افغان پالیسی سازوں کی بصیرت کا امتحان۔۔۔۔۔۔

مشرقِ وسطیٰ ، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ بعید میں صورتحال مسلسل تبدیل ہورہی ہے



صدر بشار الاسد کو دباؤ میں لانے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے 7اپریل 2017ء کو شام کے فوجی ہوائی اڈوں پر ٹام ہاک نامی کروز میزائلوں سے حملہ کیا۔ اس حملے میں شامی ایئر فورس کے20طیارے گراؤنڈ پر ہی تباہ ہوگئے۔ بتایا گیا کہ یہ حملے شام کے شہر ادلب میں کیمیائی حملوں کے ردعمل میں شامی فضائیہ کی صلاحیت ختم کرنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اجازت سے امریکی فوجیوں نے جمعرات 13اپریل 2017کو افغانستان کے صوبے ننگر ہار میں پاکستانی سرحد کے قریبی علاقے میں غیر ایٹمی بموں میں سے مہلک ترین دس ٹن سے زائد بارودی مواد کا حامل بم گرادیا ہے۔ یہ بم بہت وسیع علاقے میں شدید تباہی پھیلاتا ہے۔ امریکا کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں یہ کارروائی اس علاقے میں داعش کے نیٹ ورک کو تباہ کرنے کے لیے کی گئی ہے۔

مشرقِ وسطیٰ ، جنوبی ایشیاء اور مشرقِ بعید میں صورتحال مسلسل تبدیل ہورہی ہے۔ افغانستان پر امریکی قیادت میں اتحادی افواج کے حملے کے بعد بننے والی حکومت امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ دوسری طرف افغانستان میں حکومت کے خلاف برسرِ پیکار طالبان اب اپنے سابق حریف ملک روس کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔دوستوں کے درمیان فاصلے ہورہے ہیں اور کل کے دشمن آج کے دوست بن رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء کے اس خطے میں امریکا، روس اور چین کے مفادات نمایاں ہیں۔ اس سارے پس منظر میں بھارت بھی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں مصروف ہے۔ بھارت افغانستان میں اپنے قدم جماسکے اس کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان زیادہ سے زیادہ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پروان چڑھائی جائیں۔ بھارت ایک طویل عرصہ سے مختلف طریقے استعمال کرکے یہ کام کررہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں 1947ء سے ہی مختلف اُتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ اس اُتار چڑھاؤ کی بڑی وجہ سوویت یونین کے افغانستان میں مفادات تھے۔ سوویت یونین کے زیرِ اثر افغانستان کسی وقت خواہش کے باوجود بھی پاکستان کے ساتھ گہرے دوستانہ تعلقات قائم نہ کرسکا۔ افغانستان پر سوویت نوازشات کی تاریخ دراصل قیامِ پاکستان سے پہلے کی ہے۔۔۔۔۔ اس کی وجوہات انڈین برٹش ایمپائر اور سوویت یونین کے درمیان ''دی گریٹ گیم'' کے نام سے معروف تنازعات میں پنہاں ہیں۔ سوویت یونین اپنے اور برٹش ایمپائر کے درمیان افغانستان کو ایک بفر اسٹیٹ کے طور پر دیکھتا تھا۔ برِصغیر میں برٹش ایمپائر کا تو 1947ء میں خاتمہ ہوگیا۔ اب افغانستان کا ہمسایہ ملک برٹش ایمپائر نہیں بلکہ ایک آزاد مسلمان ملک پاکستان ہے لیکن اس خطے کے بارے میں سوویت یونین کی پالیسی 1947ء کے بعد بھی دی گریٹ گیم کے اثرات سے باہر نہ نکلی۔ اس پالیسی کے تحت سوویت یونین افغانستان کو پاکستان کے خلاف مسلسل اُکساتا رہا۔

برصغیر میں برطانوی حکومت کے دوران سوویت یونین کا ایک مقصد بحیرۂ عرب اور بحر ہند کے پانیوں تک رسائی حاصل کرنا تھا۔1947کے بعد برٹش ایمپائر سے تو سوویت یونین کو کوئی خطرہ نہ رہا تھا لیکن جنوبی ایشیاء میں سمندر تک سوویت رسائی کا خواب تو بہرحال باقی تھا۔ 1988میں افغانستان سے سوویت پسپائی ، بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام اور وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے خود مختار ممالک میں تبدیلی کے بعد یہ معاملہ بھی ختم ہوا۔ سوویت یونین کے بکھرجانے سے وجود میں آنے والا ملک روس بھی اب سوویت دور کی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہے۔

سرد جنگ کے دوران کمیونسٹ یلغار روکنے کے لیے سیٹو (CETO)اور سینٹو(CENTO)معاہدے بھی بڑی حد تک غیر متعلق ہوچکے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اب روس کی پالیسیاں بھی تبدیل ہورہی ہیں۔ روسی افواج اور پاکستانی افواج کے درمیان تعلقات قائم ہورہے ہیں۔ پاکستان آرمی کے چیف جنرل راحیل شریف نے جون 2015میں ماسکو کا دورہ کیا۔ روسی فوج نے کریملین میں ایک پرشکوہ گارڈ آف آنر پیش کرکے پاکستانی فوج کے سربراہ کا استقبال کیا۔

افغان حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذہبی، ثقافتی اور لسانی گہرے تعلقات ہیں۔ پاکستان کے عوام نے افغانسان پر سوویت یونین کی جارحیت کے بعد لاکھوں افغانوں کی تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک میزبانی کی ہے اور ابھی بھی کررہے ہیں۔

افغانستان کا استحکام اور افغانستان کی ترقی پاکستان کو عزیز ہے۔ یہ افغانستان ہی نہیں خود پاکستان کے اپنے مفاد میں بھی ہے۔ سی پیک کی تعمیر سے افغانستان بہت زیادہ فوائد حاصل کرسکتا ہے۔

اب نہ سوویت یونین رہا، نہ برٹش ایمپائر۔ دی گریٹ گیم بھی اب تاریخ کی کتابوں کا حوالہ بن چکا ہے۔ افغانستان کے پالیسی سازوں کو بھی اب سوویت غلبے کے دور والے مائنڈ سیٹ سے باہر آنا چاہیے۔ بھارت کے عزائم سے پوری طرح باخبر رہنا بھی افغانستان کے اپنے مفاد میں ہے۔ بھارت کی جانب سے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں افغانستان کی محبت میں نہیںبلکہ پاکستان کی مخالفت میں ہیں۔ افغان پالیسی سازوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ بھارت افغانستان کو کیا دے سکتا ہے۔۔۔۔۔؟ افغانستان تک رسائی کے لیے بھارت کا انحصار تو خود پاکستان کی زمینی اور فضا ئی حدود پر ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات خود دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد میں ہیں۔ افغانستان اور بھارت کے قریبی تعلقات میں بھارت کا فائدہ زیادہ اور افغانستان کا بہت کم ہے۔ افغانستان سے قریبی تعلقات کے لیے بھارت کے پاس سب سے بڑی وجہ پاکستان کی مخالفت ہے۔ پاکستان کی مخالفت کے جنون میں بھارت کئی اہم پہلوؤں کو پسِ پشت ڈالے ہوئے ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس سے خطے کے سب ہی ممالک کو فائدہ ہوگا۔ ان خوشگوار تعلقات کے بہتر اثرات سے خود بھارت بھی توانائی اور دوسرے کئی شعبوں میں مستفید ہوسکتا ہے لیکن محض پاکستان کی مخالفت اور سی پیک کی تعمیر میں رُکاوٹیں کھڑی کرنے کی خواہش میں بھارتی پالیسی ساز افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔

موجودہ وقت افغانستان کے پالیسی سازوں کی بصیرت کا امتحان ہے۔ انھیںصرف محدود اور وقتی فائدے ہی نہیں بلکہ افغانستان اور پاکستان کی آیندہ نسلوں کی بہتری کے امکانات ذہن میں رکھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ افغانستان کو سوویت یونین کی جارحیت اور قبضے سے نجات دلانے میں پاکستانی قوم کی بہت زیادہ قربانیاں شامل ہیں۔ پاکستان چاہتا ہے کہ اس کاپڑوسی ملک افغانستان محفوظ اور پر اُمن ہو۔امن کے حصول میں دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور سول و ملٹری اسٹبلیشمٹ میں افغانستان کے بارے میں مخلصانہ جذبات پائے جاتے ہیں۔ افغان حکومت اور پالیسی سازوں کو ان مخلصانہ جذبات کا جواب خیرسگالی اور اخلاص کے ساتھ دینا چاہیے۔

قومی سلامتی ۔۔۔۔۔پیش منظر۔

پاکستان کے ایڈیٹرز کی تنظیم سی پی این ای کی سکل ڈیولپمنٹ کمیٹی کی جانب سے پیشہ ورانہ اُمور پر نشستوں اور بریفنگز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ راقم الحروف اس کمیٹی کا چیئرمین ہے۔

قومی سلامتی ڈویژن اسلام آباد میں قومی سلامتی کے حوالے سے اس کمیٹی کے لیے ایک بریفنگ کا اہتمام کیا گیا۔ مشیر قومی سلامتی لیفٹنٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ نے سی پی این ای کی اس کمیٹی کے ارکان کو قومی، علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کی سلامتی کی صورتحال پر بریفنگ دی۔

نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے انتہائی اہم عہدے پر تقرری سے قبل لیفٹنٹ جنرل ناصر بلوچستان کے کور کمانڈر تھے۔ بلوچستان میں کور کی سربراہی کے دوران جنرل صاحب نے بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے جو کوششیں کیں اور بلوچستان کے عوام کے دلوں میں جو قدر و منزلت بنائی ایک زمانہ اس کا گواہ ہے۔ اس سے قبل بحیثیت جی او سی جنرل صاحب نے سوات آپریشن کے دوران کئی تاریخی کامیابیاں اور عوام کی بھرپور محبت حاصل کی۔ پاکستان کے استحکام کے لیے ناصر خان جنجوعہ کی کوششیں اور پاکستان کے مسقبل پر ان کا بھرپور یقین ، پوری قوم خصوصاً نوجوان نسل کے لیے حوصلوں کی بلندی اور وطن سے محبت میں اضافے کا باعث ہے۔

پاکستان سول سروس کے ایک نہایت محترم اور بہت پروفیشنل افسر شعیب احمد صدیقی نیشنل سیکیورٹی ڈویژن کے سیکریٹری ہیں۔ اس بریفنگ کے انعقاد میں شعیب احمد صدیقی کا گراںقدر تعاون لائقِ تحسین ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں