ٹرک ڈرائیور کا بیٹا ہونے پر فخر ہے

ثقافتوں کی سَت رنگی کہانیاں بیان کرنے والے منفرد ڈراما نگار، ظفر معراج کی کتھا


Alif Khay January 09, 2013
ڈرامے کی زندگی مختصر ہوتی ہے، کوئٹہ کی سردیاں بہت یاد آتی ہیں۔ فوٹو : فائل

تھیلا کیا تھا، عمرو عیار کی زنبیل تھی۔ ہاتھ ڈالا، ایک کہانی نکالی، اور گھر کا ایک کونا پکڑلیا۔ اب کہانیاں تھیں، اور کھڑکیوں پر دستک دیتی سردیاں۔ بچوں کے رسائل سے بھرا یہ تھیلا ایک خالہ زاد کی معرفت کوئٹہ پہنچا تھا، جو ڈیڑھ ماہ شہر قائد کے ایک اسپتال میں زیرعلاج رہی۔ اور جب پلٹی، تو ہاتھ میں رسائل سے بھرا ایک تھیلا تھا۔ اگلے تین ماہ وہ رسائل حرزجاں بنے رہے۔ جب تھیلا خالی ہوا، وجود کہانیوں سے بھرچکا تھا!

یہ ثقافتوں کے چُوکھے رنگوں سے مزین کہانیاں بُننے والے ڈراما نگار، ظفر معراج کی کتھا ہے، جن کی ابتدائی یادیں ''ٹوٹ بٹوٹ''، ''تعلیم و تربیت'' اور''نونہال'' سے نتھی ہیں۔ آٹھویں جماعت ہی میں ''آگ کا دریا'' جیسا دقیق ناول پڑھ ڈالا۔ بعد میں سمجھنے کے لیے اسے دو بار مزید پڑھا۔ اردو کے دیگر ادیبوں کو چاٹنے کے بعد روسی ادب کا چسکا پڑ گیا، جس نے ڈرامانگاری کے لیے تیار کیا۔ پاکستانی ڈرامے کا موضوع نکلا، تو ظفر کہنے لگے،''میں نے بانوقدسیہ سے ڈرامانگاری کا فن سیکھا۔ اُن کا کام اِس شعبے کی بنیاد ہے۔ وہ پہلی عورت ہیں، جنھوں نے عورت بن کر نہیں لکھا۔ یہ بڑا کمال ہے۔''

یوں تو ظفر معراج کے تحریرکردہ تمام ہی ڈرامے ناقدین اور ناظرین کے معیارات پر پورے اترے، البتہ ''امربیل''، ''شانتل''، ''اجازت''، ''کسے وکیل کریں''، ''ماں اور ممتا''، ''پاکستان کا مطلب کیا''، ''عورت اور چار دیواری''، ''لیاری ایکسپریس''، ''پہلا پتھر''، ''گرہن'' اور ''دروازہ'' کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اُن کے قلم سے نکلی ڈراما سیریلز کی تعداد 35 ہے۔ طویل دورانیے کے کھیل بھی لگ بھگ اتنے ہی ہیں۔ مختصر دورانیے کے کھیلوں کی تعداد 50 سے زاید ہے۔

بہترین ڈراما نگار کی حیثیت سے تین پی ٹی وی ایوارڈز اپنے نام کرچکے ہیں۔ ''شانتل''، ''لیاری ایکسپریس'' اور ''گرہن'' کے لیے اُنھیں اِس اعزاز سے نوازا گیا۔ نجی تنظیموں نے بھی انھیں سراہا۔ کئی ایوارڈز حصے میں آئے۔ شاعری اور افسانہ نگاری کے میدان بھی طبع آزمائی کی۔ کئی ڈراموں کے ''ٹائٹل سونگ'' لکھے۔ آج کل فلمیں ظفر کی توجہ کا محور ہیں۔ زیبا بختیار کی ہدایت کاری میں تیار ہونے والی ایک فلم کے اسکرپٹ پر کام کر رہے ہیں۔

حالاتِ زیست کھنگالیں، تو پتا چلتا ہے کہ مشوانی قبیلے کے اِس سپوت نے 11 اکتوبر 1968 کو کوئٹہ میں آنکھ کھولی۔ مستونگ کا علاقہ پنجپائی آبائی وطن ہے۔ وہیں خاندان کی زمینیں تھیں، مگر جب اُن کے والد، سید محمد معراج کے دل میں اولاد کو زیور علم سے آراستہ کرنے کی خواہش نے انگڑائی لی، تو سب چھوڑ چھاڑ کر کوئٹہ چلے آئے۔ سیٹلائٹ ٹائون میں ڈیرا ڈالا۔ وقت کے ساتھ ساتھ زمیں داری جاتی رہی، اور محمد معراج ٹرانسپورٹیشن کے کاروبار میں آگئے۔ ٹرک چلانے لگے۔ تین بہنوں، چار بھائیوں میں بڑے ظفرمعراج اِس تعلق سے کہتے ہیں،''مجھے ایک ٹرک ڈرائیور کا بیٹا ہونے پر فخر ہے!''

بچپن میں بہ ظاہر کم گو اور شرمیلے نظر آنے والے ظفر حقیقتاً انتہائی نٹ کھٹ تھے۔ طبیعت میں مروجہ اصولوں اور روایات کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔ عجیب اضطراب تھا۔ جب طلبا کو قطار میں کھڑا کیا جاتا، تو وہ ترتیب توڑ دیتے۔ شاید یہ منفرد نظر آنے کی خواہش تھی، جو شرارتوں پر اکساتی۔ فٹ بال کو ٹھوکر لگانے کی خواہش نے میدانوں میں خوب دوڑایا۔ بعد میں اسکواش کا تجربہ کیا۔ سیٹلائٹ ٹائون میں شعور کی آنکھ کھولنا وہ اپنی خوش نصیبی قرار دیتے ہیں کہ وہاں مختلف زمینوں سے تعلق رکھنے والے بستے تھے۔ اُسی آبادی نے ثقافتوں کے اُچھوتے رنگوں کا ادراک عطا کیا، لسانی دیواریں پھلانگ کر ہر رنگ سے جُڑنے کا حوصلہ دیا۔

باغی تھے، کھلنڈرے تھے، اصولاً اچھا طالب علم نہیں ہونا چاہیے تھا، مگر حیرت انگیز طور پر پوزیشن ہولڈر رہے۔ 85ء میں سائنس کے اِس طالب علم نے ہیلپر پبلک اسکول، کوئٹہ سے میٹرک کیا۔ اسکول کے دن خوش گوار یاد کی صورت ذہن میں محفوظ ہیں۔ اپنے اساتذہ سرور جاوید اور مہرالنسا کا وہ خصوصی طور پر ذکر کرتے ہیں، جن کے تربیتی ڈھنگ نے اُن کی شخصیت پر گہرے اثرات چھوڑے۔ تعمیر نو پبلک کالج، کوئٹہ سے پری انجینئرنگ کا مرحلہ طے کیا۔ انجینئرنگ کا چنائو شعوری نہیں تھا۔ بس، اضطراب کی انگلی پکڑے چلتے رہے۔ آرمی کا حصہ بننے کی بھی کوشش کی۔ بعد میں سی ایس ایس کرنے کا ارادہ باندھا۔

انٹر کے بعد بلوچستان یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، خصدار کا رخ کیا۔ رہائش ہوسٹل میں تھی۔ آبادکاری کے مراحل سے گزرتے خصدار سے حسین یادیں جُڑی ہیں۔ وہاں نئے دوست بنے۔ ایک ادبی تنظیم بھی قائم کی۔ سیاسی شعور تو زمانۂ طالب علمی ہی میں بیدار ہوگیا تھا۔ یونیورسٹی میں قدم رکھنے کے بعد بائیں بازو کی جانب جُھکتے چلے گئے۔ بابائے بلوچستان، غوث بخش بزنجو اور بلوچی کے نام وَر ادیب اور دانش وَر، عبداﷲ جان جمالدینی کی شخصیت نے اُن کے نظریات کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ابتداً وہ ''ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن'' کا حصہ رہے۔ بعد میں ''بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن'' سے جُڑ گئے۔ 92ء میں سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔

تدریس کی جانب حسام قاضی کی وجہ سے آئے۔ 96ء میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ، کوئٹہ سے وابستگی خاصی سہل ثابت ہوئی کہ ڈرامانگاری کی شہرت ساتھ تھی۔ تن خواہ ڈھائی ہزار روپے تھی۔ جلد ہی تدریس کا پیشہ شوق بن گیا۔ آج یہ ادارہ کالج آف ٹیکنالوجی، کوئٹہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ظفر وہاں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی گوادر انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور گورنمنٹ پولی ٹیکنیک اسکول فار گرلز، تربت کے پرنسپل کی ذمے داریاں بھی کاندھوں پر ہیں۔ آج کل مذکورہ اداروں کو فعال بنانے میں جُٹے ہیں۔ خاندان کراچی میں مقیم ہے، مگر بہ قول اُن کے آوارہ گردی چلتی رہتی ہے، اور یہ تمام معاملات اِسی آوارہ گردی میں نمٹ جاتے ہیں۔

مطالعے کا آغاز بچوں کے رسائل سے کرنے والے ظفر معراج نے لکھنے کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا۔ پہلا افسانہ اردو کے ایک مؤقر اردو اخبار کے ادبی صفحے کا حصہ بنا۔ اِس میدان میں افضل مراد، وحید زہیر اور بیرام غوری کی سرپرستی حاصل رہی۔ شاہ محمد مری کے پرچے ''سنگت'' میں بھی نگارشات نے جگہ پائی۔ ڈرامانگاری کی جانب آنے کے بعد افسانہ نگاری سُکڑنے لگی۔ مطبوعہ افسانوں کی تعداد بیس کے قریب ہے، مگر اُنھیں کتابی شکل دینے کا فی الحال ارادہ نہیں۔ عشق کے تجربے نے جب شاعری کی جانب دھکیلا، تو نظمیں کہنے لگے۔ شعری سفر آج بھی جاری ہے، مگر خود کو شاعر نہیں مانتے۔ اِسی عرصے میں صحافت کا تجربہ کیا۔ خادم لہڑی کے ساتھ ایک ماہ نامہ ''توار'' (آواز) شروع کیا تھا۔ ایک سال بعد اُس سے الگ ہوگئے۔

لکھنے ہی کا شوق ریڈیو لے گیا۔ ابتداً براہوی زبان میں نشر ہونے والے ایک پروگرام کی میزبانی کی۔ پھر ''گیسٹ پروڈیوسر'' کے حیثیت سے ایک گھنٹے پر محیط پروگرام ''گواڑخ'' (گل لالہ) کرنے لگے۔ براہوی میں تو اُن کے آہنگ پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، مگر جب اردو پروگراموں کی میزبانی کرنے لگے، تو باغیانہ خیالات کا فوراً نوٹس لے لیا گیا۔ پی ٹی وی سے بھی اُسی زمانے میں، معروف پروڈیوسر، عطا اﷲ بلوچ کے توسط سے ناتا جُڑا۔ آغاز میں براہوی ادب کے تعلق سے نشر ہونے والے پروگرام ''گواڑخ'' کی میزبانی کی۔ چھے ماہ تک اُس سے بندھے رہے۔ پروگرام کی تیاری کے لیے پورا براہوی ادب پڑھ ڈالا۔ پھر ڈراما نگاری کی جانب آئے۔

براہوی میں مختصر دورانیے کا کھیل ''کونٹ'' لکھا۔ پھر ''دروازہ'' کے عنوان سے اردو میں ڈراما نگاری کا تجربہ کیا۔ اُسی زمانے میں کاروکاری کے موضوع پر ''امربیل'' کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا تھا، جو موت کی منتظر، کاری قرار دی جانے والی لڑکی کی کہانی بیان کرتا تھا۔ یہ افسانہ پی ٹی وی اسٹیشن کی کینٹین میں بیٹھ کر معروف پروڈیوسر، طارق معراج کے سامنے پڑھا۔ جُوں ہی افسانہ ختم ہوا، طارق نے ہاتھ پکڑا۔ اٹھایا، اور اپنے گھر لے گئے۔

جب سات روز بعد وہاں سے نکلے، تو ''امربیل'' ڈرامے کے قالب میں ڈھل چکا تھا۔ طارق معراج کی ہدایت کاری میں مکمل ہونے والا یہ ڈراما 91ء میں کوئٹہ سینٹر سے نشر ہوا۔ ردعمل حیران کن رہا۔ ڈرامے نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ چند ہی دنوں میں نوجوان ظفر کوئٹہ کی معروف شخصیت بن گئے۔ پھر ''سفر'' کے نام سے ایک سیریل لکھی، جسے بہت پسند کیا گیا۔ 94ء میں اُنھوں نے بلوچی زبان میں سات اقساط پر مشتمل ایک سیریل ''شانتل'' لکھی۔ عطااﷲ بلوچ کی ہدایت کاری میں تیار ہونے والی، خانہ بدوشوں کی زندگی پر مبنی اِس سیریل کو ناقدین اور ناظرین، دونوں ہی نے سراہا۔ مقبولیت دیکھتے ہوئے اِسے اردو میں بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اِس بار بھی اسکرپٹ ظفر ہی نے لکھا، جو تیرہ اقساط میں منقسم تھا۔ اِسی ڈرامے نے ظفر کو ملک گیر شہرت دی۔

جب طارق معراج اسلام آباد چلے گئے، تو ظفر کے تحریر کردہ ڈرامے اسلام آباد سینٹر سے نشر ہونے لگے۔ بعد میں دیگر سینٹرز کے لیے لکھا۔ پرائیویٹ پروڈکشن کے لیے تحریر کردہ پہلی سیریل ''اجنبی'' تھی، جس نے پاکستان میں جھنڈے گاڑنے کے بعد ''زی ٹی وی'' کے ذریعے ہندوستانی ناظرین کو گرویدہ بنایا۔ ''سفید پوش'' کے نام سے نشر ہونے والا، 164 اقساط پر مشتمل اُن کا تحریر کردہ ''سوپ'' بھی بہت مقبول ہوا۔ لکھتے رہے، کام یابیوں کا سفر جاری رہا۔ گذشتہ دنوں ''ایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' سے اُن کا سیریل ''ایمان'' نشر ہوا تھا، جسے لکھتے سمے انوکھے تجربات سے گزرے، جو دل کے بہت قریب ہے۔ حالیہ دنوں میں نشر ہونے والے ڈرامے ''سرگوشی'' اور ''اشک'' بھی بہت پسند کیے گئے۔

مقبولیت کا موضوع زیر بحث آیا، تو کہنے لگے کہ ''شانتل'' حقیقی معنوں میں اُن کی پہچان بنا۔ ''دنیا بھر کے بلوچ مجھے اِسی ڈرامے کی وجہ سے جانتے ہیں۔ ایسا ہی معاملہ 'لیاری ایکسپریس' کا ہے، جو خلاف توقع بہت مقبول ہوا۔ گوادر پر لکھی جانے والی سیریل 'دروازہ' بھی بہت پسند کی گئی۔'' پی ٹی وی کے لیے بھی لکھا، پرائیویٹ سیکٹر کے لیے بھی، مگر پی ٹی وی کے ساتھ کام کرکے زیادہ لطف اندوز ہوئے کہ بہ قول اُن کے، وہاں سنجیدہ موضوعات پر قلم اٹھانے کے مواقع میسر تھے۔ شکایت ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے بیش تر افراد ڈرامے کے تقاضوں سے ناواقف ہیں، اپنے کلچر سے کٹے ہوئے ہیں۔

ڈرامے کا مستقبل زیر بحث آیا، تو کہنے لگے،''پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستانی ڈرامے کا معیار گرا ہے۔ ہم تو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں۔ یہ بے جا قسم کا فخر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو اپنی آنکھیں نہیں کھول رہے۔ بے شک اچھا کام بھی ہورہا ہے، مگر وہ مقدار میں بہت کم ہے، اور ڈراموں کی بھرمار میں چُھپ جاتا ہے۔'' موقف ہے کہ ہندوستانی ڈراموں سے موازنہ کرنے کے بجائے ہمیں اپنے معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے مسائل کا احاطہ کرنا چاہیے۔ ''پاکستانی ڈرامے کی صحیح عکاسی کے لیے اُس میں تمام ثقافتوں کے رنگ ہونے چاہییں۔ اگر کردار حقیقی نہ ہوں، پیش کیا جانے والا کلچر مصنوعی ہو، تو بات نہیں بنتی۔''

آج کل پاکستانی چینلز سے نشر ہونے والے غیرملکی ڈرامے موضوع بحث ہیں۔ خاصی تنقید ہو رہی ہے، مگر ظفرمعراج اِس معاملے کو ایک مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں۔ کہنا ہے،''یہ ایک مثبت بات ہے۔ اِس سے مقابلے کی فضا پیدا ہوگی، ہمیں نئی توانائی ملے گی۔ نئے موضوعات، نئے لوگ سامنے آئے ہیں۔ اِس پر Resist کرنے کے بجائے ہمیں اپنا معیار بہتر کرنا چاہیے۔''

ظفر کے مطابق ڈرامے کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے۔ ''دیکھیں، یہ ایک ٹیلی کاسٹ کا معاملہ ہے۔ ڈرامے کی کوئی 'اکیڈمک ویلیو' نہیں ہے۔ ہم ایک ناول جتنی محنت کرتے ہیں، مگر ڈرامے کے برعکس ناول برسوں شیلف میں محفوظ رہتا ہے۔ فلم کی پھر بھی اہمیت ہے۔ میں سمجھتا ہوں، اب ہمیں فلم کی جانب بڑھنا چاہیے۔''

ملکی مسائل زیر بحث آئے، تو کہنے لگے، ''پاکستان کو اُس کے تمام رنگوں کے ساتھ دیکھنا چاہیے، تسلیم کرنا چاہیے۔ اُسے زبردستی شیروانی نہیں پہنانی چاہیے۔'' بلوچستان کا مسئلہ نکلا، تو اُنھوں نے کہا،''آج ہمارے ہاں جو لڑائی ہورہی ہے، اِس کا سبب منہگائی یا بے روزگاری نہیں، سبب شناخت کا مسئلہ ہے۔ شاید ہم نے لوگوں سے اُن کی شناخت چھین لی ہے۔'' وہ امید رکھتے ہیں کہ مایوسی اور بگاڑ کے بھنور سے مسائل کا حل ضرور نکلے گا۔

کیا اسکرپٹ رائٹنگ سے گھر چل سکتا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب تو اسکرپٹ رائٹنگ سے ہونے والی آمدنی سے گھر بن بھی سکتا ہے۔ یوں تو لباس کے معاملے میں کوئی خاص پسند نہیں، البتہ جینز میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ سبزی خور ہیں۔ آج کل کراچی میں مقیم ہیں، اور کوئٹہ کی سردیاں بہت یاد آتی ہیں۔ فوک گائیکی من کے قریب ہے۔ فلموں میں ''آئینہ'' اچھی لگی، جس کی کہانی کے تسلسل میں ایک سیریل اِسی نام سے لکھی۔ گرودت کے کام نے بہت متاثر کیا۔ شاعری میں غالب کے مداح ہیں۔

افسانہ نگاروں میں روسی تخلیق کار پہلا انتخاب ہیں۔ کرشن چندر کے ناول بھی اچھے لگے۔ کہتے ہیں، کرشن کے ناول پوری فلم ہوتے ہیں۔ ''راجہ گدھ'' اور ''اداس نسلیں'' پڑھ کر لطف اندوز ہوئے۔ آج کل کمرشل بنیادوں پر لکھے جانے والے ناولوں کو ظفر المیہ قرار دیتے ہیں۔ ''راہبانیت کو بنیاد بنا کر لکھے جانے والے یہ ناول 'ٹریجڈی' ہیں۔ اٹھارویں صدی میں چرچ نے پیسے دے کر جو ناول لکھوائے تھے، آج ہمارے ہاں وہی ناول لکھے جارہے ہیں۔ دیکھیں، جس تخلیق کار نے اپنی مٹی اٹھائی ہے، اُس کی تحریروں سے مٹی کی خوش بُو آتی ہے۔ اور ایسے کم ہی ہیں۔''

2000 میں شادی ہوئی۔ خدا نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں،''ہم وہ نسل ہیں، جس نے باپ سے بھی مار کھائی، اور بچوں سے بھی مار کھا رہے ہیں!'' لمحۂ موجود میں رہنے پر یقین رکھتے ہیں، ہر پل سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ والد کا انتقال زندگی کا سب سے کرب ناک لمحہ تھا۔ یہ سانحہ 2008 میں پیش آیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں