دیکھا تیرا امریکا اکیسویں قسط

ہماری بیگم ایسے موقع پر کہاں چوکنے والی تھیں، بولیں اچھا تو ہم جھمیلا ہیں، اگر ہم جھمیلا ہیں تو پھر کیوں کی تھی شادی؟


رضاالحق صدیقی April 10, 2017
ایک روز موڈ بنا تو بچوں سے کہا کہ آج کا کھانا میری طرف سے ہوگا، لیکن چلو وہاں جہاں دیسی لاہوری اسٹائل کا کھانا مل سکے۔ فوٹو: فائل

SWANSEA:  

واٹر گیٹ کمپلیکس


 

امریکہ میں حلال کھانا اگر گھر کے باہر کھانا ہو تو نیویارک میں تو ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہاں کے کئی علاقے صرف اِسی حوالے سے مشہور ہیں، لیکن ہم چونکہ میری لینڈ میں ٹھہرے ہوئے تھے اِس لئے وہاں جب لاہوری اسٹائل کے کھانا کھانے کی چاہت ہوتی اِس چاہت کو حاصل کرنے کے لیے کم از کم ایک ڈیڑھ گھنٹے طویل سفر کرنا پڑتا۔


دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا(سولہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (سترہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا(اٹھارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (انیسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (بیسویں قسط)

فاصلوں کی پیمائش اگرچہ کلومیٹروں اور میلوں میں ہوتی ہے، لیکن امریکہ میں اگر کسی سے پوچھو کہ فلاں علاقہ کتنے فاصلے پر ہے تو جواب ملتا ہے آدھ یا پون گھنٹے کی ڈرائیو پر۔

اُس روز پروگرام بنا کہ کھانا باہر کھایا جائے۔ عدیل کی رہائش کے اردگرد حلال کھانے کا کوئی مرکز موجود نہیں تھا، سوائے پیزا کے۔ پیزا میں بھی یہ قباحت ہے کہ اُس میں جو چکن استعمال ہوتی ہے وہ حلال نہیں بلکہ جھٹکے کی ہوتی ہے۔ امریکیوں کا تو خیر وہاں جھمگھٹا لگا ہوتا ہے لیکن ہم سے تو جانتے بوجھتے مکھی نہیں نگلی جاتی، ہاں اگر کبھی پیزا کھایا بھی تو صرف ویجیٹیبل۔

ایک روز موڈ بنا تو بچوں سے کہا کہ آج کا کھانا میری طرف سے ہوگا، لیکن چلو وہاں جہاں دیسی لاہوری اسٹائل کا کھانا مل سکے۔

راوی، ورجینیا میں لاہوری اسٹائل کے کھانوں کے لئے مشہور ہے۔ اردگرد کی ریاستوں سے بھی لوگ یہاں کھانا کھانے آتے ہیں۔ عدیل اور رابعہ بتارہے تھے کہ فہیم بھائی چار گھنٹے کی ڈرائیو کرکے یہاں کی کڑاہی کھانے آتے ہیں، میں نے کہا کہ چلو وہیں چلتے ہیں۔

ورجینیا جاتے ہوئے جب ہم واشنگٹن ڈی سی سے گزر رہے تھے تو ایک بلڈنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عدیل نے بتایا کہ اِس عمارت میں شازیہ باجی اور احرار بھائی رہتے ہیں۔ وہاں سے تھوڑا آگے ایک وسیع و عریض عمارت نظر آئی۔ امریکہ میں سرکاری عمارتیں علیحدٰہ اور دور سے ہی پہچانی جاتی ہیں، یہ بھی کوئی سرکاری عمارت لگتی ہے، میں نے عدیل سے پوچھا۔

'ہاں جی، یہ ہے ہی زبردست اور اہم عمارت'، عدیل نے جواب دیا۔

'وہ کیسے'، میں نے پوچھا۔

'یہ عمارت واٹر گیٹ کمپلیکس ہے۔ اِس عمارت میں ایک اسکینڈل نے جنم لیا تھا جس نے امریکہ کی سیاست پر گہرا اثر ڈالا تھا اور ایک امریکی صدر کو اِس اسکینڈل کی بناء پر اقتدار چھوڑنا پڑگیا تھا'، عدیل نے جواب دیا۔



عدیل نے بتایا کہ یہ کوئی 35 یا 36 سال پرانا واقعہ ہے۔ میں تو اُس وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا اور شاید آپ بھی ابھی پڑھتے ہی ہوں گے؟

اتنی دیر میں گاڑی تو آگے بڑھ گئی لیکن واٹر گیٹ کمپلیکس نے مجھے کالج کے دور میں پہنچا دیا۔ اُس وقت گھر پر اخبار اور ریڈیو ہی اطلاعات کا ذریعہ تھے۔ اگرچہ پاکستان میں ٹیلی ویژن شروع ہوئے چھ سات سال ہوگئے تھے لیکن اُس کی نشریات کا احاطہ زیادہ دور تک نہیں تھا۔ ساہیوال میں اُس کی نشریات زیادہ صاف نہیں تھیں اور شہر میں ٹیلی ویژن سیٹ بھی زیادہ نہیں تھے۔ والد صاحب چند دن پہلے بلیک اینڈ وائیٹ آرجی اے کا سلائڈنگ ڈور والا ٹی وی لائے تھے۔

غالباََ سن 1972ء کا کوئی مہینہ تھا جب حکومت نے پہلی بار پاکستانیوں کو پاکستانی ہونے کی شناخت یعنی شناختی کارڈ کا اجراء کیا تھا۔ اُسی زمانے میں جب اخبارات میں شناختی کارڈ کے اجراء کی خبریں چھپیں تو ساتھ ہی بین الاقوامی خبروں میں امریکہ میں واٹر گیٹ اسکینڈل کے بارے میں خبریں آنی شروع ہوئیں۔ دن میں اخبارات سے معلومات اکھٹی کرنا اور رات کو کیفے ڈی روز پر بیٹھ کر دوستوں سے اُن پر گفتگو کرنا روز کا معمول تھا۔ ہمارے دوستوں میں یوں تو بہت سارے دوست ہوتے تھے لیکن اُن میں سے راو شفیق اور نعیم نقوی خبروں پر گرما گرم تبصرے کیا کرتے تھے۔ راو چونکہ کالج میں ہم سے دو سال اگلی جماعت میں تھا اِس لئے اُس کی معلومات مجھ سے بہرطور زیادہ تھیں۔ اُس نے واٹر گیٹ والی خبر پر امریکہ کی سیاست اور اُس کے پاکستانی سیاست پر اثرات کے حوالے سے اِس یقین کے ساتھ بات کی کہ ہمیں لگتا تھا کہ یار یہ درست کہہ رہا ہے۔

'پاپا کہاں کھوگئے؟'، عدیل نے مجھے خاموش دیکھ کر پوچھا۔

'ارے کچھ نہیں یار، واٹر گیٹ کمپلیکس دیکھ کر وہ زمانہ یاد آگیا جب یہ واقعہ ہوا تھا۔ اخبارات میں بڑا چرچا ہوا تھا۔ ہمارا طالب علمی کا زمانہ تھا اور ابھی ہم شادی کے جھمیلے میں بھی نہیں پھنسے تھے، آزادی کے دن تھے، واہ کیا دن تھے'، ہم نے ہنس کر جواب دیا۔

ہماری بیگم ایسے موقع پر کہاں چوکنے والی تھیں، بولیں اچھا تو ہم جھمیلا ہیں، اگر ہم جھمیلا ہیں تو پھر کیوں کی تھی شادی؟

'ارے بابا تمہیں نہیں کہا، تم تو ایسے ہی لڑنے لگیں'، ہماری بات سن کر بچے ہنسنے لگے۔

واٹر گیٹ اسکینڈل کا آغاز اِسی کمپلیکس سے ہوا تھا۔ یہ 17 جون 1972ء کا واقعہ ہے کہ ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی کے اِس کمپلیکس میں واقع دفتر میں چوروں کے ایک گروہ کو گرفتار کیا گیا۔ یہ کوئی عام چوری کا واقعہ نہیں تھا۔ یہ کوچہ گرد جو گرفتار ہوئے تھے صدر رچرڈ نکسن کی ری الیکشن کمپیئن سے منسلک تھے اور یہ اُس وقت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے جب یہ ٹیلی فون کے تاروں کے ساتھ فون کال ٹیپ کرنے کے آلات منسلک کر رہے تھے اور خفیہ دستاویزات چرا رہے تھے۔

تاریخ دانوں کا کہنا تھا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ صدر رچرڈ نکسن کو واٹر گیٹ جاسوسی مشن کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے اِس کا علم تھا یا نہیں۔ لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ صدر رچرڈ نکسن نے واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد چوری کے واقعہ کو دبانے کے لئے کثیر رقم خرچ کی۔ ایف بی آئی کو جرم کی تحقیقات سے روکنے کے لئے سی آئی اے کو استعمال کرنے کے علاوہ شہادتوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اِس کے علاوہ اُن تمام اسٹاف ممبروں کو عہدوں سے فارغ کردیا جو تعاون پر تیار نہیں تھے۔ آخر کار اگست 1974ء میں واٹر گیٹ سازش میں صدر نکسن کا کردار سامنے آنے پر انہوں نے بطور صدر استعفیٰ دے دیا۔ لیکن اُن کے جانشین جیرالڈ فورڈ نے صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی نکسن کے تمام تسلیم شدہ جرائم کو معاف کرنے کے لیے صدارتی حق استعمال کیا اور یوں نکسن معصوم ٹھہرادیے گئے۔

اگرچہ صدر نکسن کو اُس کیس میں عدالت کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا لیکن واٹر گیٹ اسکینڈل نے امریکہ کی سیاست کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کردیا۔ اب امریکہ کے عوام صدارتی محل اور اپنے لیڈروں کے لئے زیادہ تنقیدی ہوگئے ہیں، خاص طور پر صدر کے عہدے کی جانب سے کئے گئے اقدامات پر زیادہ ہی تنقیدی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سن 1976ء کے الیکشن میں اگرچہ صدر فورڈ نے نکسن اور واٹر گیٹ اسکینڈل کو نظر انداز کردیا لیکن اُن کے ڈیموکریٹک حریف جمی کارٹر نے واٹر گیٹ اسکینڈل کو اِس طرح استعمال کیا کہ صدر فورڈ صدارتی دوڑ میں دو فیصد ووٹوں سے شکست کھا گئے کیونکہ عوام واٹر گیٹ اسکینڈل میں نکسن کی حمایت کرتے ہوئے صدر فورڈ کے معافی کے اعلان کو نہیں بھولے تھے۔

آج جب میں پاکستان میں بیٹھا اپنی یادداشتوں کو ضبطِ تحریر میں لارہا ہوں تو مجھے واٹر گیٹ اسکینڈل کے حوالے سے امریکی ادارے نیشنل سکیورٹی ایجنسی (NSA) کے ایک منحرف جاسوس ایڈورڈ اسنوڈن کے برطانوی نشریاتی ادارے گارڈین میں چھپنے والا انٹرویو یاد آگیا جس کے مطابق ایجنسی کو اختیارات حاصل ہیں کہ وہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں افراد کے حوالے سے تمام معلومات حاصل کرنے میں آزاد ہے جس میں ہر فرد کی ای میلز، آن لائن چیٹ اور نیٹ پر کی گئی تمام کی تمام ریسرچ شامل ہے۔ نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے جس سسٹم کے ذریعے جاسوسی شروع کر رکھی ہے اُس نیٹ ورک کا نام ''ایکس کی اسکور(x key score)'' رکھا ہے۔ یہ نیٹ ورک انٹرنیٹ پر جاسوسی کا سب سے بڑا سسٹم ہے۔ سابق امریکی جاسوس ایڈورڈ اسنوڈن نے جب برطانوی نشریاتی ادارے 'گارڈین' کو پہلا انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ
'میں یہاں آپ کے سامنے بیٹھا ہوں اگر مجھے آپ کا یعنی میزبان کا یا آپ کے اکاونٹینٹ کا ای میل پتہ ہو تو انٹرنیٹ پر میں آپ کی تمام کی تمام سرگرمیوں کا پتہ لگا سکتا ہوں۔'

ایڈورڈ اسنوڈن کے اِس انکشاف نے نہ صرف انٹرنیٹ صارفین بلکہ دنیا بھر کی حکومتوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایڈورڈ اسنوڈن کے اِس بیان کی امریکی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین مائیک راجر نے تردید کردی کہ ایسا کرنا ناممکن ہے اور امریکہ کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے اور ایڈورڈ اسنوڈن جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن ایکس کی اسکور ٹیکنالوجی کے وسیع نیٹ ورک کی اسٹڈی سے ایڈورڈ اسنوڈن کا انکشاف ثابت ہوتا ہے کہ ایکس کی اسکور نیٹ ورک کی مدد سے ہر شخص کے ای میل اور اُس کی تمام تر سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔ اِس نیٹ ورک کے ذریعے امریکی خفیہ ادارے جاسوسی کر رہے ہیں اور اِس نیٹ ورک کو خفیہ اداروں نے ڈیجیٹل نیٹ ورک انٹیلی جنس کا نام دے رکھا ہے۔ ایکس کی اسکور کی مدد سے کمپیوٹر صارفین کے اوقات تک کا پتہ چلایا جاسکتا ہے کہ فلاں وقت پر وہ کیا کر رہا تھا۔

امریکی قانون کے مطابق امریکی شہری کی نگرانی یا جاسوسی کرنا غیر قانونی ہے مگر ایکس کی اسکور کی مدد سے آج امریکہ میں مقیم کوئی شہری بھی محفوظ نہیں ہے۔ اُن کی نجی زندگی کی بھی نگرانی کی جارہی ہے۔ ایکس کی اسکور کی مدد سے خفیہ اداروں کے اہلکار کمپیوٹر کے ذریعے ہونے والی فون کالز ریکارڈ کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کے کمپیوٹر میں موجود تمام ہسٹری بھی حاصل کی جاسکتی ہے کہ فلاں بندے نے اتنے دنوں انٹرنیٹ پر کیا کیا کام کیا اور کن سے رابطہ کیا؟

حیران کن امر یہ بھی ہے کہ خفیہ حکام کمپیوٹر استعمال کرنے والے کا نام، اُس کے کمپیوٹر کا آئی پی نمبر، کی ورڈز، وہ زبان جس میں وہ کمپیوٹر استعمال کر رہا ہے اور وہ نیٹ ورک جس کے ذریعے وہ انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے حاصل کرچکے ہیں اور یہ سب سپر ایکس کی اسکور نیٹ ورک سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہوا ہے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی کے مطابق انہوں نے سن 2008ء میں ایکس کی اسکور کی مدد سے 300 دہشت گردوں کو پکڑا تھا۔ سن 2012ء میں نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے فیصلہ کیا کہ ہر ای میل آئی ڈی اور اُس ای میل کو استعمال کرنے والے کا نام، فون نمبر اور فون کرنے والے کی نگرانی کی جائے گی اور ریکارڈ رکھا جائے گا اور رکھا جا رہا ہے۔

ایڈورڈ اسنوڈن نے جون 2013ء میں گارڈین کو دوسرا انٹرویو دیا جس میں ایکس کی اسکور کے فنکشن کے بارے میں بتایا۔ ایڈورڈ اسنوڈن کے مطابق ای میلز تلاش کرنے کے لئے خفیہ اہلکار ایکس کی اسکور سادہ طریقے سے آن لائن سرچ فارم میں رکھتے ہیں، جس کے بعد ای میلز کا ریکارڈ، تاریخ اور وقت کے حساب سے کمپیوٹر اسکرین پر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اُس سافٹ ویئر (ایکس کی اسکور) کی مدد سے ای میلز کے جوابات بھی پڑھے جاسکتے ہیں۔ ای میلز کے علاوہ ایکس کی اسکور سافٹ ویئر کی مدد سے سوشل میڈیا کی بھی نگرانی کی جاسکتی ہے۔ فیس بک چیٹ اور پرائیویٹ پیغامات بھی اب امریکہ کے خفیہ اداروں کی پہنچ سے دور نہیں ہیں۔ ایکس کی اسکور سافٹ ویئر کی مدد سے ہر اُس شخص کے کمپیوٹر کا آئی پی نمبر حاصل کیا جاسکتا ہے جس نے انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کا کوئی بھی پیج وزٹ کیا ہو یا کھولا ہو۔

سن 2007ء کی امریکی نیشنل سکیورٹی ادارے کی اپنی رپورٹ کے مطابق اِس وقت تک انہوں نے 8 کھرب 50 ارب کالز کا ڈیٹا اسٹور کیا ہے۔ سن 2012ء میں امریکی ادارے کے ڈیٹا ریکارڈ کے مطابق 20 کھرب کالز کی معلومات موجود تھیں، یہ فون کالز اور ای میلز کا ریکارڈ تھا۔ واشگٹن پوسٹ کے مطابق ایکس کی اسکور سافٹ ویئر کی مدد سے امریکہ خفیہ ادارہ (NSA) روزانہ کی بنیاد پر ایک ارب 70 کروڑ ای میلز اور فون کالز کی نگرانی کرتا ہے اور اُن کا ڈیٹا اسٹور کرتا ہے۔ ایکس کی اسکور سافٹ ویئر کی مدد سے انٹرنیٹ کا ڈیٹا قلیل عرصے تین سے پانچ دن تک اسٹور کیا جا سکتا ہے۔ اِس مشکل کو حل کرنے کے لئے اِس ادارے نے (Multi-liesed system) بنایا ہے جس کا نام پن ویل (Pin wale) رکھا گیا ہے۔ پن ویل کی معلومات کو پانچ سال تک اسٹور کیا جاسکتا ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی نے امریکی شہریوں کا ریکارڈ الگ اور دوسرے ممالک کا ریکارڈ الگ محفوظ کر رکھا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے گارڈین نے یہ رپورٹ بھی شائع کر رکھی ہے کہ مائیکرو سافٹ کمپنی نے بھی سی آئی اے اور ایف بی آئی کو اپنے سافٹ وئیر تک رسائی دے رکھی ہے۔ امریکی اداروں نے جاسوسی کے لئے اور ڈیٹا اسٹور کرنے کیلئے بڑی بڑی سافٹ وئیر کمپنیوں سے معاہدے کرلئے ہیں جن میں گوگل، مائیکرو سافٹ، فیس بک اور ایپل شامل ہیں۔ مائیکرو سافٹ نے skype متعارف کرایا جو آج کل بہت مقبول ہے۔ اسی طرح اسکائیپ کے مارکیٹ میں آنے کے ٹھیک نو ماہ بعد امریکی اداروں نے اُس کی بھی ریکارڈنگ شروع کردی تھی۔

واٹر گیٹ اسکینڈل کے 1972ء میں وقوع پذیر ہونے اور اُس کے نتیجے میں اپنے صدر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کرنے والے امریکی معاشرے نے اپنے اِس سبق پر عمل پیرا رہنے کے بجائے جاسوسی کے غلط استعمال کو اپنے ہر شعبہ میں رائج کرلیا ہے۔

راو شفیق نے 1972ء میں ٹھیک ہی کہا تھا کہ ہمارے ہاں امریکہ کی سیاست کے گہرے اثرات پڑتے ہیں۔ اخبارات اور سوشل میڈیا پر دو خبریں اہم نظر آئیں ایک فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر کی انہار دودھ فیکٹری پر چھاپے، اُس کے او ایس ڈی بنائے جانے اور پھر اُس سے تردید کرانے کی خبر۔ دوسری پی ٹی آئی کے سربراہ کی پریس کانفرنس جس میں انہوں نے حلقہ 122 میں 28 ہزار ووٹوں کے درآمد برآمد ہونے کا ذکر کیا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ بھی واٹر گیٹ اسکینڈل سے کم نہیں ہے۔

 
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔




اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں