افغان مہاجرین کی واپسی

امریکا میں تارکین وطن پر ظلم ہو رہا ہے ہزاروں گرفتار ہیں



KARACHI: ''افغان مہاجرین کی پاکستان سے جبری واپسی میں اقوام متحدہ ملوث ہے'' انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے یہ الزام لگایا ہے ۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہاہے کہ اب ان پناہ گزینوں کو افغانستان میں مسلح جگہوں، تشدد، مفلسی اور بے گھری کا سامنا ہے ۔اس 76 صفحات کی رپورٹ میں یو ایس سی ایچ آر پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے عوامی سطح پر پاکستان کی جانب سے زور زبردستی کیے جانے کی مذمت کیے بغیر رضا کارانہ آباد کاری کے پروگرام میں اضافہ کیا اوراس طرح وہ اس عمل میں پاکستان کے ساتھ شریک ہے۔

اس تنظیم کے سینئر محقق گیری سمپسن نے کہا کہ دہائیوں تک افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے کے بعد 2016 کے وسط سے پاکستان نے حالیہ تحریک کا جو محرک ہونا قبول کرلیا ہے اور وہ افغان مہاجرین کو وطن واپس لوٹنے پر مجبور کررہا ہے۔ بین الاقوامی ڈونرز کو اس معاملے میں دخل دے کر پاکستانی حکومت اور اقوام متحدہ پر دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ پاکستان میں باقی پناہ گزینوں کو بچایا جاسکے۔

افغان پناہ گزینوں نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایاکہ ان کی غیر قانونی غیر محفوظ حیثیت، سردی کے موسم میں واپس بھیجنے کی دھمکیوں نے ایک ایسا پریشان کن مرکب تیار کردیا ہے کہ ان کے پاس پاکستان چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جانب سے واپس جانے والے ہر ایک پناہ گزین کے لیے نقد رقم کی دگنا یعنی 400 امریکی ڈالر دیے جانے پر بھی لوگوں نے پاکستان سے جانے پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم اقوام متحدہ کے ادارے نے 27 جنوری کو خط میں اس بات کی سختی سے تردید کی ہے کہ رقم دگنی کرنے سے پناہ گزینوں کے واپسی کے عمل میں تیزی آئی ہے''

یہ ہے وہ عمل جو ہر اس ادارے کا ہے جو یورپ اور امریکا سے متعلق ہے، افغان پناہ گزینوں کی ایک نسل یہاں جوان ہوکر بڑھاپے کی طرف جارہی ہے اور یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں ان کو اپنے پیسے سے پال کر دہشت گردوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں، ان کی آڑ میں ہی کلاشنکوف، ہیروئن یا دہشت گردی پاکستان میں داخل ہوئی ہے۔ اگر یہ خود ایسے نہیں بھی ہیں تو ان کے ہم وطن، ہم زبان ادھر یا ادھر یہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اور یہ کیمپ ان کے Base Camp ہیں یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان کی ان پر کڑی نظر ہے اور ان کا درست زاویہ نظر ہے کہ افغانیوں کو اپنے وطن جاکر اپنے حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے اور پاکستان کے امن اور معیشت پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔ افواج پاکستان اور حکومت پاکستان نے جتنا کچھ ان کے لیے اب تک کیا ہے وہ دنیا میں کسی قوم نے کسی کے لیے نہیں کیا۔

فلسطین کے لیے عربوں نے کیا کیا ہے؟ اسرائیل علاقے ہڑپ کرتا جا رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے اندر تک دسترس ہوگئی ہے اور عرب ممالک ''ٹرمپ'' کھیل رہے ہیں تاکہ ان کی دولت جو وہاں ہے وہ محفوظ رہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہماری سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین عبدالغفور حیدری فرماتے ہیں کہ امریکی سفیر خارجہ بلا کر اس پر احتجاج کیا جائے اور سینیٹ کے چیئرمین نے اس پر درست کارروائی کی ہے۔

امریکا کے صدور پاکستان تشریف لانا پسند نہیں کرتے یہ توہین شاید آپ بھول چکے ہیں اور کیا ضرورت ہے امریکا یاترا کی کسی کو بھی بھلا وہاں کیا رکھا ہے، وہ تو غیر مسلم ہیں جن کے خلاف ہمارے سیاستدان بولتے نہیں تھکتے۔ بہت مجبور ہوکر تو اب وہ کشمیر کی بات کرتے ہیں کیونکہ لوگوں نے کشمیر کمیٹی کے اخراجات پر جو کروڑوں سے زیادہ ہیں سوال اٹھائے ہیں۔

یہ تو ایک نکتہ یا نقطہ اعتراض تھا۔ اصل بات تو یہی ہے کہ اس تنظیم کو کشمیر، میانمار نظر نہیں آرہے عراق، شام، یمن سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ جہاں انسانی مظالم ان بین الاقوامی سازشوں نے امریکا اور اس کے حواریوں نے کیے ہیں۔مودی کی چیرہ دستیاں نہ ہمارے ان لوگوں کو نظر آتی ہیں نہ اس تنظیم کو، کشمیریوں کو جس طرح معذور کیا جارہاہے وہ اس تنظیم کو نظر نہیں آرہا۔ اس کا FOCUS یہ ہے کہ افغانستان کے یہ لوگ پاکستان میں رہیں اور پاکستانی معیشت پر بوجھ بنے رہیں۔

دنیا بھی چند سال انھیں اپنے یہاں رکھ لے جو اتنی خیر خواہی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ ڈونرز یہاں کچھ دینے کے بجائے ان کو اپنے پاس لے جائیں ایک پر امن قوم بنادیں تاکہ آیندہ افغانستان ایک مثالی ملک اور قوم بن جائے۔ یہ تنظیم ٹرمپ کو بھی کچھ نہیں کہہ رہی جو مسلمانوں کے خلاف اقدامات کررہاہے۔

در اصل وہ اس خطے کو اپنا میدان جنگ رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو پر امن نہیں دیکھنا چاہتے۔ بھارت کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ پاکستان پر رعب جماسکے اور ان کے تھانیدار کا کام کرتا رہے اور یہ اپنا اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں پر بد ترین مظالم ہورہے ہیں، وہ نام نہاد خاتون راہ نما بھی جن کا نام شاید آنگ سوچی ہے چین کی نیند سورہی ہیں اور اپنے ملک کے بڑے طبقے کو اقلیت پر ظلم کرتے دیکھ رہی ہیں۔ تُف ہے اس نام نہاد حقوق کی علم بردار چیمپئن پر۔

امریکا میں تارکین وطن پر ظلم ہو رہا ہے ہزاروں گرفتار ہیں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور وہاں کے شہری ہوکر پریشان ہیں۔ ٹرمپ وہاں بس جانے والوں کو بھی نکالنا چاہتا ہے اور یہ خاموش ہیں۔ آسٹریلیا آنے والوں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے کینیڈا، امریکا کی پالیسی کے برخلاف لوگوں کو خوش آمدید کہہ رہا ہے اور تنظیم اقوام متحدہ کی طرح ہی جھوٹ موٹ کی تسلیاں دے رہی ہے۔ افغانیوں کواور افغان احسان فراموش صدر، پاکستان کے خلاف بھارت کے ساتھ مل کر سازشیں کررہاہے، پاکستان میں ان کے سہولت کار تمام آسانیاں فراہم کررہے ہیں کہ پاکستان کے حالات خراب کرو، کرکٹ تک پاکستان میں نہیں ہورہی اور بھارت اس میں بھی کمارہا ہے پاکستان کرکٹ کو برباد کرکے۔

عرب ہوں یا پاکستان بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ملک و قوم کے بارے میں ملت اسلامیہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔ ہم نے خود بانٹ رکھا ہے اپنے آپ کو ہر اس چیز میں جس کی اسلام نے نفی کی تھی۔ یعنی عجیب زبردستی ہے کہ آپ ایک ملک میں تیس سال سے پناہ گزین ہیں، ایک بڑی تعداد نے تو پاکستانی کاغذات کسی نہ کسی طرح بنوا کر پکا بندوبست کرلیا ہے۔ آپ شناخت نہیں کرسکتے کہ یہ افغانی ہے یا پٹھان، ایسے سیاستدان موجود ہیں پاکستان میں جن کی رگوں میں پاکستان مخالفت کا خون دوڑ رہا ہے اور اس جنگ نے ان کی سیاست کو زندہ کردیا ورنہ کہاں تھی ANP ،ختم ہوچکی تھی اور اب وہ امن کے ٹھیکیدار بن گئے ہیں ۔

جو ملک کا نہیں وہ کسی کا نہیں اور ہماری اس حالت نے ہی ایسی تنظیموں کو یہ جرأت دی ہے کہ وہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو ہماری مرضی کے خلاف رکھنے پر بضد ہیں۔ حکومت پاکستان نے اس بیان پر کوئی احتجاج نہیں کیا ہے۔ بلکہ شاید حکومت اس کا فیصلہ بھی اس تنظیم کے حق میں ہی کردے اور افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا عمل رک جائے جو پاکستان کے لیے بے حد خطرناک ہوگا ۔ خاص علاقے کے خاص لوگ انھیں یہاں روکنا چاہتے ہیں ان پر ان کی سیاست اور اقتصادیات چل رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ ایشو زندہ رہے اور امدادی رقوم آتی رہیں اور آگے تو آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں یہ لوگ شامل ہوچکے ہیں، بہت سے کاروبار پر قابض ہیں واپس وہی جائیںگے جو واقعی غریب ہیں مگر ہم کیا کرسکتے ہیں۔ ہم نے مثالی مہمانداری کا حق ادا کردیا اب وہ خود اپنے مسائل حل کریں۔ ہمیں ہمارے مسائل سے نمٹنے دیں۔ رہ گئے وہ ڈونر جو امداد دے کر احسان کرتے ہیں تو اس سے پاکستان کے عوام کو فائدہ نہیں، امن وامان، روزگار کا نقصان ہے لہٰذا وہ ڈونر جائیں جہنم میں اور ہمیں ہمارے حال پر چھوڑدیں۔ ان سے ہمدردی افغانستان میں لے جاکر آباد کرکے کریں یہ ہے انصاف کی بات۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں