دیکھا تیرا امریکا سولہویں قسط

ٹائمز اسکوائر پر پہنچ کر میری مثال اُس شخص کی سی تھی جسے اندھیرے کمرے سے ایکدم روشنیوں کے سیلاب میں چھوڑ دیا گیا ہو۔


رضاالحق صدیقی March 05, 2017
کُن انکھیوں سے میں نے اُس لڑکے کی جانب دیکھا لیکن وہ اب اوپر جاتی سیڑھیوں کے پاس جاکر ایک ادھیڑ عمر کے پاس کھڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا، شاید اُن کے مابین سودا پٹ گیا تھا۔

FRANCE:


ٹائمز اسکوائر کی جِھلمل روشنیاں


نیویارک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''The City which never sleeps''۔ ٹائمز اسکوائر پر دن سے رات گزرتے دیکھ کر اِس بات کا احساس کچھ زیادہ ہی ہوا۔ کھوے سے کھوا چِھلتا دیکھنا اور محسوس کرنا ہو تو اِس علاقے میں سیر کیجئے۔

ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ میں کافی وقت لگ گیا تھا، شام کے جھٹ پٹے میں ہم باہر آئے۔ عدیل کہنے لگا دوپہر کا کھانا تو ایمپائر اسٹیٹ کی نذر ہوگیا، اب کہیں کھانا کھاتے ہیں۔ یہاں ہلٹن ہوٹل کی ناک کے نیچے حلال برادرز کی ریڑھی ہے، وہاں سے پلیٹر کھاتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ریڑھی ہے لیکن خریداروں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ ہلٹن ہوٹل والوں نے انہیں وہاں سے ہٹانے کی بڑی کوشش کی لیکن یہ وہیں کے وہیں ہیں بلکہ وہاں رش اور بھی بڑھ گیا ہے۔ وہاں کھانا کھانے کے بعد آج ہی ٹائمز اسکوائر بھی گھوم لیتے ہیں۔ پھر آپ یہ نہ کہیں کہ عدیل نے نیویارک کی بتیاں نہیں دکھائیں۔

حلال برادرز کی ریڑھی پر واقعی اتنا ہی رش تھا جتنا کہ عدیل نے بتایا تھا۔ ہم نے چار پلیٹر لئے جن میں دو رول کی شکل میں اور دو پیالے کی شکل میں تھے۔ یہ عجیب سا ملغوبی تھا، کچھ چاول تھے، کچھ چکن کی باریک باریک بوٹیاں تھیں، کچھ سلاد تھا، کچھ ابلے اور مسلے ہوئے چنے تھے اور مختلف قسم کی ساسز تھیں۔ وہیں سڑک کے کنارے ایک بینک کے باہر اُڑتے ہوئے باز کی شکل کے مجسمے کے ارد گِرد بنی ہوئی پتھر کی منڈیر پر بیٹھ کر اُس کھانے نے بڑا لطف دیا۔




دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)


ٹائمز اسکوائر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ انٹرٹینمنٹ کی دنیا ہے۔ یہاں روشنیوں کی چکا چوند ہے۔ متحرک نیون سائن آنکھوں میں منعکس ہوکر ایک تھری ڈی تصویر بنائے چلے جاتے ہیں۔ میں ایسے دیس سے آیا تھا جہاں بجلی کی کفایت شعاری پر زور دیا جاتا ہے، جہاں نیون سائن لگے تو ہوئے ہیں لیکن انہیں جلنے کی اجازت نہیں، ایسے میں میری مثال اُس شخص کی سی تھی جسے اندھیرے کمرے سے ایکدم روشنیوں کے سیلاب میں چھوڑ دیا گیا ہو۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ روشنیوں کی بھی کوئی زبان ہوتی ہے، میوزک اور روشنی کے باہم اتصال سے جو تھرک پیدا ہوتی ہے وہ کتنی ہیجان خیز ہوتی ہے۔

میں اپنے دیس میں جوہر ٹاؤن سے گزر کر ڈاکٹرز اسپتال کے سِگنل پر رکتا تھا تو سامنے سڑک کی دوسری جانب ایک بِل بورڈ نظر آتا تھا، جس پر نئے متعارف ہونے والے ڈٹرجنٹ پاؤڈر کے ڈبے کی تصویر کے ساتھ اُسی پر کپڑے لٹکاتی عورت کے سائیڈ پوز کی تصویر کا اشتہار نظر آتا تھا، اشتہار قابلِ توجہ تھا، دو تین دن تو بورڈ سلامت رہا، مگر پھر واپڈا ہاؤس جاتے دیکھا تو اُس بورڈ پر سیاہی پھینک کر لکھ دیا گیا تھا کہ عریانی، فحاشی بند کرو، نسوانی چہرہ خواہ ماں کا ہی کیوں نہ ہو فحاشی قرار پاتا ہے۔

اپنے دیس کی ایسی زندگی سے ٹائمز اسکوائر کی اِن روشنیوں میں دیکھنا جہاں رات کو بھی سب کچھ صاف صاف نظر آتا ہے ایک منفرد تجربہ تھا۔ کچھ ایسے مقامات بھی آئے کہ میں جِھینپ کر رہ گیا۔ خاص طور پر بچوں کے ساتھ چلتے ہوئے، مگر حیرت اُس وقت ہوئی جب بچے ایسے مناظر پر توجہ دئیے بغیر چلے جا رہے تھے۔ ویسے بھی اُن کی عینکوں میں جھانکنے سے بھی کوئی تاثر نظر نہ آ پاتا کہ اُن کی آنکھوں کو، عینک کے شیشوں پر پڑنے والے اشتہاروں کے عکس نے چُھپا رکھا تھا۔ ایک میں ہی تھا جو عینک کے بغیر تھا اور میرے لئے اپنے تاثرات چُھپانا خاصا دشوار ہورہا تھا۔

یہ درست ہے کہ عمر خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوگئی ہو، مرد کا دل راکھ میں دبی اُس سلگتی چنگاری کی مانند ہوتا ہے جو کسی بھی وقت بھڑک سکتی ہے۔ وہاں ایک دوسری بات کا بھی تجربہ ہوا کہ شوبز کے لوگ اور ہماری نئی نسل ہر وقت عینک کیوں پہنے پھرتی ہے کہ دل کی زباں آنکھ ہوتی ہے جس سے اندر کے جذبات جھلک سکتے ہیں۔ بچوں نے اگر کچھ محسوس کیا بھی ہوگا تو کسی کو نظر نہیں آیا، ویسے بھی وہاں یہ باتیں اتنی عام ہیں کہ کوئی کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتا تک نہیں۔ یہ شاید میرا ہی احساس تھا۔ مجھے البتہ اپنی بزرگی اور سنجیدگی کا احساس دلائے رکھنا تھا کیونکہ میری آنکھ کی پتلیوں میں منجمد عکس تو ہر وقت منعکس ہونے کو تیار رہتا تھا۔

ایک زمانہ تھا کہ ٹائمز اسکوائر، فحاشی اور عریانی کا مرکز ہونے کی وجہ سے معززین کے جانے کی جگہ نہ تھا۔ مختلف مافیا یہاں دندناتے پھرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ سن 1904ء کے لگ بھگ نیویارک کے دبنگ گورنر کی کارروائیوں اور نیویارک ٹائمز کے ہیڈ کوارٹرز کی یہاں منتقلی نے ایک تبدیلی تو یہ کی کہ اِس جگہ کا نام ''لونگ ایکر اسکوائر'' سے ٹائمز اسکوائر ہوگیا، دوسرے یہاں سے مافیا کا خاتمہ ہوا، اور شرفاء کی یہاں آمد و رفت شروع ہوئی۔

نئے سال کی آمد کا دنیا میں سب سے بڑا جشن ٹائمز اسکوائر میں برپا ہوتا ہے جس میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ اِس جشن کا اہم ترین جزو 'بال ڈراپ' ہے، جو سن 1907ء سے جاری ہے۔ 31 دسمبر کو رات گیارہ بج کر 59 منٹ پر ٹائمز ٹاور یا ون ٹائمز اسکوائر پر نصب 141 فُٹ بلند فلیگ پول سے ایک بہت بڑا گیند روشنیوں میں نہایا ہوا 60 سیکنڈ میں نیچے کی طرف آتا ہے۔ یہ نئے سال کو خوش آمدید کہنے کا سگنل ہوتا ہے۔ اِس گیند کے نیچے پہنچتے ہی رنگ و نور بکھیرتی آتش بازی شروع ہوجاتی ہے۔

یہ تو تھا ایک سرسری سا تعارف ٹائمز اسکوائر کا۔ خیر۔ ٹائمز اسکوائر میں اِس وقت ایک خوبصورت جوڑا میرے آگے آگے چل رہا تھا اور ہمیں اُن کی پیروی کرنا تھی، کیونکہ اجنبی جگہ جہاں انسانوں کا سمندر ہو، گم ہوجانے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ کچھ ہی دور چلے ہوں گے کہ سڑک کے کنارے مجسمہِ آزادی کھڑا نظر آیا اور مزے کی بات یہ تھی کہ یہ مجسمہ ہِل بھی رہا تھا اور دائیں بائیں جھُک بھی رہا تھا اور لوگ اُسے گھیرے ہوئے تھے اور اُس کے ساتھ کھڑے ہو کر تصاویر بنوا رہے تھے۔

میرا حسین جوڑا، یعنی رابعہ اور عدیل اُس کے پاس جا کر رک گئے تھے، بس پھر کیا تھا بچوں کے پُر زور اِصرار پر ہم نے اس ہِلتے جُلتے مجسمہِ آزادی کے ساتھ تصاویر بنوائیں لیکن یہ بِلا معاوضہ نہ تھیں اس کے لئے مجسمے کو معاوضہ دیا گیا۔ کیونکہ وہ اِس کے بغیر تصویر کھنچوانے پر تیار ہی نہ تھا جبکہ بچے ماما، پاپا کی ایک فنی سی تصویر بنانے پر مصر تھے۔

جس جگہ وہ مجسمہ کھڑا تھا اُس کے دائیں جانب ڈزنی اسٹور تھا، عنایہ ساتھ ہو اور ایسے اسٹور میں نہ جایا جائے یہ ممکن ہی نہیں تھا اس لئے اسٹولر کا رُخ اُس اسٹور کی جانب تھا۔ اب یہ بتانے کی تو ضرورت نہیں ہے کہ ہم بھی ساتھ ہی تھے۔

یہ اسٹور کئی منزلہ ہے جو کھلونوں اور ملبوسات سے بھرا ہوا تھا۔ اوپری منزل بھی اُسی طرح بھری ہوئی تھی فرق یہ تھا کہ وہاں بچوں کے کھیلنے کی بھی قابلِ توجہ کئی چیزیں تھیں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ہمارے پاس اسٹولر تھا جو دوسری منزل پر نہیں جاسکتا تھا اور کسی نہ کسی کو وہاں ٹھہرنا تھا۔ عنایہ کی دادی کا خیال تھا کہ وہ اسٹولر کے پاس کھڑی ہوتی ہیں جبکہ میرا خیال تھا کہ دادی کو بچوں کے ساتھ اوپر کا چکر لگا لینا چاہئیے۔ میں دروازے کے بائیں جانب اسٹولر کو دیوار سے لگا کر وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ وہاں کئی دوسرے افراد بھی کھڑے تھے، ابھی مجھے وہاں کھڑے اور باقی سب کو اوپر گئے چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ میرے کندھے پرکسی نے بے تکلفی سے ہاتھ رکھ دیا۔

میں نے چونک کر اُدھر دیکھا۔ ایک نوخیز سا، خوبصورت سا گورا چٹا سفید فام لڑکا میرے ساتھ چپک کر کھڑا تھا اور اِس نے ہاتھ بھی میرے کندھے پر ٹِکا دیا تھا، وہاں اور بھی لوگ کھڑے تھے لیکن کسی کی توجہ ہماری جانب نہیں تھی۔ اب اس لڑکے نے بڑی بے تکلفی سے پوچھا

''ایشین؟''

''یس! ایشین''

اس نے پھر پوچھا، where you from

میں نے جواب دیا، from Pakistan

Wow, do you want company of a young chap like me? I will entertain you better than a girl

میں نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ یا سُن تو نہیں رہا، لیکن وہاں ہر کوئی اپنی دُھن میں مگن تھا، میں نے اپنے پسینے بھری پیشانی کے ساتھ اُس کی جانب دیکھا۔ اُس کے معصوم سے چہرے پر خوبصور ت آنکھوں میں بے حیاء سی چمک تھی، میں نے کندھے پر آئے اُس کے ہاتھ کو جھٹک کر پرے کیا اور اپنے اور اِس کے درمیان اسٹولر کھڑا کرلیا۔

امریکی قانون کے مطابق ہر شخص کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے کہ وہ جو چاہے، جس طرح چاہے زندگی بسر کرے۔ مرد عورت میں آزادانہ میل جول یا لڑکی لڑکے میں جنسی آزادی ہمارے معاشرے میں بُری بات ہے لیکن امریکی معاشرے میں اِس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ کوئی جوڑا شادی کرکے گھر بسائے، بچے پیدا کرے یا شادی کے بغیر شوہر و زن کی طرح رہیں، بچے بھی پیدا کرلیں، تعلقات بھی نبھائیں یا توڑ دیں، حکومت کی جانب سے اِس بات پر کوئی پابندی نہیں۔

چودہ، پندرہ برس کی عُمر میں بچے ماں یا والدین سے الگ ہوجاتے ہیں۔ خود کماتے ہیں، خود زندگی کا بوجھ اُٹھاتے ہیں، لڑکے لڑکیاں جنسی بے راہ روی کا اِسی عمر میں شکار ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ برس ہی امریکی صدر نے ہم جنس پرستی کو قانونی قرار دینے کے بل پر سائن کرکے اُس شخصی آزادی کو اور بڑھاوا دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ خوبرو لڑکا اپنی اِسی شخصی آزادی کا اظہار کر رہا تھا۔

میں دعا کر رہا تھا کہ بچے اوپری منزل سے جلدی نیچے آجائیں لیکن عنایہ اوپر شاید کسی کھیل میں اٹک گئی تھی کہ نیچے آنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کُن انکھیوں سے میں نے اُس لڑکے کی جانب دیکھا لیکن وہ اب اوپر جاتی سیڑھیوں کے پاس جاکر ایک ادھیڑ عمر کے پاس کھڑا ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا، پھر دونوں میرے سامنے سے ہوتے ہوئے اسٹور سے باہر نکل گئے، شاید اُن کے مابین سودا پِٹ گیا تھا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ جب امریکہ میں ہم جنس پرستی کو ایک لعنت اور غیر اخلاقی رویہ سمجھا جاتا تھا تو ہمارے مشرق میں اسی عطار کے لونڈے سے دوا لی جاتی تھی۔ اردو شاعری لڑکوں کے گیتوں سے بھری پڑی ہے اور ہم اسے ''علتِ مشائخ'' کا نام دیتے تھے، میں تو عطار کے انگریز لونڈے کے کندھے پر ہاتھ رکھنے سے ہی گھبرا گیا تھا لیکن پاکستان کے شمال مشرقی حصوں میں یہ سرگرمی تہذیب کا ایک حصہ ہے وہاں کے شرفاء اس دھج کے ساتھ نکلتے ہیں کہ اُن کے ساتھ اُن کا محبوب بہت بنا ٹھنا ساتھ ہوتا ہے۔

بچوں کے نیچے آتے ہی ہم ڈزنی اسٹور سے باہر آگئے۔ ہماری بیگم کہا کرتی ہیں کہ آپ جھوٹ نہیں بول سکتے، آپ کا چہرہ آپ کا ساتھ نہیں دیتا۔ ڈزنی اسٹور سے تھوڑا آگے آکر دائیں مُڑتی سڑک کو پار کرنے کے لئے ہم رک گئے کہ پیدل چلنے کا اشارہ بند تھا۔ میرے چہرے پر دھنک رنگ تھے اور بچے میرے چہرے کو دیکھ رہے تھے جس پر سامنے لگے کوکا کولا کی بوتل کے نیون سائن کی سرخ روشنی دیارِ غیر میں اِس غیر متوقع واقعہ کی بناء پر میرے پہلے سے سرخ ہوتے چہرے کے راز کو افشا کرتی محسوس ہو رہی تھی۔ ایسا راز جو بن چکھی مے کی مانند تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں