’’لانگ مارچ کا راستہ درست نہیں‘‘ ’’مارچ حقیقی جمہوریت کے لیے ہے‘‘

ڈاکٹرطاہرالقادری کی طرف سے لانگ مارچ کے اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال پرایکسپریس فورم میں سیاسی رہنمائوں کااظہارخیال


ڈاکٹرطاہرالقادری کی طرف سے لانگ مارچ کے اعلان سے پیدا ہونے والی صورتحال پرایکسپریس فورم میں سیاسی رہنمائوں کااظہارخیال۔ فوٹو : فائل

اس وقت جب پاکستان میں موجودہ حکومت اپنی آئنی مدت پوری کرنے جارہی ہے اور انتخابات کا وقت قریب آتا جارہاہے ۔

سیاسی حلقوں میں انتخابات کاغلغلہ بلند ہو رہاہے ۔تحریک منہاج القرآن کے قائد اور کینیڈا اور پاکستان کی دوہری شہریت رکھنے والے ممتاز مذہبی سکالر ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے اچانک انتخابی اصلاحات کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سیاست کے سمندر میں کنکر پھینک کر جوارتعاش پیدا کردیاہے اس نے پورے سیاسی منظر کو دھندلاکر رکھ دیاہے ۔

کنفیوژن کی دھند ہے کہ چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے ۔عوامی اور سیاسی حلقوں میں نئی بحث نے جنم لے لیاہے انتخابات ہوں گے یا نہیں ؟ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈا کیا امپورٹڈ ہے جس کے ڈانڈے کہیں اور جا کرملتے ہیں ؟کیاموجودہ صورت حال میں یہ قابل قبول اور قابل عمل بھی ہے؟ یہ اور اس قسم کے اور بہت سے سوالات اذہان میں گردش کررہے ہیں ۔ اس پس منظر میں روزنامہ ''ایکسپریس '' اور ''ایکسپریس نیوز '' نے ایکسپریس فورم میں مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہنمائوں کو اظہارخیال کی دعوت دی ۔جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

حافظ حسین احمد (سابق سینیٹر اورمرکزی رہنماء جمعیت علماء اسلام ،ف)
پاکستان میں ہر حکومت نے معاملات کو ایڈہاک کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی ہے ۔کسی نے یہ نہیں سوچا کہ معاملے کوجس طرح حل کررہے ہیں وہ آگے چل سکے گا یا نہیں، کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرنا ہو تو مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھ کرکام شروع نہیں کیا جاتا بلکہ کئی سال بعد جب منصوبہ مکمل ہوجاتا ہے تو پتہ چلتا ہے یہ ناقص منصوبہ ہے اور جب تک مکمل ہوتا ہے تو اس وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کم پڑ جاتا ہے اور اس کو گرا کر دوبارہ سے تعمیر شروع کردی جاتی ہے یہی صورتحال ہماری سیاست کی ہے ۔

سیاستدانوں نے کبھی مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا۔ قیام پاکستان کے بعد ایک عشرے تک ہمارے پاس کوئی آئین ہی نہیں تھا۔ پاکستان جو کہ نظریۂ اسلام کی بنیاد پر بنا اسے بھی بالائے طاق رکھ دیا گیا۔اسلام کو ہم نے آئین سے نکال کر دیگر نظام چلانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔ ہم نے بی ڈی سسٹم چلایا، مارشل لاء چلایا، صدارتی نظام چلایا ، ون یونٹ کا نظام بھی چلا کر دیکھ لیا مگر کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوا بلکہ ہم نے آدھا ملک گنوا کر بنگلہ دیش بنادیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان طویل فاصلہ تھا یہ فاصلہ ذہنی بھی تھا اور زمینی بھی مگر جب تک نظریہ پاکستان رہا یہ خلاء موجود ہونے کے باوجود سامنے نہیں آیا اور وہ ہمارے ساتھ رہے مگر جب ہم نے اسے چھوڑ کر نئے نئے نظام اپنانے شروع کردیئے تونقطۂ اتحاد بھی نہیں رہااور وہ ہم سے علیٰحدہ ہوگئے۔ 70ء کے انتخابات میں حقیقی کامیابی عوامی لیگ کو ملی تھی مگر اسے حکومت نہیں دی گئی جس کا نتیجہ بہت خوفناک نکلا، اصولی طور پر بنگلہ دیش بننے کے بعد نئے الیکشن ہونے چاہئیں تھے مگر نہیں کرائے گئے۔

اگر پودا گملے میں لگائیں اور ہر دو دن بعد اسے اکھاڑ کر دیکھتے رہیں کہ اس نے جڑ پکڑی کہ نہیں تو وہ کبھی بھی جڑ نہیں پکڑ سکتا، یہی صورتحال ہمارے ہاں جمہوریت کے ساتھ ہے کہ اسے بار بار اکھاڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ طاہرالقادری نے جو کہا اور جو مطالبات کئے وہ سب ٹھیک ہے مگر سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ہمارے ہاںکیا تمام فیصلے پاکستان، مینار پاکستان یا پارلیمنٹ میںہوتے ہیں یا کہیں اور ہوتے ہیں؟ کسی بھی بین الاقوامی صورتحال کا نشانہ ہمیشہ پاکستان بنتا ہے۔ پرویز مشرف بھی ایل ایف او کے ذریعے نیا نظام لایا اور قومی اسمبلی کی نشستیں 277سے بڑھ کر 342 ہوگئیں، بی اے کی شرط لازمی قرار پائی اس کے بعد کیا ہوا جعلی سندوں کا رواج آگیا۔ مشرف کے دور میں بھی پارلیمنٹ موجود تھی مگر پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ ابو ظہبی میں 3لوگوں کے درمیان ہوا۔ 3 بندے میز پر بیٹھے اور پوری قوم کے مستقبل کا فیصلہ کردیا جس میں طے ہوا کہ پرویز مشرف وردی اتاردیں گے اور انہیں اگلے 5سال کیلئے صدر چن لیا جائے گا۔

محترمہ بے نظیر بھٹوعام انتخابات کے دوران وطن نہیں آئیں گی بلکہ انہیں بعد میں سیٹ خالی کراکے ضمنی انتخاب کے ذریعے پارلیمنٹ میں لایا جائے گا اسی کے نتیجے میں محترمہ دوبئی چلی گئیں، یہ فیصلہ کرانے والے متحدہ عرب امارات اور امریکہ تھے ۔ سعودی عرب نے بھی تعاون کیا تھا مگر جب پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو دوبارہ معطل کرکے ملک میں ایمرجنسی لگادی تو محترمہ کو پتہ چلا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہورہا ہے تو انہوں نے فوراً واپس آکر اعلان کیا کہ ان کا ابو ظہبی معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا تھا کہ ڈرون حملوں پر بات نہیں کی جائے گی، شمسی ایئر بیس خالی نہیں کرایا جائے گااور بلوچستان کے مسئلے کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ محترمہ تو نہیں رہیں مگر ہوا بالکل ویسے ہی کہ ڈرون حملے بھی جاری رہے اور پورے 5 سال میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں بنا۔پارلیمنٹ میں دو دفعہ قرار داد پاس ہونے کے باوجود اس پر کوئی عمل نہیں ہوا ۔

مگر سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے فوری بعد نیٹو سپلائی روک دی گئی۔ حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کی گارنٹی امریکہ اور برطانیہ کی ہے اس لئے فوج بھی اس گارنٹی کو ختم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ طاہرالقادری میرے سیاسی ساتھی ہیں انہیں پتہ ہے کہ ہمارے ہاں فیصلے طاقت کے بل بوتے پر ہوتے ہیں لانگ مارچ فیصلے کراتے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ آئینی طریقہ ہے ۔ آئین میں ہر عہدے کی ذمہ داریاں طے ہیں ، آئین میں صدر اور وزیراعظم کی ذمہ داریاں بھی طے ہیں اور چیف آف آرمی سٹاف کی ذمہ داریاں بھی 22گریڈ کے افسر کے طور پر طے ہیں، مگر اس وقت آرمی چیف کی آئینی حدود سے توجہ ہٹانے کیلئے اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں۔



ہمیں طاہرالقادری کے مؤقف سے کوئی اختلاف نہیں مگر ان کا طریقہ کار غلط ہے۔کوئی قانون نہیں ہے جس کے تحت طاقت طاہرالقادری کو دے دیں۔ صرف پارلیمنٹ ہی آئین میں تبدیلی کرسکتی ہے۔ طاہرالقادری اگر ملک کی بہتری چاہتے تھے تو ان کے آنے کیلئے وقت تب تھا جب 20ویں ترمیم پاس کی جارہی تھی وہ اگر اس وقت آتے اور ان کے ساتھ 40ہزار کی بجائے صرف 40لوگ بھی ہوتے تو میں ان کے ساتھ ہوتا اور پارلیمنٹ سے ترمیم منظور کراتا۔ اس وقت نگران حکومت بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں مگر طاہرالقادری کہتے ہیں کہ نگران حکومت میں فوج کو شامل کریں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

عالمی حالات ایسے ہیں کہ فوج حکومت میں نہیں آسکتی۔ طاہرالقادری کو چاہیئے تھا کہ اپنے دوست سیاستدانوں کو سمجھاتے مگر انہوں نے لانگ مارچ کا رستہ اختیار کیا اگر لانگ مارچ کے ذریعے ان کی بات نہیں مانی جاتی تو پھر کیا ہوگا؟ 90دن یعنی نائن زیرو کا نمبر بڑا خطرناک ہے 90دن کبھی 90دن نہیں رہے ۔لانگ مارچ کے صورت میں اگر نگران حکومت بنی جس میں فوج اور عدلیہ بھی شامل ہوئی تو 90 دن میں پروگرام پورا نہیں ہوگا بلکہ یہ 2سے 3سال تک پہنچ جائے گا۔

جس کے بعد پیپلزپارٹی کو ایک دفعہ پھر مظلوم بننے کا موقع مل جائے گا۔ امریکہ 2014ء میں افغانستان سے نکل رہا ہے اور وہ اس وقت فوج اور عدالت کو حکومت میں رکھنا چاہتا ہے۔ ہم ہر ماورائے آئین اقدام کی مذمت کرتے ہیں اور طاہر القادری جو کرنے جارہے ہیں وہ ماورائے انتخابات ہے۔تمام اداروں کو آئین کے اندر رہ کر کام کرنا چاہئے اور فوج کو اپنا کام کرنا چاہیئے۔

اعجاز چوہدری(مرکزی نائب صدرتحریک انصاف)
سیاست ہر بندے کا حق ہے طاہرا لقادری بھی سیاست کررہے ہیں تو ان کا بھی حق ہے طاہرالقادری نے23 دسمبر کے جلسے میں پاکستان کی جو حقیقی صورتحال ہے وہ بیان کی ہے اس کے خلاف لانگ مارچ کااعلان کیا ہے۔ طاہرالقادری کے اعلان پر جو تجزیئے کئے جارہے ہیں ان کا احترام بھی ضروری ہے۔ یہ جو کہا جارہا ہے کہ طاہرالقادری لمبا عرصہ باہر رہے ہیں اور اب واپس آگئے ہیں تو یہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔

بڑے بڑے لیڈروں نے اپنے ملک سے باہر رہ کر سیاست کی اور کامیابیاں حاصل کیں کوئی مقدمات سے ڈر کر باہر گیا تو کسی نے خود ساختہ جلا وطنی قبول کی۔ موجودہ صورتحال میں اس وقت کان کھڑے ہوئے ہیں جب وہ پارٹیاں جو حکومت کا حصہ ہیں اور 5سال حکومت کے مزے لوٹ چکی ہیں وہ بھی تبدیلی کی بات کررہی ہیں یہ حیرت کی بات ہے اور اس سے بڑھ کر حیرت چوہدری شجاعت حسین، پرویز الٰہی اور مشاہد حسین کی وجہ سے ہوئی کہ وہ خود چل کر طاہرالقادری کے پاس گئے، اور ایم کیو ایم جو حکومت میں ہے اور 9دفعہ حکومت سے روٹھی اور عوام کیلئے حکومت سے نہ جانے کیا لے کر مان گئی، وڈیروں کو جاگیرداروں کو مفلوج کرنے کے بعد پھر حکومت میں شامل ہوگئی اس کی جلسے میں شمولیت نے مزید حیران کردیا۔

طاہرالقادری اسلام آباد میں التحریر سکوائر بنانے کی جو بات کررہے ہیں اس سے لگتا ہے وہ مصر کی تاریخ سے پوری طرح واقف نہیں ہیں ۔ اس کے پیچھے 85سالہ تاریخ ہے جس میں اخوان المسلمون نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں اور ان قربانیوں کے نتیجے میں التحریر سکوائر بنا سکے مگر طاہرالقادری اچانک آکر ایسا کرنے کی بات کرتے ہیں جس سے دکھ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات سے چار پانچ ماہ پہلے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ افواہیں پھیلانا شروع کردی جاتی ہیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے مگر انتخابات ہوجاتے ہیں ۔ آئندہ انتخابات میں اگر امریکہ اور فوج نے مداخلت نہ کی تو غیر متوقع نتائج نکلیں گے اور اگر امریکہ اور فوج نے مداخلت کی تو ہم گہرے تاریک غار میں چلے جائیں گے۔

نظام چلانے کیلئے انتخابات کا ہونا ضروری ہے ملتوی ہونے کا کوئی خدشہ نہیں لوگوں نے نظام کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں۔ گزشتہ 5سال کے دوران حکومت اور اس سے قبل مشرف کے 5سال کے دور میں خارجہ پالیسی پر کوئی کام نہیں ہوا دہشت گردی کے خلاف پالیسی نے ملک کو تباہ کردیا، عمران خان کو طالبان خان کہنے والے بتائیں کہ 8سال ایک پالیسی چلانے سے کوئی فائدہ ہوا وہ پالیسی ناکام ہوگئی ہے۔ اس پالیسی پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ کرپشن ہے دونوں پارٹیوں نے مل کر سب کچھ ہڑپ کرلیا ہے کرپشن کی روک تھام کیلئے کسی پارٹی نے کوئی بل پاس نہیں کیا۔ ان حالات میں ہر پارٹی نے اپنی پارٹی چھوڑ کر آنے والوں کو لبیک کہا۔ کسی پارٹی نے پارٹی الیکشن نہیں کرائے، ایک کروڑ سے زائد کارکنوں کا الیکشن کرانا آسان کام نہیں مگر عمران خان نے پارٹی الیکشن کرانے کامشکل چیلنج قبول کیا یہی اصل جمہوریت ہے۔

اسلم گل(معاون خصوصی وزیراعظم)
پیپلزپارٹی نے ہمیشہ ڈکٹیٹروں کے خلاف لڑائی لڑی اور ہمیشہ جمہوریت کی بات کی، ملک کو آئین دیا ۔ ہم ڈکٹیٹرکا مقابلہ کرکے جمہوریت کو واپس لے کر آئے ، اس جدوجہد میں ہمارے بہت سے ورکروںنے جانیں قربان کیں نہ صرف کارکنوں نے بلکہ ہمارے قائدین ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اپنی جان کی قربانی دے کر جمہوریت بحال کی۔ وہ بھی ملک سے باہر بیٹھ کر سیاست کرسکتے تھے مگر انہوں نے یہ گوارہ نہ کیا بلکہ عوامی سیاست کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی آمریت کو پاش پاش کیا اور جمہوریت بحال کی اور محترمہ بے نظیر نے مشرف کے خلاف جدوجہد کی۔ پیپلزپارٹی نے کبھی انتخابات ملتوی کرانے کی بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ اس کی مخالفت کی۔

لندن کانفرنس میں الیکشن کا بائیکاٹ کرکے انہیں ملتوی کرانے کی بات کی گئی مگر بے نظیر نہیں مانیں اور انہوں نے نواز شریف کو بھی وطن واپس آنے کا موقع فراہم کیاوہ وطن آئے جس کے نتیجے میں پنجاب میں ان کی حکومت بن گئی، ہم بھی حکومت میں کسی ڈکٹیٹر کی وجہ سے یا قبضہ کرکے نہیں آئے بلکہ عوام کے ووٹ سے حکومت میں آئے ہیں۔اب آئندہ انتخابات قریب ہیں تو آئین میں جو طریقہ کار دیا گیاہے اس کے مطابق چلیں گے اور تمام پارٹیوں کی مشاورت سے آئندہ الیکشن کی بات کریں گے۔



ہماری حکومت کے 5سال پورے ہونے میں چند ماہ رہ گئے ہیں، جس دن ہمارا عوام کی طرف سے دیا گیا مینڈیٹ ختم ہوگیا اسی دن نگران حکومت آجائے گی جو 90دن کے اندر الیکشن کرائے گی۔ طاہرالقادری ہمارے بزرگ ہیں ہم ان کی عزت کرتے ہیں مگر وہ کینیڈا کے شہری ہیں وہ اچانک سامنے آئے اور کروڑوں روپے خرچ کرکے اتنا بڑا جلسہ کرلیا جو حکومت بھی نہیں کرسکتی اتنا پیسہ ان کے پاس نہ جانے کہاں سے آیا؟ جلسے پارٹیاں کرتی رہتی ہیں مگر فیصلہ ہمیشہ ووٹ سے ہوتا ہے ۔ اس سے پہلے عمران خان نے بھی لانگ مارچ کیا مگر یہ طریقہ کار جمہوریت کو آگے لے جانے والا نہیں بلکہ اسے ڈی ریل کرنے والا ہے ۔ طاہرالقادری کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے ان کے پیچھے اتنا پیسہ کہاں سے آیا اس کا جلد پتہ چل جائے گاوہ اپنے ایجنڈے میں کامیاب نہیںہوں گے انہیں چاہیے کہ الیکشن میں عوام کے ووٹ کے ذریعے تبدیلی لائیں۔

رانا اکرام ربانی رہنما مسلم لیگ (ن)، سابق قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی
اس وقت ملکی سیاست میں دھند کا ماحول ہے۔ میں نے تاریخ کافی حد تک پڑھی ہوئی ہے اور ملک بنانے کیلئے قائداعظم کی جدوجہد اور علامہ اقبال کے خواب کو ہمیشہ ذہن میں رکھا۔ یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ طاہرالقادری اگر 14جنوری کو اسلام آباد چلے گئے تو اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کاجواب نہیں دیا گیا۔ قادری صاحب سیاست میں پہلی دفعہ نہیں آئے بلکہ اس سے پہلے بھی وہ اسمبلی میں رہ چکے ہیں انہیں چاہیئے تھا کہ اس وقت جدوجہد کرتے کیونکہ اس وقت حقیقی ڈکٹیٹر موجود تھا۔ 6 سال کینیڈا رہ کر وہاں کی شہریت لینے کے بعد اچانک انہیں خیال آیا کہ ملک میں جمہوریت نہیں ہے۔

دنیا میں جتنے بھی بڑے انقلاب آئے ہیں ان میں کوئی لیڈر کہیںنظر نہیں آیا بلکہ عوام جب خود محسوس کرتے ہیں کہ حالات ان کی برداشت سے باہر ہوگئے ہیں تو وہ خود انقلاب لے آتے ہیں اور پھر ان کے اندر سے ہی لیڈر پیدا ہوجاتے ہیں۔ فرانس کے انقلاب کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں عوام سڑکوں پر نکلے اس میں کوئی لیڈر نہیں تھا بلکہ تمام لیڈروں کا کڑا احتساب ہوا۔ غور کریں تو قادری صاحب کے آنے کا وقت بہت اہم اور ایجنڈے کی تکمیل کا ٹائم فریم بہت مختصر ہے۔ ہمارا قومی المیہ ہے کہ جو شخص سیاست کو خدمت کا درجہ دیتا ہے اور عبادت سمجھتا ہے اس کی معاشرے میں وہ حیثیت نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں بھی جمہوریت نہیں ہے۔

صرف کھمبوں پر بینر لگا کر اتنا بڑا اجتماع نہیںکیا جاسکتا بلکہ اس کیلئے خرچ کرنا پڑتا ہے۔اس سے پہلے بھی تبدیلی کے بہت سے نعرے لگتے رہے ہیں، ایوب خان بھی تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے ، نظام مصطفیٰ کے نام پر تحریک چلی جس کے نتیجے میں ضیاء الحق آئے اور انہوں نے بھی تبدیلی کا نعرہ لگایااس کے بعد مشرف نے بھی نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگایا مگر نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلاتاہم نعرہ لگانے والے لوگ ارب ، کھرب پتی ضرور بن گئے۔ ہمارے سسٹم میں اچھے لوگ ملنا مشکل ہے۔ عمران خان کو بھی کہنا پڑا کہ اس نظام میں فرشتے کہاں سے لاؤں ۔

جب تک ان لوگوں سے عوام کی برداشت جواب نہیں دے گی یہی لوگ مسلط رہیں گے۔ سب لوگ اپنے ارد گرد رہنے والوں کو جانتے ہیں اس کے باوجود ووٹ انہی کو دیتے ہیں، جب تک وہ محسوس نہیں کریں گے کہ بہت ہوگیا اس وقت تک تبدیلی ممکن نہیں اور اس میں وقت لگتا ہے۔دنیا بھر میں جہاں بھی جمہوریت مضبوط ہے وہاں اس کیلئے بہت وقت لگا ہے۔ انگلینڈ میں جمہوریت کو اس حالت میں آنے تک کئی سو سال لگے۔ امریکی صدر بھی یہی کہتا ہے کہ ہم ابھی تک پوری طرح جمہوریت نہیں لاسکے۔ میں 50سال سے سیاست میں ہوں تب سے لوگوں کے سوچنے کا انداز بدلتے دیکھا ہے۔ پہلے لوگ پارٹی جھنڈوں کو گوٹے سے سجا کر اپنے گھر کے سامنے الیکشن کیمپ لگاتے تھے، اب لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل گیا ہے، اب لوگ ایسے لوگوں کو منتخب کریں گے جو اسمبلیوں میں جاکر اپنا نہیں پاکستان کا سوچیں گے۔

امیرالعظیم (نائب امیر جماعت اسلامی پنجاب)
پاکستان میں ہمیشہ انتخابات سے پہلے شکوک و شبہات سر اٹھاتے ہیں کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں مگر وہ ہوجاتے ہیں اس کے بعد دھند چھائی رہتی ہے کہ حکومت بنے گی یا نہیں پھر یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ حکومت رہے گی یا نہیں اور رہے گی تو کتنا عرصہ چل سکے گی مگر سب نے دیکھ لیا کہ حکومت اپنے 5سال پورے کر نے کے قریب ہے۔ اسی تاریخ کے تناظر میں یہ سب ہورہا ہے سیاست میں کوئی تبدیلی نہیں ہورہی ہے۔ سیاسی جماعت کا مقصد ایک سوچ اور فکر ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں الیکشن صرف سرداروں اور وڈیروں کے ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹ لے کر یا خرید کر اسمبلی میںجاتے ہیں اور آگے کسی اور کو بیچ دیتے ہیں اسی وجہ سے اسمبلی صرف نام کی ہوتی ہے۔

یہاں ایک تہائی اکثریت والوں کو بھی کان سے پکڑ کر نکال دیا جاتا ہے جمہوریت وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں ایک سوچ کے تحت سیاست کی جاتی ہے وہاں ووٹر، ورکر اور لیڈر کے درمیان ایک چین ہوتی ہے جو انہیں آپس میں جوڑے رکھتی ہے مگر ہمارے ہاں ایک دفعہ ووٹ پڑ جاتے ہیں اور ڈبوں میںبند کرکے رکھ دیئے جاتے ہیں اس کے بعد ووٹر اور لیڈر میںکوئی رابطہ نہیں رہتا۔ حقیقی لیڈر تب بنتے ہیں جب نچلی سطح سے اوپر آتے ہیں ہمارے ہاں جو بندہ ایک پارٹی میںہوتا ہے وہاں بھی لیڈر ہوتا ہے اور جب پارٹی بدل کر دوسری پارٹی میں جاتا ہے تو وہاں بھی لیڈر ہوتا ہے۔ جب تک نچلی سطح سے لیڈر نہیں آئیں گے تب تک تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب میڈیا کے آنے کے بعد حالات میں تبدیلی آئی ہے اب دیکھنے کی بات ہے کہ آئندہ کیا ہوتا ہے۔



طاہر القادری پوری دنیا کے ہنسنے کاسامان کررہے ہیں اور کچھ نہیں ۔جو لوگ سسٹم کا حصہ ہیں وہی ان کے ساتھ ہیں وہ لوگ ہمیشہ سسٹم کا حصہ ہوتے ہیں وہ کبھی حکومت کو نہیں چھوڑتے بلکہ حکومت انہیں چھوڑتی اور دوسری حکومت آجاتی ہے۔ طاہرالقادری کو شیطان کے سب سے بڑے ساتھی امریکہ کے خلاف تو آیات اور احادیث نہیں ملتیں مگر جو لوگ ان کے خلاف جہاد کررہے ہیں ان کے بارے میں احادیث پتہ نہیں کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر لارہے ہیں، اس کی حقیقی پشت پناہی امریکہ کررہا ہے اتنے پیسے لگا کر انہوں نے جو جلسہ کیا ہے اس سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔

قاضی فیض الاسلام ( سیکرٹری اطلاعات تحریک منہاج القرآن)
ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں عوام کا بھی کردار ہو۔ اس وقت الیکشن میں عوام کا کردار صرف اتنا ہے کہ الیکشن میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے لوگ انہیں گاڑیوں میں بھر کر پولنگ سٹیشنز تک لاتے ہیں اور ووٹ لیتے ہیں اس کے بعد ان کا کوئی کردار نہیں رہتا۔ یہ جمہوریت جس میں لوڈ شیڈنگ نے عوام کا جینا محال کیا ہوا ہے، عوام اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں، استاد کی ٹانگیں توڑی جاتی ہیں، عوام کو ریلیف دینے کیلئے آئین میں ایک بھی ترمیم نہیں کی گئی۔

سیاست صرف چند خاندانوں کے گرد گھومتی ہے اور انہی میں سے سلیکشن ہوتی ہے۔ پارٹی امیدواروں سے ٹکٹ کے پیسے لیتی ہے اور پھر 10سے 20کروڑ میں الیکشن لڑا جاتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کا نہیںگھوڑوں کا انتخاب کرتا ہے۔ اس نظام میں عوام کہیں نظر نہیں آتے۔ ہم وہ نظام لانا چاہتے ہیں جس میں پڑھے لکھے ہنر مند لوگ جن کو ان کے والدین نے پیٹ کاٹ کر پڑھایا ہے وہ لوگ آگے آئیں۔ ایسا نظام جس میں عام بندے کی نمائندگی ہو۔ ہر پارٹی پر ایک خاندان کا قبضہ ہے، پاکستان قیام کے بعد سے ہی جاگیرداروں کے قبضے میں چلا گیا۔ سیاست میں تمام لوگ کرپٹ ہیںہم اس نظام کے خاتمے کے بعد حقیقی جمہوریت لانا چاہتے ہیں ۔ اس کیلئے الیکشن کا التواء نہیں چاہتے بلکہ حقیقی جمہوریت جو پٹڑی سے اتر گئی ہے اسے واپس لانا چاہتے ہیں۔

موجودہ نظام کے تحت انتخابات کرانا ملک کو خطرات میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے لانگ مارچ ہمارا جمہوری حق ہے جس میں ہم نے تمام پارٹیوں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہہ چکے ہیں کہ یہ مارچ پرامن ہوگا اور اس میں ایک پتہ بھی نہیں ٹوٹے گا ۔ مسقبل میںہم د وپارٹیوں کی حکمرانی چلنے نہیں دیں گے دو پارٹیاں بند کمروں میں بیٹھ کر عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہیں یہ جمہوریت نہیں بلکہ بدترین آمریت ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں ملک بچانے کیلئے ہمارا ساتھ دیں۔ یہ جو باتیں کی جارہی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی اور کے ایجنڈے پرکام کررہے ہیں وہ جلسے میں قرآن پر حلف اٹھا کر یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ کسی کے ایجنڈے پر نہیں ملک بچانے کیلئے نکلے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں