کڑوا لیکن سچ

ہمارے لوگ محفل جماتے ہیں تو فریق بن کر ملکی سیاست پر دھواں دار ڈیبیٹ کرتے ہیں


Hameed Ahmed Sethi April 09, 2017
[email protected]

ہمارے لوگ محفل جماتے ہیں تو فریق بن کر ملکی سیاست پر دھواں دار ڈیبیٹ کرتے ہیں یا پھر کسی دانشور کے اخبار میں لکھے اور ٹیلیوژن پر بولے خیالات پر اظہار پسندیدگی و ناپسندی کرتے ہیں۔ چند روز قبل ملکی سیاست ہی زیر بحث تھی تو ایک دوست نے کہا کہ معروف قلم کار کو پڑھنے اور ٹی وی پر سننے والے دو قسم کے لوگ ہیں ایک جو ان کو بے حد پسند کرتے ہیں اور دوسرے جو ان کی آراء کے شدید ناقد ہیں اور پھر بھی انھیں پڑھے سنے بغیر نہیں رہ سکتے۔

دوسری قسم کے احباب کو ان کے تنقیدی خیالات اور نشتر آلود جملوں پر اعتراض تو ہوتا ہے لیکن حیرت ہے کہ اختلاف بھی نہیں ہوتا۔ ان دوسری قسم کے احباب کی نمایندگی کرنے والے دوست کے دلچسپ تبصرے کے تصدیق کے لیے میں نے ذرایع ابلاغ کا سہارا لینے کا سوچا اور اب میرے پیش نظر خبر اور اطلاع تک پہنچنے یعنی جانکاری کے دو ہی معتبر ذرایع تھے، ٹیلیوژن اور اخبار، لہٰذا میں نے اردو اور انگریزی کے معروف اخبارات پر انحصار کرنے اور انھی سے استفادہ کرنے کی ٹھانی تاکہ موصوف قلم کار کے خیالات کی سچائی یا مبالغہ آرائی کا جائزہ لینے میں آسانی ہو۔

''ہمارے ملک اور معاشرے میں سب اچھا ہے'' کی رائے عموماً حکمرانوں اور ان سے وابستہ لوگوں کی ہوتی ہے اور اگر یہ مبنی برحقیقت ہو تو کیا ہی بات ہے لیکن دنیا میں کسی جگہ بھی ''سب اچھا'' نہیں ہوتا اس لیے کہ خیر کے ساتھ شر ہرجگہ قدم بہ قدم ہوتا ہے۔ اس لیے صرف بدی اور خرابی کی تشہیر موضوع کے ساتھ بے انصافی ہوگی۔ اب لیتے ہیں گزشتہ چند روز کی اہم خبروں کا بے لاگ جائزہ۔

ہمارے ملک میں جہالت، گمراہی، تعصب، ضعیف الاعتمادی، پیر پرستی، جعلسازی، کفر سازی، جھوٹ، فریب، بداعمالی، دھوکا دہی، کرپشن، لاقانونیت، گندگی اور ملاوٹ جیسے امراض نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اس نوعیت کی خبروں اطلاعات و معلومات کی فراوانی کے ہوتے ہوئے اور مثبت و دلخوش کن خبروں کی عدم موجودگی کے ماحول میں تو یہی شعر دل و دماغ میں گونجتا ہے کہ

دل بجھ چکا ہے اب نہ مسیحا بناکرو
یا ہنس پڑو یا ہاتھ اٹھا کر دعا کرو

خبر اور اطلاع تک رسائی کے اہم ذریعے اردو اور انگریزی میں پہلے صفحے پر چھپی کچھ خبریں اخبارات سمیت میرے سامنے ہیں۔ ایک عام قاری کو تو چھوڑیے ملک کے ایک حساس دانشور کو ذہن میں رکھ کر جو اتفاق سے ایک قلم کار اور تجزیہ نگار بھی ہو آپ بھی ان خبروں پر نظر دوڑا دیکھیے جو گزشتہ چند روز میں شایع ہوئیں۔

تیسری بار پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہونے والا شخص ایک سال سے الزامات کی زد میں ہے۔ اس قضیے کا عدالتی اور پبلک ٹرائل کب کا ہو چکا۔ عدالت عظمی کا فیصلہ کیا اور کب آئیگا۔ تو پھر ایک دانشور صحافی اس معاملے پر کچھ بولے کہ نہ بولے اور بولے تو کیا بولے لکھے تو کیا لکھے؟

کچھ روز قبل ریڈیو اخبار اور ٹی وی کی خبروں سے معلوم ہوا کہ ضلع سرگودھا کے ایک گاؤں کے مزار کے جعلی گدی نشین نے بیس سے زیادہ ضعیف الاعتقاد مریدوں کو ان کے گناہ دھونے کے لیے اور دوبارہ نیک پاک زندہ کردینے کے معجزے کے وعدے پر ڈنڈوں سے مار مار کر قتل کر دیا ہے۔ وہ جعلی پیر ایک سرکاری محکمے سے کرپشن کی بنیاد پر نکالا گیا تھا۔ سرگودھا کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے، جعلی پیروں کی داستانیں جگہ جگہ سننے کو مل جاتی ہیں لیکن حکمران نوٹس نہیں لیتے۔

چند ہفتے قبل سب TV دیکھنے والوں نے ایک ایسے ہی پیر کے گندے پانی میں پال کر رکھے ہوئے کچھوے بابا کا درشن بھی کیا تھا جو ایک گاؤں کے بداعتقاد مریدوں کا کچھوا سائیں اور من کی مرادیں پوری کرنے والا اللہ لوک تھا۔ اس کچھوے بابا کا مالک ایک جواری پیر تھا۔ ایسے جعلی اللہ لوک انسانوں اور حیوانوں پر تو ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اس وقت پنجاب کے محکمہ اوقاف کے ساتھ 552 مزار یا درگاہیں رجسٹرڈ ہیں جب کہ سرگودھا کے گاؤں جیسی ہزاروں اصلی نقلی درگاہیں اوقاف کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں بلکہ کسی ادارے کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ قبر کے اندر کون اور کیا دفن ہے۔

ملک میں روزگار کے مواقعے کم ہونے اور سرکاری محکموں میں کرپشن کے موقعے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ملازمت دینے یا دلوانے والا بااختیار شخص قبل از وقت اپنی قیمت وصول کرلیتا یعنی ملازمت کی سیل لگا دیتا ہے اور میرٹ کے بجائے رشوت کی بنیاد پر نوکریاں دیتا ہے۔ چند روز ہوئے خبر پڑھی کہ بلوچستان کے ہوم منسٹر نے آئی جی جیلخانہ جات کی طرف سے کی گئی 200 اسامیوں پر تعینات افراد کی بھرتیاں کالعدم کردی ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اول یہ افراد میرٹ پر نہیں اترتے تھے۔ دوم یہ کہ ہر بھرتی ہونے والے امیدوار سے رشوت لی گئی تھی۔

لوگ جب بھی آصف علی زرداری کو کسی جلسے میں تقریر کرتے دیکھتے ہیں تو یکدم انھیں ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو یاد آجاتے ہیں۔ بھٹو صاحب نے اپنے ہموطنوں سے روٹی کپڑا اور مکان دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے وعدہ ایفا کرنے کی کوشش بھی کی۔ آصف زرداری تقریر کے دوران اچانک سامعین کی طرف دیکھ کر مسکراتے اور ان کی طرف Flying Kisses یعنی ہوائی چمیاں پھینکنا شروع کردیتے ہیں جس پر سامعین اور ٹی وی ناظرین کی بھی ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ سب ان کا محبت سے لبریز وعدہ سمجھ جاتے ہیں۔

نون لیگ کے حکمران میاں صاحبان بھی متعدد بار بلکہ بار بار عوام کو بجلی پانی اور گیس چوبیس گھنٹے دینے بلکہ وافر بجلی میں سے بہت سی بجلی بھارت کے وزیراعظم مودی کو دینے کا وعدہ بھی کرچکے ہیں۔ لیکن اب گزشتہ دس روز سے جب کہ ابھی اپریل کا مہینہ شروع ہوئے نو دن ہوئے ہیں۔ اخبارات کے پہلے صفحے پر ہر روز دس بارہ بلکہ اس سے بھی زیادہ گھنٹے تک بجلی کی لوڈشیڈنگ اور عوامی ہنگاموں کی خبریں چھپ رہی ہیں۔

بچوں کو لنگڑا لولا ہونے سے بچانے کے لیے محکمہ صحت کی ہیلتھ وزیٹرز جان پر کھیل کر گھر گھر انھیں پولیو کے قطرے پلانے جاتی ہیں۔ دوزخی دہشتگرد ان پر حملے کرتے ہیں اور بے شمار ہیلتھ وزیٹرز یہ کار خیر کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو چکی ہیں۔ ان دنوں دو دہائیوں کے بعد عدالتی حکم پر حکومت مردم شماری کررہی ہے لیکن دہشتگردوں نے مردم شماری ٹیم پر لاہور میں خودکش حملہ کرکے چار نگران فوجیوں سمیت سات افراد کو شہید اور بائیس کو زخمی کردیا۔

مختصر خبر ہے کہ قومی ایئر لائن کے طیارے میں سے جس کا سلوگن کبھی ''باکمال لوگ لاجواب پرواز'' اور انگریزی میں Great" People To Fly With" ہوتا تھا، کراچی ہوائی اڈے پر 15 کلو ہیروئن برآمد ہوئی ہے اور یہ ہماری پرائیڈ ایئرلائن کا پہلا کمال نہیں ہے۔

اب بتائیے میں ہوں یا آپ چند روز کی یہ خبریں پڑھ کر بصورت کالم یا کمنٹ جو بھی خیال کریں گے وہ کڑوا لیکن سچ ہوگا اور اسے بہر صورت نگلنا بھی پڑے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں