس کے برعکس عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر مقننہ میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو ان ناکارہ اور فرسودہ قوانین کو بدلنے، نئے قوانین بنانے یا کم از کم قوانین میں اصلاحات لانے کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا، انھیں اگر فکر ہوتی ہے تو ہر کچھ عرصہ بعد اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کرانے کی فکر ہوتی ہے، جس کے لیے وہ ہر ممکن طریقے سے حکومت پر دباؤ ڈالتے رہتے ہیں اور بالآخر ان میں مطلوبہ اضافہ کروانے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔

نتیجتاً آج پارلیمان کا ہر ممبر تنخواہ اور الاؤنسز کی مد میں ماہانہ لاکھوں روپے وصول کرتا ہے، حکومت سے حاصل کردہ دیگر بیشمار فوائد اس کے علاوہ ہیں۔ اب ایسے پیٹ بھرے لوگوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ غریب پنشنرز جیسے معاشرے کے کمزور طبقات کا احساس کریں گے یا ان کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کریں گے ایسا ہی ہے جیسے ببول کے درختوں سے بیروں کی امید رکھنا۔ سماج میں پائی جانے والی ہر خرابی کا سدباب صرف موثر قانون سازی اور پہلے سے موجود قوانین میں موجود سقم دور کرنے سے ممکن ہے جس کی طرف کسی کی بھی توجہ نہیں جاتی۔

ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے حکمرانوں میں سے مغل بادشاہ ہمایوں سے بزور قوت اقتدار چھین کر تاج و تخت پر قبضہ کرنے والا شیر شا سوری وہ واحد حکمران تھا جسے ہر وقت اپنے ملک کے غریب، بے وسیلہ اور نا انصافیوں کے شکنجے میں جکڑے ہوئے عوام کی فکر دامن گیر رہتی تھی اور اس نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیا بھی۔ جی ہاں، وہی شیر شاہ سوری جس نے شاہجہاں کی طرح ( ساحر لدھیانوی کے بقول دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑانے کے لیے) تاج محل بنوانے کے بجائے جی ٹی روڈ بنوائی تھی، جس کا پشاور تا لاہور ایک چھوٹا سا حصہ ہی اب ہمارے پاس رہ گیا ہے، جب کہ یہاں سے کلکتہ تک اس عظیم شاہراہ کا بڑا حصہ بھارت کے زیر استعمال ہے۔

شاہراہ پر جابجا سایہ دار درخت لگوائے اور کنویں بھی کھدوائے گئے تھے۔ ملک بھر میں پنچایتی نظام کے تحت بارہ پندرہ دیہات کے لیے ایک مکھیا مقرر کیا گیا تھا، جسے پولیس اور مجسٹریٹ درجہ اول کے اختیارات حاصل تھے تاکہ لوگوں کو تھانوں کچہریوں کے دھکے نہ کھانے پڑیں اور انھیں اپنی دہلیز پر ہی انصاف مل سکے۔ مکھیاؤں کے کام کی نگرانی بادشاہ خود کرتا تھا اور انصاف نہ ملنے کی صورت میں اس سے شکایت کی جا سکتی تھی۔

پھر یوں ہوا کہ ایک مکھیا کے علاقے میں کسی غریب کی بیٹی اغوا ہو گئی، اغواکار بہت با اثر اور طاقتور لوگ تھے۔ متاثرہ شخص کی شکایت پر جب مکھیا مغویہ کو برآمد کرنے کے لیے گیا تو انھوں نے اسے بے عزت کرکے بھگا دیا۔ جان بچانے کے لیے مکھیا بھی ان سے مل گیا اور کہہ دیا کہ لڑکی ان کے پاس نہیں ہے۔ غریب کی شکایت پر بادشاہ نے اپنے محافظ دستے کے دو بہترین کمانڈوز کو اس مکھیا کے علاقے میں بھیجا اور حکم دیا کہ وہ کسی کو نظر آئے بنا شاہراہ کا ایک درخت کاٹ آئیں۔

انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن جب مکھیا کو درخت کاٹے جانے کا پتہ چلا تو باز پرس کے ڈر سے اس کی جان پہ بن آئی۔ اس نے کھوجیوں کی مدد سے محافظوں کا تعاقب کیا اور بادشاہ کے محل تک جا پہنچا۔ کچھ زیادہ ہی اسمارٹ بننے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے بادشاہ سے مطالبہ کیا کہ درخت کاٹنے والوں کو اس کے حوالے کیا جائے۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی مستعدی اور قابلیت دیکھ کر بادشاہ اسے انعام و اکرام سے نوازے گا، لیکن اس وقت مکھیا کے ہاتھ کے طوطے اڑ گئے جب بادشاہ کے حکم پر اس کو الٹا لٹکا کر پوچھا گیا کہ وہ درخت کاٹنے والوں تک پہنچنے کی طرح مغوی لڑکی کیوں بازیاب نہ کرسکا۔

تو جناب ساری بات ہے نظام اور قانون بنانے اور اس پر عملدرآمد کرانے کی اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ خود بھی اس پر عمل کریں۔ لوگ جب آپ کو قانون کی پابندی کرتے ہوئے دیکھیں گے تو انھیں اس کی خلاف ورزی کرنے کی جرأت ہی نہیں ہوگی۔ اسحاق ڈار بھی پینشنرز کو سالانہ اضافہ نہ دیئے جانے پر باز پرس کر سکتے تھے جب انھوں نے خود اس خرابی کا بیج نہ بویا ہوتا۔ یہی وجہ کے وہ کسی خوف و خطر کے بغیر بیٹھے چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔

نہ تو وزیر خزانہ ان سے جواب طلب کر سکتے ہیں نہ ہی انھیں وفاقی محتسب کے با اختیار ادارے کی طرف سے اپنے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کا ڈر ہے کیونکہ ان کے بقول ( جیسا کہ پینشنرز کو ان کی جانب سے بتایا گیا ہے) پنشن میں مجوزہ دس فیصد اضافہ تبھی ممکن ہے، جب بجٹ میں اس کے لیے رقم مختص کی گئی ہوتی۔ اب یہ شیر شاہ سوری کا دور تو ہے نہیں کہ کہ وہ غریب پنشنرز کی شکایت پر ڈار صاحب کے ساتھ بھی مکھیا جیسا سلوک کرتا اور پوچھتا کہ وہ کیونکر اس مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ کاش ہم شیر شاہ سوری کی رعایا ہوتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں