اکیسویں صدی کے نئے مہاجر
انسان زندگی کی ابتدا سے ہی مختلف عوامل کی بنا پرایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے
انسانی تاریخ اورہجرت دونوں کا سفر ایک ساتھ شروع ہوا۔ انسان زندگی کی ابتدا سے ہی مختلف عوامل کی بنا پرایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا رہا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 1951ء میں منظورکی جانے والی تعریف کے مطابق مہاجر ایسے فرد کوکہا جاتا ہے جنھیں کسی ظلم وستم، تشدد خاص طور پر نسل، مذہب، قومیت یا سیاسی رائے کی آزادی کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ تاہم، 1980ء کے ابتدا سے ہی دنیا کے سامنے مہاجرین کی ایک نئی قسم نے جنم لینا شروع کردیا تھا جنھیں قدرتی ماحول کی گراوٹ کے باعث اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑ رہی تھی۔
1985ء میں اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سے تعلق رکھنے والے تحقیق کار ال حناوی نے سب سے پہلے ان مہاجرین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ''ایسے لوگ جو اپنے روایتی مساکن کو عارضی یا مستقل طور پر چھوڑنے پر مجبور ہوئے کیونکہ انھیں ماحولیاتی یا قدرتی مداخلت یا تبدیلی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے معیار زندگی یا وجود کو بدترین طور پر متاثرکرتی ہیں'' 1993ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر نارمن مائرس نے ماحولیاتی مہاجرین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ''ایسے لوگ جو خشک سالی، زمین کی خرابی، صحرا زدگی اوردیگر ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے وہاں محفوظ ذریعہ معاش حاصل نہ کرسکتے ہوں جہاں وہ اب تک رہا کرتے تھے'' ماحولیاتی مہاجرین کہلائیں گے۔
آج دنیا کے ذرایع ابلاغ اورماحولیات پرکام کرنے والے ادارے اور افراد ایسے مہاجرین کو جو شدید سیلاب، سمندری سطح میں اضافے، بارشوں کے نظام الاوقات میں تبدیلی یا خشک سالی کے باعث زراعت کی بربادی، صحرا زدگی یا سمندری مداخلت کے نتیجے میں اپنے آبائی علاقوں کو چھوڑ کر اندرون یا بیرون ملک نقل مکانی کرتے ہیں کو ماحولیاتی مہاجرین کا نام دیتے ہیں۔
1990ء کے وسط میں جاری کی جانے والی رپورٹ میں بتایا تھا کہ عالمی سطح پر ہونے والی انسانوں کی ہجرت کا سب سے بڑا سبب موسمیاتی تبدیلی ہوگا جس کے باعث لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑے گی۔ اس حوالے سے 2005ء میں بین الحکومتی پینل کی مرتب کی گئی رپورٹ '' When Global Warming Takes Holds'' کے مرکزی مصنف پروفیسر نارمن مائرس کے لگائے گئے اندازوں میں کہا گیا تھا کہ 2050ء تک عالمی سطح پر ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 200 ملین تک پہنچ جائے گی یعنی ہر 45 افراد میں سے ایک ماحولیاتی مہاجر ہوگا۔
رپورٹ میں بتایا گیا اس وقت (2005ء) دنیا بھر میں ماحولیاتی مہاجرین کی تعداد 25 ملین ہے جو ماحولیاتی انحطاط کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ 2001ء میں بین الاقومی ریڈ کراس سوسائٹی کی جانب سے انھی اعدادوشمار کو دہرایا گیا۔ اقوام متحدہ کی یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ برائے ماحولیات اورانسانی تحفظ نے 2005ء میں عالمی برادری کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ 2010ء تک 50 ملین ماحولیاتی مہاجرین کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہے۔
2008ء میں انٹرنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر جینوا نے اندازہ لگایا کہ ہر سال اوسطہً 26.4 ملین افراد قدرتی آفات کے نتیجے میں اندرون ملک یا نزدیکی ملکوں میں ہجرت کررہے ہیں۔ یہ ہجرتیں زیادہ تر سمندری سطح میں اضافے، صحرا زدگی، خشک سالی، سیلاب یا زراعت کی تباہی کے باعث ہورہی ہیں۔ 2009ء میں اقوام متحدہ کے لگائے گئے اندازوں کے مطابق 36 ملین افراد قدرتی آفات کے نتیجے میں اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب کہ 2015ء میں دنیا بھر میں 19.3 ملین افراد قدرتی آفات کے نتیجے میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جن میں 90 فیصد کا تعلق موسموں کی شدت سے تھا۔ مہاجرین سے متعلق اقوام متحدہ کے کمیشن یو این ایچ سی آر نے پیش گوئی کی کہ 2050ء تک موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں 150 ملین افراد اپنے گھربار چھوڑ کے پناہ گاہوں کی تلاش میں ہوں گے۔
اقوام متحدہ سمیت دنیا بھرکے تحقیقی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق ایشیا موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والا دنیا کا بدترین خطہ ہے۔ انٹرنل ڈسپلیسمنٹ سینٹر جینوا کے مطابق 2008ء سے 2013ء تک کے درمیانی عرصے میں اس خطے سے 46 ملین سے زائد افراد قدرتی آفات کے باعث اپنے گھربار چھوڑ چکے ہیں۔ ایکشن ایڈ اور کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک ساؤتھ ایشیا کی رپوٹ ''کلائمیٹ چینج نوز نو بارڈر'' کے مطابق ایشیا پیسفک ریجن میں 42 ملین افراد موسموں کی شدت کے باعث بے گھر ہوئے جب کہ 2050ء تک صرف بنگلہ دیش کے 15 ملین افراد موسمیاتی تبدیلی کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔
رپورٹ کے مطابق ساؤتھ ایشیا کا خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات جن میں گرمی کی شدید لہر، خشک سالی، سائکلون، سمندر کی سطح میں اضافہ، شدید بارشیں، لینڈ سلائیڈز اور سیلابوں کی زد میں ہے۔ جب کہ ان لوگوں کی ہجرت کی بنیادی وجہ خراب فضل، سطح سمندر میں اضافہ اور سیلاب ہیں، اگر یہ واقعات تواتر سے جاری رہے تو لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر شہروں یا نزدیکی ملکوں میں کام کرنے پر مجبور ہوں گے جیسا کہ سری لنگا، بنگلہ دیش اور ہندوستان میں ہور رہا ہے جب کہ زمین کی فرسودگی اور بدلتے موسموں کے زراعت پر پڑنے والے اثرات بھی لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کریں گے۔ رپورٹ میں خصوصی طور پر ہندوستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا کو خطے کے شدید متاثر ملکوں میں شمار کیا گیا ہے جب کہ گرین پیس کی تحقیق کے مطابق ہندوستان اور بنگلہ دیش کے ساحلی علاقوں سے 2100ء تک 120 ملین افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوں گے۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش کو ماحولیاتی مہاجرین کا سب سے بڑا مرکز قرار دیا جا رہا ہے جہاں 30 ملین سے زائد افراد براہ راست خطرات کی زد میں ہیں۔
لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ دنیا بھر میں اس وقت ماحولیاتی مہاجرین کے حوالے سے عالمی سطح پرکوئی مستند اعدادو شمار موجود نہیں ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مہاجرین کے لیے بنائے گئے بین الاقوامی قوانین میں ماحولیاتی مہاجرین شامل ہی نہیں ہیں۔ ان کے تحفظ کے لیے ابھی تک کوئی باقاعدہ فریم ورک، پروٹوکول، کنونشن یا واضح سمت موجود نہیں ہے یہاں تک کہ انھیں قدرتی آفات کے بین الاقوامی قوانین میں بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ یو این ایچ سی آر جو مہاجرین کے حوالے سے کام کرتا ہے کا کردار اس حوالے سے انتہائی اہم ہے لیکن وہ 1951ء کے کنونشن کے تحت کام کرتا ہے جس میں ماحولیاتی مہاجرین شامل نہیں ہیں۔ اس حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پہلی مرتبہ امریکا میں لوسیانہ قبائل جو نیو اور لینز کے جنوب مغرب میں رہائش پذیر تھے کو حکومتی سطح پر ماحولیاتی مہاجرین کا درجہ دیا گیا۔ لوسیانہ قبائل کی 98 فیصد زمین سیلاب، سطح سمندر میں اضافے اور سمندری دخل اندازی کی وجہ سے ختم ہوگئیں، ان قبائل کو 52 ملین ڈالر کی امداد انفرااسٹرکچرکی تعمیر کے لیے دی گئی۔
2015ء میں ہونے والی عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں عالمی مذاکرات کاروں کے سامنے موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی انسانی نقل مکانی کے اثرات اور ان پناہ گزینوں کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی ترتیب دینا بھی شامل تھا، مذاکرات کار یہ بھی جانتے تھے کہ یہ انتہائی مشکل کام ہے، پیرس معاہدے میں اس ضرورت کو محسوس کیا گیا کہ موسم سے متعلق ہونے والی بے گھری کو سامنے رکھا جائے جس کے لیے ایک ''کلائمیٹ ڈسپلیمنٹ ٹاسک فورس'' قائم کی گئی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہونے والی نقل مکانی سے بچاؤ کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کے باعث دنیا بھر میں ہونے والی نقل مکانی دنیا کی حکومتوں اور پالیسی سازوں کے لیے انتہائی مشکل اور پیچیدہ عمل ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ماحولیاتی مہاجرین موسمیاتی تبدیلی کا انسانی چہرہ ہیں۔