اینٹی بایوٹکس جراثیم کے خلاف بے اثر عالمی ادارۂ صحت کی نئی ادویہ فوری تیار کرنے کی اپیل

ڈبلیو ایچ او نے ان مہلک بیکٹیریا کی فہرست بھی جاری کی ہے۔


غ۔ع March 09, 2017
عالمی ادارے کی جانب سے باقاعدہ حکمت عملی تشکیل دی گئی ہے۔ فوٹو:فائل

ISLAMABAD: پاکستان میں جعلی ادویہ کی بھرمار ہے۔ اسی لیے اگر کسی دوا سے فائدہ نہ ہو تو ذہن میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دوا جعلی تھی۔ قوی امکان ہے کہ یہ خیال غلط ہو اور دوا اصلی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیکٹیریا میں ان ادویہ کے خلاف قوت مزاحمت پیدا ہوچکی ہے۔ اسی لیے اینٹی بایوٹکس کی بڑھتی ہوئی تعداد بے اثر ہوتی جارہی ہے۔ طاقت وَر اینٹی بایوٹکس تیار کرنے کی ضرورت پر کئی برسوں سے زور دیا جارہا ہے۔

جراثیم میں ادویہ کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت سنگین صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔ اسی کے پیش نظر عالمی ادارۂ صحت نے ایک بار پھر اپیل کرتے ہوئے کہ نئی اینٹی بایوٹکس فوری تیار کی جائیں۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق بیکٹیریا کی بارہ اقسام میں موجودہ اینٹی بایوٹک ادویہ کے خلاف زبردست مزاحمت پیدا ہوچکی ہے، اور یہ جراثیم انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ماہرین صحت نے ان جراثیم کو مجموعی طور پر ' سُپربگ' کا نام دیا ہے۔

گذشتہ برس عالمی بینک نے ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ جراثیم میں اینٹی بایوٹکس کے خلاف بڑھتی ہوئی مزاحمت اور سُپربگز کی وجہ سے 2050ء تک ایک کروڑ انسان موت کا شکار ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ ممالک کی معیشت بھی شدید متأثر ہوسکتی ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے ان مہلک بیکٹیریا کی فہرست بھی جاری کی ہے۔ اس فہرست میں gram-negative bacteria کو خاص طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔ یہ وہ بیکٹیریا ہیں جن میں ایک سے زائد اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا ہوچکی ہے۔ gram-negative bacteria اس لیے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ ادویہ کے خلاف مزاحمت کے نت نئے راستے تلاش کرلیتے ہیں۔ یہ صلاحیت جینز کے ساتھ دوسرے بیکٹیریا میں منتقل ہوجاتی ہے، نتیجتاً وہ بھی اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت کے قابل ہوجاتے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر میری پاول کینی کہتی ہیں،''اینٹی بایوٹکس کے خلاف مزاحمت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ہمارے پاس طریقۂ ہائے علاج محدود ہوتے جارہے ہیں۔ اگر ہم نے نئی اور طاقت وَر اینٹی بایوٹکس کی تیاری کا کام ادویہ ساز کمپنیوں پر چھوڑ دیا تو بہت دیر ہوجائے گی۔'' اسی لیے اس ضمن میں عالمی ادارے کی جانب سے باقاعدہ حکمت عملی تشکیل دی گئی ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے بہ لحاظ ترجیح اینٹی بایوٹکس کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ اولین زمرے میں وہ ادویہ رکھی گئی ہیں جنھیں تیار کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ یہ ادویہ اسپتالوں اور نرسنگ ہومز میں مصنوعی سانس کی مشینوں پر زندہ مریضوں کے خطرناک بیکٹیریا سے تحفظ کے لیے درکار ہوں گی۔ Acinetobacter، Pseudomonas اور دوسرے کئی بیکٹیریا ان لاچار مریضوں میں جان لیوا انفیکشن پیدا کرسکتے ہیں۔

دوسرے اور تیسرے زمرے میں رکھی گئی اینٹی بایوٹکس عمومی امراض پیدا کرنے والے بیکٹیریا کے خلاف مؤثر ہوں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں