35 سماعتیں 111 گھنٹے 620 سوالات مقدمے کے دل چسپ اعداد وشمار

پاناما کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو بنچوں نے کی۔


پوری عدالتی کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 620 سوالات کیے گئے۔ فوٹو؛ فائل

23فروری کو سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی کارروائی کا126 واں دنتھا جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

قبل ازیں ہونے والی 35سماعتوں کے دوران فریقین کے وکلاء کو عدالت عظمیٰ نیمجموعی طور پر 111 گھنٹوں تک سُنا۔ اس عرصے کے دوران فریقین کی جانب سے بہ طور ثبوت 6000سے زاید صفحات پر مشتمل دستاویزات پیش کی گئی۔ حوالے کے طور پر چھے کتب بھی عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئیں۔

پوری عدالتی کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 620 سوالات کیے گئے۔ ان میں سے 270 سے زائد سوالات معزز جج صاحبان نے پوچھے جب کہ بقیہ سوالات فریقین اور ان کے وکلاء کی جانب سے کے گئے۔ عدالتی کارروائی کے دوران وقتاً فوقتاً معزز جج صاحبان دل چسپ ریمارکس بھی دیتے رہے۔ ایک موقع پر پانچ رکنی بنچ کے ایک رکننے ریمارکس دیے:''یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی نابینا اندھیرے کمرے میں کالی بلّی تلاش کررہا ہے جو غالباً وہاں موجود بھی نہیں ہے۔''

پاناما کیس کی سماعت سپریم کورٹ کے دو بنچوں نے کی۔ ابتدائی 9 سماعتی سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں بنائے گئے بنچ نے 19 اکتوبر سے 9دسمبر2016ء کے درمیان کیں۔ آخری 26 سماعتیں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے پانچ رکنی لارجر بنچ نے کیں۔

عدالتی کارروائی کے دوران فریقین کے وکلاء نے امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، بھارت، بنگلادیش اور نیوزی لینڈ سمیت دو درجن سے زاید ممالکمیں ہونے والے عدالتی فیصلوں کی مثالیں بہ طور حوالہ پیش کیں۔

وزیراعظم نوازشریف کے وکیلسلمان اکرم راجانے متعدد دستاویزات عدالت میں جمع کروائیں۔ ان دستاویزات میں قطری شہزادے کا دوسرا خط، مختلف کاروباری معاہدے، منی ٹریل کی شہادتی دستاویزات، منروا فنانشل سروسز کو فیس کی مد میںکی گئی ادائیگیوں کی رسیدیں، طارق شفیع کے دو نئے حلف نامے اور بہتسی دوسری دستاویزات شامل تھیں۔ سلمان اکرم نے ججوں کیآٹھ چُبھتے ہوئے سوالات کے جواب دیے اور عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر مزیدتفصیلات بھی پیش کیں۔ انھوں نے مجموعی طور پر 16 گھنٹے کا وقت لیا۔

ساڑھے چار ماہ تک جاری رہنے والی عدالتی کارروائی کے دورانججوں اور مدعیان کی وکلاء نے مدعا علیہان سے 250سے زاید چُبھتے ہوئے سوالات کیے۔جسٹس عظمت سعید نے 70سے زاید سوالات اٹھائے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 55جب کہ جسٹس اعجاز افضل نے دونوں فریقوںسے 35سے زاید سوالات کیے۔باقی سوالات فریقین کی پیروی کرنے والے وکلاء اورجسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس گلزار احمد کی جانب سے کیے گئے۔مدعیان کے وکلاء اورعوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید نے مجموعی طور پر 42 گھنٹے جب کہوکلاء صفائی نے41 گھنٹے کا وقت لیا۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور نیب کے وکلاء نے مشترکہ طور پر عدالت عظمیٰ کا تین گھنٹے وقت لیا۔ اٹارنی جنرل نے معزز ججوں کے سامنیساڑھے چار گھنٹے گزارے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نیحدیبہ پیپرمل ریفرنس کو ری اوپن کرنے کی اپیلدائر کرنے سے انکار پر نیب کے چیئرمین کی سخت سرزنش کی۔

سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پہلے بنچ نے پاناما کیس کی 22گھنٹوں تک سماعت کی تھی۔ دوسرے پانچ رکنی لارجر بینچنے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں اس کیس میں فریقین کو 72 گھنٹوں تک سُنا۔

وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خانکے دلائل17 گھنٹے تک جاری رہے۔ اس دوران انھوں نے 18 ممالک کی عدلیہ میں زیرسماعت رہنے والے 152کیسوں کا حوالہ دیا۔ اس دوران انھوں نے مختلف مواقع پر شیکسپیئر، ٹی ایس ایلیٹ، جارج برنارڈ شا اور شیلے کے اقوال بھی بیان کیے۔

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کرنے میں 18گھنٹے کا وقت لیا۔ جماعت اسلامی کی قانونی ٹیم کے سربراہ توفیق آصف نے معزز ججصاحبان کے رُوبرو ساڑھے چھے گھنٹے گزارے۔ تاہم ان کے دلائللارجر بنچ کی نظروں میں غیراہم ٹھہرے۔ تمام فریقین یعنی سیاسی جماعتوں کے وکلاء نے 35 سماعتوں کے دوران عدالت عظمیٰ میں مجموعی طور پر 94 گھنٹوں تک دلائل دیے۔

عدالتی کارروائی کے دوران روزانہ 36 سے زاید اراکین اسمبلی کمرۂ عدالت میںموجود رہتے تھے۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمینعمران خان نے پاناما کیس کی 32 سماعتوں میں موجود رہے۔ انھوں نے 93 گھنٹے کمرۂ عدالت میں گزارے۔ ان کی جماعت کے راہ نما جہانگیر ترین 67 اور شاہ محمود قریبی 62 گھنٹوں تکعدالتی کارروائی کے شاہد بنے۔

شیخ رشید 31 سماعتوں کے دوران اور83گھنٹوں تک کمرۂ عدالت میں موجود رہے۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے 26سماعتوں کے دوران کمرۂ عدالت میں موجودگی یقینی بنائی اور 76گھنٹوں تک عدالتی کارروائی کا مشاہدہ کیا۔ وزیردفاعخواجہ آصف اس کیس کے دوران آٹھ گھنٹے کے لییعدالت میںآئے۔ خواجہ سعد رفیق نے 13گھنٹے کمرۂ عدالت میں بِتائے۔

پاکستان مسلم لیگ ( نون) کی دو خواتین اراکین اسمبلی،وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب اوروزیرمملکت برائے سائنس و انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان 25 سماعتوں کے دوران موجود رہیں۔ انھوں نے عدالت کو بالترتیب65 اور 59 گھنٹے دیے۔وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ظفراﷲ خان ہر سماعت پر باقاعدگی سے عدالت آتے رہے۔ انھوں نے لگ بھگ 77 گھنٹے کمرۂ عدالت میں گزارے۔ نون لیگ کے اراکین اسمبلی طلال چوہدری، دانیال عزیز 24 سے زاید سماعتوں کے موقع پر عدالت میں موجود رہے۔

ججوں اور وکلاء نے کیس کی سماعت کے دورانوزیراعظم نوازشریف کی تقریر105 بار پڑھی۔ کمرۂ عدالت میں قطری خطوط اورتین قطری شہزادوں کے ناموں کا ذکر 112 بار ہوا۔ مدعیان اور مدعاعلیہان کی توجہ آئین کی دفعہ 10A، 19A، 62، 62(1)(e-f)، 63، 66، 69، 184(3)، 185، 187، 224 اور 248 پر مرکوز رہی۔ وزیراعظم کے وکیلنیدفعہ 66 پر خصوصی توجہ دی جس کے تحت ایک رکن پارلیمان کو ایوان میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔ وکیل صفائی کے لیے ' ڈینجر زون' پانچ دکھائی دیتے تھے:حسین اور حسن نواز کے لیے منی ٹریل واضح کرنا، مے فیئر کے فلیٹوں کی ملکیت، مریم نوازشریف کی کفالت،حدیبیہ پیپر ملز کیس، نیز یہ ثابت کرنا کہ آئین کی دفعہ 62 اور 63 کے تحت وزیراعظم صادق اور دیانت دار ہیں۔

پاناما کیس کے دوران عدالت عظمیٰ اور سماعت کے لیے آنے والے وی آئی پیز کی حفاظت کی خاطر سیکیوریٹیاقدامات پر قومی خزانے سے دو کروڑ روپے کے لگ بھگ اخراجات ہوئے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں