لاہور۔ٹورانٹو۔وینکوور

انور مسعود کو زیادہ پیدل چلنے میں تکلیف ہوتی ہے سو ان کے لیے ویل چیئر کا انتظام کیا جاتا ہے


Amjad Islam Amjad April 25, 2017
[email protected]

1984ء کے پہلے سفر کینیڈا سے لے کر اب تک یہ اس سرزمین کی پانچویں یاترا ہے۔ پانچوں مرتبہ ٹورانٹو میں تو رکے لیکن باقی شہروں میں سے صرف ایڈمنٹسن اور کیلگری ہی کا چکر لگ سکا۔ موجودہ سفر کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وہ تمام شہر شامل ہیں جہاں جمیل الدین عالی' پروین شاکر اور علی سردار جعفری کے ہمراہ مشاعرے پڑھے تھے۔ البتہ ایک ایسے شہر کا اضافہ ضرور ہوا جسے کینیڈا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ صوبے برٹش کولمبیا کا یہ شہر وینکوور ٹورانٹو سے پانچ گھنٹے کی فضائی مسافت کے فاصلے پر ہے اور یہاں کا وقت بھی ٹورانٹو سے تین گھنٹے آگے ہے۔ اس سے آپ اس ملک کی جغرافیائی وسعت کا اندازہ کر سکتے ہیں جب کہ اس کی کل آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے۔

پروگرام کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے کہ 11 اپریل کو ٹورانٹو پہنچنے کے بعد ایک دن آرام کا وقفہ ہو گا اور اس کے بعد 13کو وینکوور پہنچیں گے جہاں 14کو پہلا مشاعرہ ہو گا جس کا اصل مقصد اور ہدف غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے لیے فنڈ ریزنگ ہے کہ جس کی مدد سے یہ لوگ گزشتہ 20 برس میں پاکستان کے دور دراز گاؤں اور پسماندہ ترین علاقوں میں اب تک 720 اسکول قائم کر چکے ہیں جن میں 92 ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں تقریباً تیس ہزار غریب' معذور اور یتیم بچوں کو مفت اور باقیوں کو بہت معمولی فیس کے عوض پانچ ہزار کے قریب اساتذہ علم اور تعلیم کی روشنی مہیا کر رہے ہیں۔ اخراجات کا ایک بڑا حصہ مقامی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے عطیات سے پورا کیا جاتا ہے۔ اس نیک کام میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے گزشتہ پانچ برسوں سے انور مسعود اور میں اس ادارے کے نمائندوں عامر محمود جعفری' ڈاکٹر اشتیاق گوندل اور وقاص جعفری صاحبان کے ہمراہ امریکا اور کینیڈا سمیت یورپ کے کئی ممالک کے دورے کر چکے ہیں۔ چودہ دن پر مشتمل اس موجودہ دورے میں ان کے پارٹنر مقامی تنظیم اکنا ریلیف کے احباب ہیں جن کے انچارج شوکت صاحب کا دفتر ٹورانٹو میں ہے۔ ہم بالترتیب مونٹریال'اوٹاوا اور ٹورانٹو۔

11اپریل کی صبح لاہور ایئرپورٹ سے بذریعہ پی آئی اے روانگی ہوئی، یہ فلائٹ بغیر کہیں رکے تقریباً چودہ گھنٹے میں ٹورانٹو پہنچی۔ احباب کے منع کرنے کے باوجود پی آئی اے سے سفر کا فیصلہ اس لیے کیا گیا کہ اپنے بہرحال اپنے ہوتے ہیں اور انھیں کسی بھی وجہ سے چھوڑنا اچھا نہیں لگتا۔ فلائٹ بہت ہموار اور عملے کا رویہ اور کھانا وغیرہ تو ٹھیک ٹھاک تھے مگر میری سیٹ سمیت ارد گرد کی چار سیٹوں میں سے تین کے ٹی وی مانیٹر خراب تھے، اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اتنی طویل پرواز میں اس سہولت کے بغیر سفر کرنا کس قدر تکلیف دہ ہو سکتا ہے اور یہ صورتحال بزنس کلاس میں تھی۔ عملے سے استفسار پر معلوم ہوا کہ اس خرابی کی اصل وجہ یہ ہے کہ جہاز کم ہونے کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال کے لیے ضابطے کے مطابق وقت نہیں ملتا۔ اب اگر اس بیان کو تسلیم کر بھی لیا جائے تب بھی یہ سوال اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے کہ اطلاعات کے مطابق فی جہاز تین گنا زیادہ بھرتی کیا گیا عملہ کس بات کی تنخواہ لیتا ہے؟ اور یہ کہ اس صورتحال میں صرف قومی ایئر لائن کی سرپرستی کا جذباتی رویہ کس حد تک قائم اور سلامت رہ سکتا ہے!

انور مسعود کو زیادہ پیدل چلنے میں تکلیف ہوتی ہے سو ان کے لیے ویل چیئر کا انتظام کیا جاتا ہے جس کے دو اضافی فائدے ہم سفروں کو یہ ہوتے ہیں کہ ہم سیکیورٹی چیک اور امیگریشن کی لمبی لمبی لائنوں میں لگنے سے بچ جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیں بھی ''خصوصی توجہ'' کی رعایت مل جاتی ہے سو یہاں بھی ایسا ہی ہوا لیکن اس کی ساری کسر بیگیج کی وصولی کے وقت نکل گئی۔ میرا اور برادرم عامر جعفری کا سامان تو فوراً آ گیا مگر انور مسعود کے بیگ نے کم از کم 45 منٹ انتظار کروایا۔

اکنا ریلیف کے مقامی سربراہ شوکت صاحب نے ایئرپورٹ کے قریب ہی سس ساگا کے علاقے میں واقع کوالٹی اِن میں ہماری رہائش کا انتظام کر رکھا تھا۔ رات کا کھانا پامیر نامی افغانی ہوٹل میں کھایا گیا، اگلے روز دوپہر کا لنچ قونصل جنرل عمران صدیقی نے اپنے گھر پر طے کر رکھا تھا جہاں کچھ احباب سے ملاقات اور کچھ سے تجدید ملاقات ہوئی اور یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ ٹورانٹو کا قونصلیٹ پاکستان کی تہذیب و ثقافت کو متعارف کرانے میں بہت عمدہ کام کر رہا ہے۔ عمران صدیقی کو خطاطی کے فن سے خصوصی رغبت ہے جس کی گواہی ان کے گھر کا ہر کونا دے رہا تھا۔

13اپریل کی صبح ہم ایئر کینیڈا سے وینکوور کی طرف روانہ ہوئے جس کے دوران مسافروں کو صرف چائے کافی یا کولڈ ڈرنک سے بہرہ مند کیا گیا کہ باقی کھانے پینے کی اشیاء قیمتاً خریدی تو جا سکتی تھیں مگر مختلف النوع خدشات کے باعث ہمارے لیے وہ ایک طرح سے شجر ممنوعہ تھیں سو ایئر پورٹ سے نکلتے ہی مقامی میزبان عبدالغفار غفاری اور داؤد احمد ہمیں ہوٹل کے بجائے ایک پاکستانی ریستوران میں لے گئے جس کے دروازے پر ہمارے 23 اپریل کو ہونے والے پروگرام کے پوسٹر چسپاں اور آویزاں تھے سو ہوا یوں کہ نہ صرف ریستوران کے مالک اور عملے نے ہمارے ساتھ تصویریں بنوائیں بلکہ کئی گاہکوں نے بھی اس عمل کو دہرایا یہاں دو پاکستانی بچیوں سے ملاقات ہوئی جو وہاں کی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں بلکہ ان میں سے ایک اسی ریستوران میں پارٹ ٹائم کام بھی کر رہی تھی تقریب کا اہتمام ایک وسیع اور عمدہ بینکوئٹ ہال میں کیا گیا تھا۔

جہاں سب سے پہلے ڈاکٹر ہما میر سے ملاقات ہوئی جو کچھ عرصہ قبل ہی یہاں شفٹ ہوئی ہے۔ اتفاق سے اسٹیج سیکریٹری کا نام بھی ہما تھا۔ یہ تقریب بزم سخن وینکوور کے تعاون سے ترتیب دی گئی تھی جس کے صدر ایک سردار صاحب تھے۔ ان احباب نے اپنی بزم کے اراکین کو اتنا زیادہ وقت دیا کہ فنڈ ریزنگ کا کام بیچ میں ہی رہ گیا یعنی ہمارا دو رکنی مشاعرہ تو خوب جما مگر جس مقصد کے لیے یہ سب اہتمام کیا گیا وہ ایک نوع کے بدنظمی کا شکار ہو گیا جس پر غزالی ٹرسٹ کے ڈائریکٹر اور ہمارے ہم سفر عامر محمود جعفری سے بھی زیادہ اکنا کے نمائندے غفاری اور داؤد صاحبان پریشان ہوئے۔ اس شہر میں سکھوں کی آبادی تقریباً چار لاکھ ہے جو غالباً بھارت سے باہر تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے جب کہ وہاں کی اپنی کمیونٹی بھی گزشتہ کچھ برسوں سے تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔