منشور کی سیاست
اے کاش! اب کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان منشور کا مقابلہ بھی ہو۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان سے 2008 تک ملکی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی بوجھ اس ملک و قوم پر 6 ٹریلین روپے کے لگ بھگ تھا جوکہ گزشتہ پونے پانچ برسوں میں بڑھ کر 14 ٹریلین کی حد چھو رہا ہے۔ اس حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اب ملکی معیشت، اداروں اور عوام کی حالت زار پر مزید کچھ روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں، باشعور انسان تمام حقائق کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اس وقت نئے الیکشن کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں اور قوم کو ''سبز باغ'' دکھانے کی بھرپور کوششیں ہر طرف جاری ہیں، سیاسی نعرے بھی تیاری کے آخری مراحل میں پہنچ گئے ہیں۔
پروفیسر خورشید احمد نے اسی اہم مرحلے پر اپنے ایک تازہ تجزیے میں کہا ہے کہ بنگلہ دیش یا اٹلی کے ماڈل طرز کی کوئی عبوری حکومت یا احتساب یا اصلاحات کے نام پر کوئی نام نہاد ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ انھوں نے اپنے نزدیک ''صحیح سیاسی لائحہ عمل'' کے لیے چند خطوط کا تعین کیا ہے جس کے مطابق:
1۔ اسمبلی کی مدت میں اضافہ یا دو سال کے لیے عبوری انتظام قطعی غلط ہے۔
2۔جلدازجلد آزادانہ طور پر شفاف انتخابات کا انعقاد لازمی ہونا چاہیے۔
3۔ فوج یا کسی بھی خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت ناقابل قبول ہے۔
4۔ سیاسی جماعتوں کو قوم کے سامنے اپنا منشور لازماً پیش کرنا چاہیے۔
5۔ پاکستان میں بیرونی ممالک اور ان کی درپردہ این جی اوز کے کردار کے لیے صحیح پالیسی و مناسب اقدامات کرنا ضروری ہیں۔
6۔قوم ملک کی خاطر ذاتیات اور مفادات سے بالاتر ہوکر ووٹ کا استعمال کرے۔
پروفیسر خورشید احمد نے مندرجہ بالا خطوط کو تفصیلی طور پر پیش کیا ہے جس کو راقم نے یہاں سرسری نظر ڈالنے کے لیے مختصراً پیش کیا ہے۔ ان نکات سے کچھ لوگوں کو اتفاق اور اختلاف بھی ہوگا تاہم ان میں ایک نکتہ ''سیاسی جماعتوں کا منشور'' انتہائی اہمیت کا حامل ہے، لیکن اسے ہمیشہ نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، یا یوں کہیے کہ اس کے ساتھ اب انصاف نہیں کیا جاتا۔ ایک زمانہ تھا جب انتخابات خواہ کسی ادارے کے ہوں یا وطن عزیز کے ہوں، منشور کو انتہائی اہمیت نہ صرف سیاسی جماعتیں دیا کرتی تھیں بلکہ ورکرز حضرات بھی منشور سے متعلق پرنٹ پمفلٹ سنبھال کر رکھتے اور اس کے ذریعے بھی مختلف جماعتوں کا موازنہ کرتے تھے۔منشور کی اہمیت وہاں کم ہوجاتی ہے کہ جب ووٹ مانگنے والا اور ووٹ دینے والا ذات، برادری، تعلقات یا مذہب وغیرہ کے تناظر میں سوچنے لگے۔
منشور کی سیاست کو نظرانداز کرنے کے کلچر کے باعث عوام کے مسائل نہ صرف بڑھتے گئے بلکہ اس سے اقتدار میں آنے والوں کو فرار کا راستہ بھی ملنے لگا کہ جب کوئی منشور ہی نہیں تو اس پر عمل درآمد کیا؟ اگر منشور نہایت واضح اور تحریری طور پر عوام کو دیا جاتا تو یقیناً اقتدار میں آنے والوں پر کسی قدر اخلاقی دباؤ ضرور ہوتا۔
مثلاً صرف لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کو ہی لے لیجیے کہ ہر مرتبہ زبانی دعوے کیے گئے، ہر مرتبہ نئی تاریخ دے دی گئی کہ عوام فلاں تاریخ کے بعد لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل کرلیں گے، لیکن ایسا عملاً نہیں ہوا۔ اگر انتخابات سے قبل تمام جماعتیں سنجیدگی سے منشور کی تیاری کرتیں تو وہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا محض بار بار زبانی دعویٰ نہیں کرتیں بلکہ باقاعدہ جائزہ لے کر اور حکمت عملی تیار کرکے اعلان کرتیں کہ اتنے برسوں میں لوڈشیڈنگ ختم ہوگی۔ لیکن منشور باقاعدہ تیار نہ کرنے کے باعث چند موٹے موٹے اعلانات کردیے جاتے کہ شاید عوام کے دل اس طرح جیت لیے جائیں۔
ایک اور مثال پاکستان ریلوے اور پی آئی اے کی لے لیجیے، اگر سیاسی جماعتوں کے منشور میں ان اداروں کو جدید بنانے اور عوام کو مزید بہتر سفری سہولیات بہم پہنچانے کا عزم ہوتا تو یقیناً اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی بھی کی جاتی اور اقتدار میں آنے والے اس ضمن میں خصوصی اقدامات کرتے۔ دلچسپ اور افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے سیاسی ذمے داران اور دیگر ذمے داران بھی اس پر توجہ نہیں کرتے، آیندہ ان اداروں کو بہتر بنانے کے لیے کسی ''کریش پروگرام'' کا اعلان نہیں کرتے، بلکہ بڑی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ جناب یہ تو پچھلی باقیات کی حکمت عملیوں کا نتیجہ ہے۔
بات بالکل سیدھی اور صاف ہے کہ منشور کے ذریعے تحریری شکل میں وعدے عوام تک آتے اور وہ ان پر غور وخوض کرکے ووٹ دیتے تو یہ صورت حال نہ ہوتی۔ آج جس ادارے کی جانب نظر دوڑائیں کوئی اچھی خبر نہیں آتی اور ہمیں تو خطرہ یہ ہے کہ کہیں آیندہ پانچ سال کے لیے بننے والی نئی حکومت اپنے پانچ سال گزار کر پھر یہ نہ کہہ دے کہ جناب یہ تو پچھلی باقیات کا تسلسل ہے، انھوں نے بنیادیں ہی کھوکھلی کردیں تو بھلا ہم اداروں کو اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کردیتے؟
اس مسئلے کا حل منشور ہی میں پنہاں ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ انتخابات میں حصہ لینے والوں کو منشور پیش کرنے پر مجبور کریں اور ان کے منشور کو اور پھر انفرادی کردار کو بھی لازماً ساتھ رکھیں۔ سیاسی جماعتوں کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اب اپنے منشور میں پاکستان اور اس کے عوام کے مسائل کو تفصیلی طور پر بیان کرتے ہوئے اس کا حل اور وقت بھی بتائیں کہ وہ کب کس مسئلے کو حل کریں گے۔ پاکستانی عوام کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جس فرد یا جماعت کو ووٹ دے رہا ہے وہ لوڈ شیڈنگ پر کب تک اور کس حد تک قابو پاسکے گی۔
اس طرح بذریعہ ریل گاڑی اور ہوائی جہاز کا سفر کب تک اپنے مطلوبہ معیار اور نظم و ضبط تک پہنچ سکے گا؟ جس ملک میں ٹرانسپورٹیشن کا بنیادی نظام اور سفر کی بنیادی سہولتیں ہی دستیاب نہ ہوں وہاں کاروبار تو کیا زندگی بھی جام ہونے لگتی ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے مطالبے تو اب منشور سے بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ جس ملک و معاشرے میں ادارے ہی زمین بوس ہونے لگیں اور گھر سے باہر تحفظ کی بھی ضمانت نہ ہو وہاں روزگار، روٹی، کپڑا اور مکان کے مطالبے بھی عجیب سے معلوم ہونے لگتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جماعتیں ایک مرتبہ پھر منشور کی سیاست کی طرف لوٹ آئیں تاکہ عوام کو پتہ تو چل سکے کہ ان کو درپیش کن کن مسائل کا ان کے رہنماؤں کو علم ہے اور وہ انھیں ان مسائل سے باہر نکالنے کے لیے کیا کیا حکمت عملی رکھتے ہیں۔ آج عوام کا یہ حق ہے کہ انھیں علم ہوسکے کہ ان کے سوئی گیس کی عدم فراہمی، سی این جی و بجلی کی کمیابی کے علاوہ آئے دن کی ہڑتال اور پھر ہڑتال میں صرف پٹرول و سی این جی پمپ ہی نہیں، محلے و گلیوں کی دکانوں کی بندش سے بھی عوام کو پہنچنے والی تکالیف کا ان کے رہنماؤں کو کس قدر علم ہے۔
خیال ہے اور اس کا حل ان کے نزدیک کیا ہے؟ کیا کسی نے یہ بھی سوچا کہ ایک ہڑتال میں دیہاڑی کے ایک مزدور کی روزی تو جاتی ہی ہے لیکن پٹرول پمپ بند ہونے سے وہ ایمرجنسی میں اسپتال بھی پہنچ نہیں سکتا، رکشہ و ٹیکسی والے اس سے کرایہ بھی اس قدر مانگتے ہیں کہ ایک دیہاڑی کی رقم اس کی نذر ہوجائے پھر بھوکے بچے کے لیے دودھ حاصل کرنا بھی ایک دشوار کن مسئلہ بن جائے۔ آئیے غور کریں منشور کی سیاست کو واپس لانے کی کوشش کریں۔
اے کاش! اب کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے درمیان منشور کا مقابلہ بھی ہو۔ عوام کے ہاتھ میں منشور کے وہ پمفلٹ بھی آجائیں کہ جن پر تحریر ہو کہ خواتین کے گھر کے چولہوں کی گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ 2 ماہ میں، سی این جی پر لمبی لمبی قطاروں کا خاتمہ 6 ماہ میں، بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ 8 ماہ میں، تمام ٹرینیں اور ہوائی جہاز کی روانگی عین وقت پر آیندہ سال سے نیز کسی بھی مسئلے پر کسی بھی حال میں اور ہر قیمت پر ہڑتال نہیں ہوگی، پہیہ جام نہیں ہوگا، دیہاڑی کے مزدور روزانہ کام پر جاسکیں گے، ڈبل سواری جرم نہ ہوگی، فوری طور پر اور پانچ سال مکمل ہونے سے قبل روٹی، کپڑا اور مکان سب کے لیے ممکن ہوسکے گا۔ میں دعا گو ہوں ایسے منشور کے لیے۔