جادوگر بننے کی کوشش مت کرو

مردم شماری جیسی اہم ضرورت کو خانہ پُری کی نذر مت کرو۔


Aihfazur Rehman March 19, 2017
حقیقی اور ضروری اعدادوشمار حاصل کرنے کے لیے مقررہ مدت میں اضافہ کیا جائے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: قومی اسمبلی میں یہ لوگ لطیفہ بازی کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی شلوار اتارتے ہیں، ماں بہنوں کے بارے میں مغلظات بکتے ہیِں۔

قابل نفرت بیانات، غلیظ الزام تراشیاں، اقتدار کی خاطر آپس میں شرمناک سودے بازیاں، میڈیا میں آنے کے لیے زبان و بیان کی باریکیاں تراشنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اہم ترین معاملات پر قانون سازی سے اجتناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلیدی عوامی ضرورتوں اور مفادات سے پہلوتہی؛

لیکن ارکان اسمبلی کی تن خواہ میں اضافے کے مطالبے پر جھٹ پٹ، گھنٹوں کے اندر قانون بناکر نافذ کردینا، یہ ہے ان کی کارکردگی کا آئینہ!

بے شرمی، ڈھٹائی، بے حیائی کی ہزاروں مثالیں ہیں۔ جس کاغذ پر انھیں لکھا جائے، اس کی سیاہی دیکھ کر کاغذ بھی لرزتا جائے، شرم کے سمندر میں ڈوب جائے۔ لیکن ان سیاست دانوں کی کھالوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لوگ سستی دوا کے لیے، سستی تعلیم کے لیے ترستے رہیں، سستی روٹی کے لیے آہیں بھرتے رہیں، ان پیٹ بھروں کے عشرت کدوں میں قہقہوں کی بہار مدھم نہیں ہوگی۔

وہ اہم ترین قومی معاملات کو ٹھوکروں میں رکھتے ہیں۔ خودغرضی اور بے حسی ان کے چہروں پر اَن مِٹ سیاہی سے نقش ہوچکی ہے۔

یہ عدالت عظمیٰ کو بھی بہلاوے اور بھلاوے میں رکھنے کی تدبیر کرتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ ان کی چال بازیوں سے عاجز آگئی۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کی تین رکنی بینچ نے کہا، مردم شماری کراؤ۔ یہ ٹالتے رہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا، مردم شماری کے بغیر الیکشن کا انعقاد مذاق ہوگا۔ یہ ہنستے رہے، ان کے کانون پر جوں تک نہ رینگی۔

آخر کار عدالتِ عظمیٰ نے ڈنڈا اٹھایا، فیصلہ سنایا:

15مارچ سے 15 مئی تک مردم شماری کا عمل مکمل کرلو، ورنہ وزیراعظم خود عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہوکر وضاحت کرے کہ اس تاخیر کا سبب کیا ہے۔

عدالت عظمیٰ کس حد تک عاجز آچکی تھی؟ اُسے یہ تک کہنا پڑا کہ:

''اگر مردم شماری نہیں کرانی تو آئین کو تبدیل کردو۔'' چُلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ نہیں مرے، قہقہے لگاتے رہے۔

19 سال کے بعد اہل اقتدار نے بادلِ نخواستہ یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتارا۔ خانہ شماری اور مردم شماری کا آغاز ہوا۔ لیکن چوںکہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر یہ کام شروع کیا گیا، اس لیے رضا و رغبت کا فقدان تھا، اسی لیے اس تماشے میں بے قاعدگیوں کے واقعات اُچھل اُچھل کر ہمارا مذاق اُڑا رہے ہیں۔

یہ پہلی مثال نہیں ہے۔ اہل اقتدار اسی طرح بہانوں کا پہاڑ کھڑا کرکے بلدیاتی انتخابات کو ٹال رہے تھے۔ 2013 میں صرف بلوچستان میں عمل ہوا۔ عدالت عظمیٰ میں یہ مقدمہ پیش ہوا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ سنایا: 15 ستمبر 2015 تک سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخاب کرالو۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ ''بروقت بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر حکومت عوام سے معافی مانگے۔'' اور اسے یہ تک کہنا پڑا کہ ''صوبائی حکومتیں بلدیاتی الیکشن کرانے میں دل چسپی نہیں رکھتیں!!''

وہ دل ہی دل میں کہتے ہیں، ''اچھا، تم ڈنڈا اُٹھاؤ، لیکن ہم تو اپنی بے ڈھنگی چال نہیں چھوڑیں گے۔''

چناںچہ 15 مارچ کو اس عمل کا آغاز ہوگیا، اور عزم یہ ہے کہ 15 مئی تک اُسے مکمل کرلیا جائے گا۔

لُولا لنگڑا عمل!

وہ کہتے ہیں، آپ نے حکم دیا، دیکھیے، آپ کی دی ہوئی تاریخ پر ہم نے یہ کام انجام کو پہنچادیا۔

''کچھ شاباشی مل جائے، کچھ بخشش مل جائے تو اہل حکومت دعائیں دیںگے۔ جو کام کیا ہم نے، وہ رستم سے نہ ہوگا۔''

واقعی، بڑی زبردست کار گزاری ہے۔ سب کچھ ریکارڈ ہورہا ہے۔ جو بے قاعدگیاں، خلاف ورزیاں سامنے آرہی ہیں، ان پر مٹی ڈالتے جاؤ۔ گورکن کا یہی کام ہے!

لیکن اتنے سارے اور اتنے گہرے گڑھے ہیں کہ انھیں ''مقررہ وقت'' میں بھرنا محال ہوگا۔

مردم شماری+خانہ شماری کیوں ضروری ہے۔ اس کے فوائد کیا ہیں، وہ زندگی کے کن شعبوں پر اثرانداز ہوتی ہے، کون سی پالیسیاں مرتب کرنے میں مددگار ہوتی ہے، اہل سیاست کو کیا آسانیاں فراہم کرتی ہے، بد حال عوام کی راہنمائی کن خطوط پر کرتی ہے، اہل علم و دانش، اہل صنعت و حرفت، قانون سازوں کو کس قدر روشنی عطا کرتی ہے؟

اس جیسی بہت ساری باتیں صیغۂ راز میں نہیں ہیں۔ لیکن سائنسی انداز فکر ابھی ہمارے معاشرے میں گھٹنوں گھٹنوں چل رہا ہے۔ نہ جانے کب سنِ شعور کو پہنچے گا۔

مردم شماری کے عمل میں اس غفلت اور جاہلیت کا مظاہرہ کھل کر ہورہا ہے۔

اہل اقتدار تو اس ملک میں تالیاں بجانے کے شغل میں سر سے پاؤں تک ڈوبے رہتے ہیں۔ اب بھی یہی کررہے ہیں۔ حزب اختلاف والے کیا کررہے ہیں؟ ان کے سطحی اور پیش پا افتادہ بیانات ان کی مریضانہ پالیسیوں کا خاطرخواہ ثبوت فراہم کررہے ہیں۔

وہ سیاست کرتے ہیں، اقتدار کی آرزو میں مرے جاتے ہیں، لیکن حزب اختلاف کی کون سی جماعت ہے، جس نے معاشرے کو درپیش سیاسی، سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مسائل کے بارے میں کچھ ریسرچ کا کام کر رکھا ہو، قومی ضروریات کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں پیپر ورک کیا ہو، کچھ ذہنی ورزش کی ہو۔

نہیں، ان کا بھی خانہ خالی ہے۔

یہ سب بالکل کنگال اور مفلس ہیں، محض کاغذی بیانات کی رنگین پتنگیں فروخت کررہے ہیں۔ خریدار ٹوکتے نہیں، اس لیے وہ بھی اپنی روش تبدیل نہیں کرتے۔ بے دست و پا عوام اپنی مجبوریوں کی فصل کاٹنے پر مجبور ہیں۔ اور قومی میڈیا؟ قومی میڈیا سیاست دانوں کی لطیفہ بازیوں، شوشے بازیوں سے شہ سرخیاں تراشنے میں مشغول ہے۔ یہ میڈیا کا کمال فن ہے، یہ زہر اس کو راس آگیا ہے۔ اس کی شگوفے بازیوں کے انبار تلے اصل خبروں اور معلومات کو جگہ نہیں ملتی اور وہ سسک سسک کر دم توڑ رہی ہیں۔

اگر اہل سیاست اور اہل صحافت بیدار ہوتے تو یہ منظر دیکھنے میں نہ آتا۔ وہ حکومت وقت کو جھنجوڑتے کہ اپنے لُولے لنگڑے عمل سے مردم شماری کی حویلی تعمیر مت کرو۔ ایسا کروگے تو تمہاری مردم شماری کا چہرہ چیچک کے داغوں سے بھرا ہوگا، اور اس کی روح میں کینسر کے جراثیم پلتے رہیں گے۔

کوئی انھیں راستہ دکھائے، ان کو درست نمبروں کی عینک فراہم کرے۔

انھیں بتایا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ تم دنیا کے سارے سُپرمینوں، جادوگروں، حکیموں، فلسفیوں، ماہرین علوم کو جمع کرکے ان سے مشورہ کرلو۔ پاکستان جیسے ویسے وسیع اور کثیر آبادی والے ملک میں (جو متنوع جغرافیائی خصوصیات رکھتا ہے) 15مئی تک مردم شماری کا کام مکمل نہیں کیا جاسکتا۔ اگر رکوگے نہیں تو اس میں اور داغ لگتے رہیں گے۔ سالن میں بہت ساری مکھیاں تیر رہی ہیں، اگر جانتے بوجھتے انھیں نگلتے جاؤگے تو ہیضے میں مبتلا ہونا یقینی ہے۔

بہتر تو یہی ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ سے دست بستہ معافی مانگتے ہوئے اعتراف کریں کہ موجودہ افرادی قوت کی معیاری اور مقداری کیفیت کے ساتھ 15 مئی تک یہ کام خوش اسلوبی سے مکمل نہیں کیا جاسکتا، ہمیں کم از کم مزید دس ماہ کی مہلت عنایت کردی جائے، تاکہ ہم بہتر نتائج پیش کرسکیں۔

کیا وہ ایسا کریں گے؟

ان کو یہی کرنا چاہیے، اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

اور عوام؟

کیا وہ اہل اقتدار سے حساب طلب کریں گے، کہ تم نے ہمیں اس سنگین مذاق کا نشانہ کیوں بنا رکھا ہے؟

شاید نہیں۔

اہل اقتدار نے ہر دور میں بڑے بڑے قومی جرائم کیے، اور ہمیشہ مکھن سے بال کی طرح نکل بھاگے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں